قلم کار یا اسٹنٹ باز


اگر آپ قلم کار ہیں اور خود کو منوانے کے لیے طرح طرح کے اسٹنٹ کررہے ہیں تو یہ کم از کم قلم کے ساتھ خیانت ہے۔ جس طرح نوخیز عمر کے لڑکے جنس مخالف کو رجھانے کے لیے یا محض ہنسانے کے لیے سڑکوں اور میدانوں میں جا بجا اسٹنٹ کرتے نظر آتے ہیں، کبھی حد سے زیادہ اسپیڈ کے ساتھ بائک دوڑاتے ہیں اور کبھی اگلے پہئے کو ہوا میں لہراتے ہیں، کبھی بائک کے پچھلے ٹائر سے زمین پر گول دائرہ بناتے ہیں اور کبھی ہاتھ چھوڑ کر بھیڑ بھاڑ والی جگہ سے بائک اس طرح نکالتے ہیں کہ عورتوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ اگر آپ یقین کریں اور کوئی وجہ نہیں کہ آپ یقین نہ کریں، تو کئی قلم کار بھی اپنی قلمی کاوشوں میں یہی سب کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ قلم کار سے زیادہ اسٹنٹ باز ہیں۔

اگر آپ ادیب ہیں اور اپنے افسانوں اور ناولوں میں غیر ضروری طور پر سنسنی خیزی کو آگے بڑھا رہے ہیں، برہنگی کو اس سطح پر جاکر بیان کررہے ہیں جہاں وہ ایک سادہ سا بیانیہ اور واردات کا ضروری اظہار نہ ہو کر قاری کے نوخیز ذہن کو اپیل کرنے والی بن جاتی ہے اور خدا اور مذہب کے حوالے سے اس طرح کی جملے بازیوں کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں جس سے قارئین کی دل شکنی ہوتی ہے اور ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں تو ایک بار ضرور اپنا جائزہ لیں کہ آپ قلم کار ہیں یا اسٹنٹ باز۔

قرطاس وقلم سے پیوستہ رہنے میں آپ کے پیش نظر یہ بات ہے کہ آپ قوم کو دانشمندی کی سطح پر ایڈریس کریں یا یہ کہ آپ کو کسی نہ کسی طرح اپنی پہچان بنانا ہے۔ اگردوسری بات آپ کے پیش نظر ہے تو پھر آپ کی فن کاری اور کاری گری محض ثانوی چیز بن کر رہ جاتی ہے۔ بلکہ اگر وہ حد سے تجاوز کرجائے تو نفسانیت کی آلۂ کار بھی بن جاتی ہے۔

بیشتر قلم کاروں کا حال یہی ہے کہ وہ اسٹنٹ باز زیادہ ہیں اور فنکار کم۔ اوریہی حال سیاسی اور مذہبی لیڈروں کا بھی ہے کہ وہ بھی اپنی لیڈر شپ کی عملداریوں اور کارگزاریوں کے درمیان اسی طرح کے اسٹنٹ کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے یہاں بھی ملک وملت کو دانشوارانہ سطح پر ایڈریس کرنا نہیں ہوتا بلکہ اپنی ہمہ دانی اور ہمہ زبانی سے عام لوگوں کو متاثر کرکے انہیں اپنی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے قدکاٹھ کو اپنے ہم زبان وہم قلم افراد کے قد کاٹھ سے بلند کرسکیں۔

اور ایسی صورت حال میں خیر خواہی اور دانشوری کی بات کرنا فضول ہوجاتا ہے۔ حالانکہ کے دین کی بنیاد خیر خواہی ہے۔ الدین النصیحۃ۔ اور جس کے اندر خیر خواہی کا جذبہ نہیں ہے وہ کچھ بھی ہوسکتا ہے، ذہین ہوسکتا ہے، صاحب علم ہوسکتا ہے، دولت مند ہوسکتا ہے اور بڑے بڑے عہدے بھی حاصل کرسکتا ہے مگر جو کچھ نہیں کرسکتا وہ ملک وملت کی بھلائی اور خیر خواہی ہے۔ ملی کاز کے لیے عمل کرنا یا کم از کم اس کی نیت رکھنا اور حسب موقع اس سمت میں عمل کرنا ضروری ہے، کہ یہ ایمان کا حصہ ہے، باعث ثواب ہے اور پھر گناہوں کے کفارے کا ذریعہ ہے۔

خیر خواہی ہر انسان کی ضرورت ہے، اس طرح بھی کہ وہ دوسروں کا خیر خواہ بنے اور اس طرح بھی کہ دوسرے اس کے خیر خواہ بنیں۔ خیر خواہی کے بغیر چارہ نہیں، یہ انسان سے صرف تقاضے کے طور پر نہیں ہے بلکہ اس کی ضرورت بھی ہے اور فطر ت بھی۔ مگر مشکل یہی ہے کہ لوگ خیر خواہی کو چھوڑ کر ہوس کے بلاوے پر لبیک پکار رہے ہیں۔

نوخیز عمر کے لڑکے جب اسٹنٹ کرتے ہیں تو سب لوگ پہلی ہی نظر میں سمجھ جاتے ہیں کہ یہ اسٹنٹ ہے کیونکہ وہ ظاہر وباطن ہر اعتبار سے اسٹنٹ ہی ہوتا ہے مگر اصحاب علم وکمال کا معاملہ ذرا مختلف ہے، وہ کرتے تو اسٹنٹ ہیں مگر ظاہر اس طرح کرتے ہیں جیسے وہ کوئی مذہبی فرض یا قومی وملی ذمہ داری پوری کررہے ہیں۔ وہ اسٹنٹ کو خدمت خلق کے نام پر کیش کراتے ہیں۔ اور مزے کی بات تو یہ بھی ہے کہ وہ ایسا کرنے میں بظاہر کامیاب بھی نظر آتے ہیں اور کیوں نہ ہوں جبکہ بیشتر لوگ شوبازی کو پسند کرتے ہیں اور باہم دگر مقابلہ آرائی کی نفسیات کے تحت زندگی گزاررہے ہیں کہ میں فلاں سے پیچھے کیوں ہوں اور فلاں مجھ سے آگے کیوں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).