شکریہ کیوی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن


ہم سے ہزار کوس دور نیوزی لینڈ ایک ایسا خطہ جو ہماری دسترس سے کہیں دور رہا۔ تاریخ میں آج تک کسی بھی مسلم حکمران یا داعی نے اس طرف نہیں دیکھا، نہ ہی کبھی کوئی باقاعدہ دعوتی مشن اس طرف روانہ کیا گیا۔ 1850 ء میں جب برصغیر میں اسلامی حکومت پر زوال آیا تب ایک انڈین گجراتی مسلم فیملی نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں آ بسی۔ اس کے بعد کچھ دیگر ممالک کے مسلمان مہاجرین اس طرف وقتا فوقتا رخ کرتے رہے۔ نیوزی لینڈ میں 1950 تک مسلمان بہت ہی معمولی تعداد میں رہے۔ جن کی نہ کوئی شناخت تھی اور نہ عبادت گاہ۔ 1951 ء میں یوگوسلاویہ سے ہجرت کر کے انے والے ”مظہر سکری“ نے پہلی دفعہ نیوزی لینڈ کے مختلف شہروں میں بکھرے ہوئے مسلمانوں سے رابطہ کر کے ان کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جن میں زیادہ تر پاکستانی، لبنانی اور انڈین مسلمان شامل تھے۔ 1979 ء میں مظہر سکری رح نے فیڈریشن آف اسلامک ایسوسی ایشنز آف نیوزی لینڈ FIANZ کی بنیاد رکھی جس سے مسلمانوں کو نیشنل لیول پر ایک پہچان ملی۔

جس کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے لئے ”حلال خوراک“ اور دیگر مسائل کے حل کی کوششیں شروع کی گئیں۔ 1984 ء میں ایک پاکستانی مسلمان سائنسدان ڈاکٹر اشرف چوہدری اسلامک ایسوسی ایشن FIANZ کے صدر منتخب ہوئے اور ان کے دور میں ہی نیوزی لینڈ میں پہلی باقاعدہ مسجد بنائی گئی جس کا نام ”النور مسجد“ رکھا گیا اور باقاعدہ دعوتی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ ڈاکٹر اشرف صاحب نے نیوزی لینڈ کی لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے قومی سیاست میں بھی قدم رکھا اور 2002 ء میں نیوزی لینڈ کے پہلے مسلمان سینیٹر منتخب ہوئے۔ ان کے حلف اٹھانے کے لئے نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں پہلی دفعہ قرآن پاک لایا گیا۔ 9 / 11 کے بعد یہاں کے باشندوں میں بھی اسلام کے بارے میں مزید تجسس پیدا ہوا جو بہت سے لوگوں کے اسلام قبول کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

مجموعی طور پر نیوزی لینڈ ایک پرامن ملک ہے جہاں مختلف رنگ، نسل اور مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ خوش و خرم بس رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کی پولیس بھی عام طور پر اسلحہ کے بغیر ہوتی ہے۔ ملک میں عدل و انصاف کا مثالی نظام قائم ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرتے اور جینے کا مکمل حق دیتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے 15 مارچ 2019 ء کو ایک سفید فام دہشت گرد نیوزی لینڈ کی سب سے بڑی اور پرانی مسجد ”النور“ میں گھستا ہے اور جمعہ کی نماز کے لئے آنے والے نہتے مسلمانوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دیتا ہے۔

جس کے نتیجے میں پچاس سے زیادہ شہادتیں موقع پر ہو جاتی ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک کی طرف میتیں روانہ کی جاتی ہیں۔ تمام عالم اسلام غم اور غصے کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مگر نیوزی لینڈ کی حکومت اور مقامی آبادی اس موقع پر بہترین کردار ادا کرتے ہوئے کھل کر اقلیتی مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ مساجد میں شہریوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ لوگ شہداء کے لواحقین کو پھولوں کے گلدستے پیش کرتے ہیں۔ وزیراعظم نیوزی لینڈ جیسنڈا آرڈرن اس واقعہ کو دہشت گردی قرار دیتی ہیں اور مسلمانوں کے غم کو اپنا غم ڈکلیئر کرتی ہیں۔

حتی کہ سر پر دوپٹہ اوڑھے اسلامی لباس میں مسجد النور میں تعزیت کے لئے جاتی ہیں اور روتی بیواوں اور یتیم بچوں کو اپنے گلے کے ساتھ لگاتی ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ فوراَ مجرم کو پکڑ کر اس پر فرد جرم عائد کر کے عدالتی کارروائی شروع کردی جاتی ہے اور ملکی اسلحہ کے قوانین میں ترمیم کر دی جاتی ہے جس پر عمل درآمد جلد متوقع ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی مزید دلجوئی کے لئے پارلیمنٹ کا اجلاس شروع کرنے سے پہلے تلاوت قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

بین الاقوامی طور پر مسلمانوں کو دہشت گردی اور اسلاموفوبیا کا شکار مانا جاتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر دل میں وزیراعظم جیسنڈا کے لئے عزت و احترام بہت بڑھ جاتا ہے کہ انہوں نے کتنے احسن طریقے سے اس سانحہ کا سامنا کیا۔ اللہ تعالی کا بھی الگ ہی قانون ہے کہ اس حملے سے سفید فام دہشت گرد کی خواہش مٹی میں مل جاتی ہے۔ ایک دفعہ پھر نیوزی لینڈ کے عوام مساجد کا رخ کرتے ہیں لیکن اس بار مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے نیوزی لینڈ کے دیگر عوام بھی مسجد کا رخ کرتے ہیں۔ مسلمان نماز پڑھتے ہیں اوردیگر مذاہب کے ماننے والے ان کی حفاظت کے لیے صفوں کے پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں اور کچھ اطلاعات کے مطابق تو غیرمسلم مسجد میں اسلام بارے متجسسانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے سوالات کررہے ہیں۔ اقبالؒ کا شعر ملاحظہ کریں

ے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے

پاسباں مِل گئے کعبے کو صنَم خانے سے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).