ہمیں بے گناہ قتل کیا جا رہا ہے، ہماری مدد کریں گے، پلیز


ڈیرہ اسماعیل خان میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے معاملے پہ غور کرتے ہوئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ اجلاس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور سیاسی نمائندوں کو بلا کر معاملے کا جائزہ لیا جائے گا۔ اسی اجلاس میں چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ ہم سب کو ڈی آئی خان میں جاری ٹارگٹ کلنگ پہ سخت تشویش ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر پولیس کیوں عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔

کاؤنٹر ٹیرر ازم کے ایس پی نے اس کا جواب کچھ یوں دیا کہ ”پولیس نے دہشتگرد مذہبی جماعت کے خلاف ڈی آئی خان میں کریک ڈاؤن کیا ہے، ڈیرہ میں فرقہ وارانہ اور دہشتگرد تنظیموں کے درمیان گٹھ جوڑ ہے، پولیس نے اس تنظیم کے کچھ افراد کو گرفتار کیا ہے جبکہ کچھ مارے گئے ہیں۔ “ اراکین کمیٹی کے لئے یہ جواب اس حد تک ”اطمینان بخش“ تھا کہ انہوں نے آئندہ اجلاس میں مقامی نمائندوں کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مگر ساتھ ہی اس بات کا فیصلہ اور اختیار بھی ضلعی انتظامیہ نے کرنا ہے کہ قائمہ کمیٹی کے سامنے کون سے مقامی نمائندے پیش ہوں گے۔ ؟ وہ جو صوبائی اور ضلعی سطح پہ ہونے والی میٹنگز اور اجلاسوں میں ضلعی انتظامیہ، سکیورٹی فورسز اور پولیس کی کارکردگی کو ہمیشہ ہی لائق تحسین، قابل ستائش قرار دیتے ہیں اور ہر موجودہ آر پی او، ڈی پی او، سکیورٹی فورسز کے اعلٰی افسران کو سپاس نامے پیش کرتے ہیں یا وہ جنہیں اداروں اور حکومت پہ کڑی تنقید کے الزام میں یا تو من گھڑت کیسز کا سامنا ہے یا پھر دھمکیوں کا۔

 ڈی آئی خان کس حد تک مسلح دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں میں یرغمال ہے، اس کا اندازہ دہشتگردی کے تازہ ترین دو سانحات سے لگایا جاسکتا تھا۔ 24 فروری کو اسلامیہ کالونی کی مرکزی گلی میں پولیس چوکی سے محض چند گز کے فاصلے پہ ٹی ایم اے کے دو اہلکار آپس میں مصروف گفتگو تھے۔ موٹر سائیکل پہ سوار دو نامعلوم افراد نے ان اہلکاروں کے بالکل قریب آکر موٹر سائیکل روکا اور نہایت قریب سے قیصر عباس شائق پہ فائرنگ کی۔

دلاور علی نامی دوسرے اہلکار نے فائرنگ کرنے والے کو پکڑنے کی کوشش کی تو پیچھے موجود ایک اور موٹر سائیکل پہ سوار دو افراد یک دم سر پہ پہنچ گئے اور دلاور علی پہ فائرنگ کر دی۔ متعدد گولیاں لگنے سے یہ اہلکار بھی زندگی کی بازی ہار گیا۔ دونوں اہلکار اہل تشیع مسلک سے تعلق رکھتے تھے، دونوں ہی خالصتاً ڈیرے وال سرائیکی تھے۔ دہشتگردی کا نشانہ بننے والے دونوں افراد کافی دیر تک جائے وقوعہ پہ پڑے رہے۔ سامنے ہی موجود پولیس ناکے پہ تعینات اہلکاروں نے نہ ہی حملہ آوروں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کی اور نہ ہی ان زخمیوں کی فی الفور ہسپتال منتقلی کے لئے کوئی عملی اقدام کیا۔

ٹی ایم اے کے اہلکاروں اور رشتہ داروں نے دونوں کو اٹھایا اور ہسپتال منتقل کیا۔ ڈی پی او اور آر پی او نے بعد ازاں جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور قریبی ناکے و چوکی پہ موجود اہلکاروں کی سخت سرزنش بھی کی۔ اس واقعہ کے بعد شہر بھر کی پہلے سے سخت سکیورٹی کو دوبارہ سخت کر دیا گیا۔ سڑکوں پہ گشت پولیس اور سکیورٹی فورسز کا گشت بڑھ گیا۔

