سانحہ نیوزی لینڈ۔ کچھ سیکھنے لائق


یہ دنیا ہے ہی جائے سانحات، سانحہ در سانحہ اس کا مقدر، آپ لاکھ اختلاف کریں لیکن اگر اپنی ذات کی گہرائی میں اتر کر بغور مشاہدہ کریں، اپنی عبادات، حسن اخلاق، ظاہری حلیہ، روز مرہ معمولات زندگی اور پھر پچیدہ تر سوچ پر غور کریں آپ کو یہ سمجھنے میں ذرا بھی دقت نہیں ہوگی کہ یہ انسان نامی جانور بنیادی طور پر خود غرض، لالچی اور جھگڑالو ہے، ہاں مگر اس کے اندر پوشیدہ اس گند کو مذاہب اور اخلاقیات نامی نظام نے ڈھانپ کر خوش نما بنا رکھا ہے۔

مذہب اور اخلاقیات سے جدا کر کے دیکھو تو ایک تعفن زدہ، کراہت آمیز، ڈراؤنا جانور ہے بس جانور۔ مگر بسا اوقات مذہبی پہناوا بھی اس کی درندگی کو ڈھانپنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ مذہب تو کوئی بھی ہو، اسلام سے شروع ہو کر عیسائیت، یہودیت سے ہوتے ہوئے ہندومت، بدمت، سکھ مت تک کوئی بھی مذہب ایسا نہیں جو اپنے ماننے والوں کو تشدد پر مائل کرتا ہو۔ انسانیت سوزی کا درس دیتا ہو۔ کسی مذہب کے پیروکار اگر مذہب کی حقیقی روح سے روگردانی کرتے بہک جائیں تو اس میں مذہب کا کیا دوش؟

کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پغمبروں کو بھیجے جانے کا مقصد انسانیت کی فلاح ہی تو تھا۔ مگر پھر کیا وجہ سب سے زیادہ قتل و غارتگری گری مذہب کے نام پہ ہوئی۔ کوئی دوسری رائے نہیں انسانوں کو تہذیب و شعور سے آراستہ کرنے میں مذاہب کا کلیدی کردار رہا لیکن مذہب کے نام پر نفرت، تعصب اور غیر انسانی سلوک کی تاریخ کو بھی کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

ٹھہرئیے غور کیجئے، قتل و غارتگری کا سبب کیا واقعی مذاہب ہیں یا پھر بہ ظاہر مذاہب کی نظر آنے والی جنگ کے پس پردہ کچھ اور محرکات ہیں؟ اس حقیقت سے صرف نظر کرنا چاہیں تو کیجئے مگر سچ یہی ہے مذہب کے لبادے میں ملبوس عناصر قبیح مقاصد کے لئے ہر دور میں استعمال ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ اور اس لڑائی میں نقصان ہمیشہ انسانیت کا ہوا۔ دہشتگردی کا تعلق کسی بھی مذہب سے نہیں، مگر بدقسمتی اس کلموہی جنگ میں اسلام اور مسلمان کو ایک عرصے سے پراپیگنڈہ کا سامنا ہے، وقت رواں کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی، اس کا موجد، سہولت کار اور پروموٹر کون؟

اپنی جگہ غور طلب معمہ ہے۔ لیکن اس جنگ میں سب سے زیادہ استعمال بھی مسلمان ہوئے اور قربان بھی۔ موجد، سہولت کار یا پروموٹر کوئی بھی ہو، بہرحال ایسی کارروائیوں میں ملوث اسلام کی بدنامی کا باعث مسلمانوں کو بری الذمہ تو قرار تو نہیں دیا جا سکتا، لاکھوں جانیں قربان کرنے کے باوجود اگر انہیں سبق حاصل کرنے سے کوئی رغبت نہیں تو پھر ان کے ساتھ وہی ہوتا رہنا چاہیے جو ہو رہا ہے۔ دنیا بدل چکی ہے اب انہیں بھی وتیرہ بدلنا ہوگا۔