یکے بعد دیگرے دو آر پی او اور دو ڈی پی او کے تبادلے کر دیے گئے۔ نئے ڈی پی کو چارج لئے محض چند روز ہی ہوئے تھے کہ تھانہ یونیورسٹی کی حدود میں دہشتگردی کا ایک اور سانحہ رونما ہوا۔ نواب کے علاقے میں حق نواز تحصیلدار کے گھر کے دروازے پہ رات کے وقت دستک ہوئی۔ غلام عباس نے دروازہ کھولا تو تین موٹر سائیکل پہ سوار چھ افراد موجود تھے۔ جنہوں نے خود کو کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کا اہلکار بتایا اور تفتیش کی غرض سے ساتھ چلنے کو کہا۔

غلام عباس کے پس و پیش پہ مسلح افراد نے انہیں گن پوائنٹ پہ لے لیا۔ اس دوران دونوں گھروں میں موجود چچا، والد، بیٹا اور بھتیجا باہر آئے۔ خود کو سرکاری اہلکار بتانے والوں نے ان تمام افراد پہ فائرنگ کر دی۔ جس کی زد میں آکر غلام عباس اور غلام قاسم موقع پہ ہی جان کی بازی ہار گئے جبکہ حقنواز، شاہنواز شدید زخمی ہوئے۔ اہل علاقہ نے اپنی مدد آپ کے تحت جاں بحق اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا۔

یہ محض اتفاق نہیں کہ دہشتگردی کی اس کارروائی میں بھی نشانہ بننے والے اہل تشیع مسلمان اور ڈی آئی خان کے سرائیکی شہری تھے۔ اس حملے میں حملہ آوروں کی تعداد کا تعین کرنا ذرا مشکل ہے، تعداد کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسلامیہ کالونی واقعہ میں حملہ آوروں کے پیچھے اتنی ہی تعداد میں حملہ آور بیک اپ یا دفاع پہ موجود تھے، اگر یہاں تین موٹر سائیکل پہ چھ افراد پہنچے تو تقریباً اتنی ہی تعداد ان کے بیک اپ پہ موجود ہوگی، جبکہ کچھ عرصہ قبل پروا میں پولیس وین پہ حملہ کرنے والوں کی تعداد درجن سے زائد تھی۔

چنانچہ کارروائیاں کرنے والے کوئی انفرادی حیثیت میں سرگرم نہیں بلکہ گروہ کی صورت میں موجود ہیں اور اپنی قوت و طاقت کا اظہار ہر حوالے سے کر رہے ہیں۔ چنانچہ تحقیق و تفتیش کا رخ بھی انفرادی حیثیت میں افراد کے خلاف کرنے کے بجائے ان سرگرم گروہوں اور ان کے حمایتوں یا سہولت کاروں کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے، جنہوں نے ظلم و دہشت کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔

قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس کے بعد بھی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ تحصیل کلاچی کے علاقے میں سی ٹی ڈی کے حوالدار اور مریالی کے علاقے میں پولیس کانسٹیبل پہ ٹارگٹ کلرز حملہ کرچکے ہیں، جن میں سے ایک اہلکار جاں بحق اور ایک شدید زخمی ہے۔ گذشتہ دو عشروں میں ڈیرہ اسماعیل خان میں سینکڑوں افراد کو ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں نشانہ بنایا گیا ہے۔ مسلکی اعتبار سے سب سے زیادہ نشانہ اہل تشیع مسلمان بنے ہیں، جبکہ لسانی یا قومی اعتبار سے دیکھیں تو اس شہر میں صرف سرائیکیوں کا بہیمانہ قتل عام جاری ہے، یہاں تک کہ جو پولیس اہلکار ٹارگٹ کلنگ کا بھی نشانہ بنے تو ان میں سے بھی بیشتر سرائیکی وسیب سے تعلق رکھتے ہیں۔

پیشے کے اعتبار سے دیکھیں تو سب سے زیادہ حملے محکمہ پولیس سے تعلق رکھنے والے افراد پہ ہوئے ہیں۔ گذشتہ تین عشروں میں دہشتگردانہ حملوں میں شہید یا زخمی ہونے والوں کو آپ کسی بھی کیٹگری میں تقسیم کریں، بہرحال جو شناخت سب سے زیادہ نشانہ بن رہی ہیں۔ اہل تشیع (چاہے کسی بھی پیشہ، قوم یا سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو) سرائیکی (بیشتر شیعہ و بریلوی مسلک) ، پولیس (چاہے کسی بھی مسلک یا زبان سے تعلق رکھتا ہو ماسوائے سلفی، وہابی شناخت کے )

حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا
کوئی ٹھہرا نہیں حادثہ دیکھ کر

المیے سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ جو شناخت سب سے زیادہ قتل ہو رہی ہے، اسی کی نمائندگی کے دعویدار زیادہ بے حسی، سمجھوتوں اور وسیع تر مفادات کی ریشمی لچھے دار ڈوریوں سے الجھے ہوئے ہیں۔ مثلاً سب سے زیادہ سرائیکی شناخت قتل ہو رہی ہے، مگر سرائیکی قوم پرست، سرائیکی صوبے کے نام نہاد معمار اور سرائیکی قوم کے حقوق کی نام نہاد جنگ لڑنے والے رہنماء سب سے زیادہ اس قتل عام پہ خاموش ہیں۔ ان کی خاموشی کو سرائیکیوں کے قتل عام کی حمایت کے مترادف سمجھا جائے یا نہیں؟ یہ سوال اپنی جگہ۔

مسلک کی بنیاد پہ اہل تشیع کا قتل عام اتنی سرعت کے ساتھ جاری ہے کہ اس پہ نسل کشی کا گمان ہوتا ہے۔ اس قتال پہ اہل تشیع کی نام نہاد مذہبی تنظیموں و سیاسی جماعتوں کی بے حسی ملاحظہ فرمائیں کہ ان جماعتوں کی قیادت کے نزدیک یہ معاملہ اتنا اہم ہی نہیں کہ اس کے حل کے لئے وہ اکٹھے بیٹھ کر کوئی مشترکہ، متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیں یا اپنی حلیف سیاسی جماعتوں کو اس معاملے کے حل کے لئے کوئی قابل عمل واضح اقدام لینے پہ آمادہ کریں۔

اہل تشیع کی قیادت کی سب سے بڑی دعویدار جماعت شیعہ علماء کونسل جے یو آئی کی پرانی حلیف ہے۔ ایک جانب قربت کا یہ عالم کہ دونوں سرکاری و مختلف پلیٹ فارم کے عہدوں کی تقسیم میں برابر کے شریک اور دوسری جانب دوری کا یہ عالم کہ جے یو آئی کے کسی ایک رہنما نے آج تک شیعہ قتل عام پہ ایک لفظ تک ادا نہیں کیا اور نہ ہی حملہ آوروں کی یا حملوں کی مذمت کی۔ نہ ہی ایم ایم اے کے سربراہی اجلاس میں اس اہم مسئلہ کو قابل غور سمجھا گیا، اس کے مقابلے میں خواتین ڈے پر چند عورتوں کے بعض کتبے، عمران خان کی شادیاں، کردار، یہودی سازشوں والے موضوعات ان دینی جماعتوں کے لئے زیادہ مقدم رہے۔ اسی طرح دیگر شیعہ جماعتوں ایم ڈبلیو ایم، نفاذ فقہ جعفریہ اور دیگر تنظیموں کے نزدیک بھی یہ معاملہ قابل سمجھوتہ ہے شاید۔

تیسری شناخت جو سب سے زیادہ تسلسل کے ساتھ دہشتگردی کا نشانہ بن رہی ہے، وہ پولیس اہلکار ہیں۔ آئی جی پولیس صوبے میں پولیس اہلکاروں کے سرپرست کا درجہ رکھتا ہے، چونکہ ہمارا مشرقی معاشرہ ہے، ہمارے معاشرے میں ہر سرپرست کو والد کی جگہ سمجھا جاتا ہے۔ باپ کا درجہ رکھنے والے اس سرپرست کی بے حسی اور قاتلوں کی حمایت اور دفاع پہ مبنی بیان ملاحظہ فرمائیں۔ آئی جی خیبر پختونخوا نے اسی قائمہ کمیٹی کو گذشتہ برس 8 مارچ کو یہ بتایا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں نہ ہی فرقہ واریت ہو رہی ہے اور نہ ہی دہشتگردی۔ جو کچھ ہو رہا ہے دو مسلح گروہوں کے مابین آپس کی جنگ ہے۔

اگر کبھی شہدائے پولیس کے لواحقین اس آئی جی کے گریبان تک پہنچے تو وہ ضرور اس بابت سوال کریں گے کہ ہمارے پیاروں کی کس کے ساتھ کون سی دشمنی تھی۔ ؟ اور وہ اس میں حق بجانب بھی ہوں گے، کیونکہ آئی جی کے اس بیان نے شہدائے پولیس کی قربانیوں کو گہن لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

ایک سال پہلے تو پولیس کے سرپرست کا یہ بیان تھا، ایک سال بعد عملی طور پہ اخلاص یوں سامنے آرہا ہے کہ ڈیرہ کو لیبارٹری سمجھ کر ہر دو مہینے بعد ایک نئے آر پی او، ڈی پی او کو یہاں تعینات اور پرانے کو کہیں اور منتقل کیا جا رہا ہے۔ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ اگر اتنی ہی مخلص ہے تو پیپلز پارٹی دور میں جب ڈی آئی خان سے کالعدم سپاہ صحابہ کے سرپرست خلیفہ قیوم ممبر صوبائی اسمبلی تھے، کے دور میں پولیس اور دیگر محکموں میں ضلعی سطح پہ ہونے والی بھرتیوں کا آڈٹ کرائے۔

خلاف ضابطہ بھرتیوں کو کالعدم قرار دے۔ ممکن ہے کہ اداروں میں چھپی نصف کالی بھیڑوں اور نامعلوم قاتلوں کا سراغ ملے۔ گذشتہ آٹھ سے دس سال میں سی ٹی ڈی اور آر آئی یو میں ہونے والی تفتیش اور اس تفتیش کے نتیجے میں مرتب ہونے والی رپورٹس منگوائے اور اپنی نگرانی میں ان پہ ایک مختصر سی ٹیم کے ذریعے تحقیقات کرائے، ممکن ہے کچھ اشرافیہ بھی اس حمام میں ننگی ہو اور نامعلوم قاتل بھی سب کو معلوم ہو جائیں۔

سرکاری اداروں بالخصوص واپڈا اور سوئی گیس کے ریکارڈ بالخصوص نئے کنکشنز اور تبادلوں کے کاغذات کا آڈٹ کرائے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا کہ کون سی سیاسی، مذہبی جماعت یا کالعدم دہشتگرد گروہ اپنی شناخت کے ساتھ تاحال سرکار کے لئے کتنا مقدم ہے۔ ان تمام ایف آئی آرز کی اپنی نگرانی میں تحیقق کرائے کہ جن میں دہشتگردی کے سامان کے ساتھ افراد گرفتار ہوئے اور ان سے ہونے والی تفتیش میں کون کون سے نام اور جائے سہولت سامنے آئے، نیز ان کے خلاف پولیس نے کارروائی کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی۔ کارکردگی کی بنیاد پہ آر پی او اور ڈی پی او کی تعیناتی عمل میں لاکر چند برس تک ان کے تبادلوں پہ پابندی کا نوٹی فیکیشن جاری کرائے۔

سچ پوچھیے تو شہر کے مکینوں کی حالت چکن شاپ کے پنجرے میں موجود مرغیوں کی سی ہے۔ ایک نامعلوم ہاتھ لوہے کی سلاخوں کو اطمینان کے ساتھ کھول کے اندر آتا ہے۔ ایک مرغی کو پکڑتا ہے، وہ چیختی ہے، سب خاموش ہو جاتیں ہیں۔ پکڑی گئی مرغی سلاخوں سے باہر سرعام سب کی آنکھوں کے سامنے ذبح کی جاتی ہے۔ سب خاموشی سے دیکھتے ہیں۔ اس کے مکمل خاتمے تک کچھ دیر کا توقف کرتی ہیں۔ پھر سر جھکا کے سمجھوتہ کرکے اپنے آپ میں مگن ہو جاتی ہیں کہ اچانک پھر وہی ہاتھ آہنی سلاخوں والا پنجرہ کھول کر کمال اطمینان سے اندر آتا ہے اور منتخب کردہ ایک اور شکار دبوچ لیتا ہے، باقی سب اس کے باہر جانے پہ شکر کہ میری جان بچ گئی۔ ڈیرہ کے اہل تشیع، سرائیکی باسیوں کی زندگی بس یونہی ہے۔ وہ کسی سے یہ تک نہیں کہہ پاتے کہ ایکسکیوزمی، بات سنیں، ہمیں بے گناہ قتل کیا جا رہا ہے، آپ کچھ ہماری مدد کریں گے۔ پلیز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).