جذبات و ہٹ دھرمی کی بجائے دلیل و منطق کو اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا۔ پس پردہ محرکات جو بھی رہے ہوں اس سے کس کو غرض؟ مگر دنیا یہی جانتی ہے کہ مرنے اور مارنے والے سب مسلمان ہی ہیں۔ بسا اوقات مرنے والے غیر مسلمان بھی ریے ہیں۔ افسوس اس بات کا ان گنت جانیں قربان کر کے بھی دہشتگردی کا لیبل نہیں اتروا سکے۔ وجہ؟ ڈھونڈنے کی ضرورت ہے کہ تلاش کرنے سے کیا نہیں ملتا۔

سانحات پیش آ جانا بڑی بات نہیں مگر ان سانحات سے عہدہ بر آ ہونے کا طریقہ کار اور سبق حاصل کرنا بڑی بات ہے۔ سانحہ نیوزی لینڈ تاریخ کا کوئی پہلا سانحہ نہیں ایسے ان گنت سانحات ہم سہہ چکے، یورپ یا گوروں کے دیش میں پیش آنے والے چند سانحات میں سے ایک، دور حاضر میں کسی غیر مسلمان کے ہاتھوں انفرادی سطح پر مسلمانون کے قتل عام کا پہلا سانحہ، ورنہ تو افغانسان، عراق، شام، چیچنیاں، فلسطین، کشمیر، برما میں لاکھوں مسلمان استعماری و ریاستی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے نہ جانے کتنے اور چڑھیں گے۔ کوئی شک نہیں انتہائی اندوہناک واقعہ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم، دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن کیا رونا دھونا کافی ہوگا۔ کیا مذمت کر لینے سے معاملات درست ہو جائیں گے۔ کمزور کو ظالم اور سزاوار ثابت کرنا ہر دور کے استعمار کا وتیرہ رہا ہے سو وہی ہو رہا ہے جو مدتوں سے طاقتور کا اصول رہا ہے۔

ہم ایک عرصے سے ایسے واقعات اور سانحات جھیل رہے ہیں، مرنے والے ہمیشہ ہمارے اپنے شہری، اکثر مسلمان کبھی کبھار غیر مسلم بھی، مساجد، چرچ، احمدیوں کی عبادت گاہیں بھی ایسے سانحات کا شکار ہوئیں، ہم نے کیا طرز عمل اختیار کیا، کیا سبق حاصل کیا، ہمارا طرز عمل کیسا ہونا چاہیے تھا دیکھنا چاہتے ہیں تو ہر طرح کے تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس سانحے کے بعد نیوزی لینڈ کی حکومت کا طرز عمل اور عمومی معاشرتی ردعمل کا بغور مشاہدہ و مطالعہ کریں بہت سے سوالوں کے جواب مل جائیں گے کہ سانحات کا رونما ہونا بڑی بات نہیں مگر اس سے خوش اسلوبی سے نمٹنا اور مثبت طرز عمل اختیار کرنا بڑی بات ہے۔

مذہبی انتہا پسندی جیسی غلیظ سوچ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو کسی بھی مذہب سے متعلق ہو ہر گز گز ناقابل قبول اور انسانیت کی دشمن ہے۔ کسی صورت اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ سراہا جا سکتا ہے۔ بیمار ذہنیت کی کارستانی ہے مذہب کے لباس میں تو ہو سکتی ہے مگر مذہبی کسی صورت نہیں کیونکہ دہشت گردی کا تعلق کسی مذہب بھی سے نہیں، دہشتگردی کی کارروائی کسی اسلامی ریاست میں ہو یا عیسائی اکثریت والے کسی سیکولر ملک میں، کارروائی کرنے والا مسلمان ہو یا عیسائی سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، قابل مذمت اور قابل افسوس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).