کینیڈین انتخابات اورجسٹن ٹروڈو کی مشکلات


ایک سابق وزیراعظم کا بیٹا جس کی پیدائش ہی وزیراعظم ہاوس میں ہوئی، سمارٹ، ہینڈ سم اور محنتی جسٹن ٹروڈو کینیڈا کی لبرل پارٹی کی قیادت کے لئے اس وقت سامنے آئے جب لبرل پارٹی قیادت کے شدید بحران کا شکار ہو چکی تھی۔ حالیہ دور کے سیاستدانوں میں جو کرزمہ (Chrisma) جسٹن ٹروڈو کی شکل میں دیکھا، کم سیاستدانوں کو نصیب ہوا۔

الیکشن سے کوئی ڈیڑھ برس قبل جسٹن جب ابھی اپوزیشن میں تھے اپنی الیکشن مہم کے سلسلہ میں ہمارے ہوسٹ کردہ ایک پروگرام میں تشریف لائے، ساتھ لبرل پارٹی کے اور بھی سینئر ممبران تھے۔ عوام خصوصاً نوجوانوں کی طرف سے انہیں اس وقت بھی جو پذیرائی ملی قابل دید تھی۔ ہم نے ان کا انٹرویو بھی ریکارڈ کرنا تھا، انہیں عوامی ریلے سے سٹوڈیوز تک لے جانے کے لئے ہمیں باقاعدہ سیکورٹی کی مدد لینا پڑی۔

انٹرویو کے بعد میں نے جسٹن سے کہا کہ لوگوں کی اس بے پناہ محبت سے اندازہ ہوگیا ہے کہ آپ وزیراعظم بن چکے ہیں (حالانکہ اس وقت کے کنزرویٹو وزیراعظم سٹیفن ہارپر کینیڈا میں بہت مقبول تھے ) ۔ جسٹن ٹروڈو کا عوام میں گھلنا ملنا اور بھرپور انتخابی مہم کامیاب ٹھہری اور حقیقتاً جہاں لبرل پارٹی نے کھمبا بھی کھڑا کیا لوگوں نے اسے ووٹ دیے۔ یوں لبرل ماہرین کے اندازوں سے بڑھ کر سیٹیں لینے میں کامیاب ہوئی۔

وزارت اعظمی کے بعد بھی جسٹن ٹروڈو کو کینیڈا کے علاوہ ساری دنیا میں پذیرائی ملی۔ ہمسایہ ملک امریکہ میں بھی انہوں نے صدر اوباما کی مقبولیت کو بھی گہنا دیا۔ وہ پہلے کینیڈین وزیراعظم ہیں جن کو ساری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی خصوصی پذیرائی اور پہچان ملی۔

بطور وزیراعظم انہوں نے بعض مشکلات کا ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ مڈل کلاس کی مضبوطی، صنفی مساوات، غیر ضروری جنگی اخراجات میں کمی، شام کے مہاجرین کی آبادکاری، شہریت منسوخی کے قانون کی کالعدمی، امیگرنٹس کے والدین کے لئے آسانی، شہریت حاصل کرنے کے قانون میں دوبارہ نرمی، ٹرمپ کی غیر ضروری مخاصمت اور کاروباری بحران کا مقابلہ وغیرہ اب تک جسٹن ٹروڈو حکومت کی کارکردگی میں نمایاں رہے۔

اکتوبر 2019 ء میں جب اگلے وفاقی انتخابات متوقع ہیں، جسٹن حکومت شدید بحران کا شکار ہوگئی ہے۔ SNC۔ Lavalin نامی کینیڈین کمپنی پر لیبیا کی حکومت کو قذافی کے وقت میں بھاری رشوت دے کر بڑے ٹھیکے لینے کا الزام ہے۔ اس بنا پر کمپنی پر کینیڈا میں کریمنل کارروائی متوقع ہے۔ مبینہ طور پر وزیراعظم کینیڈا  کے دفتر نے ملک کی اٹارنی جنرل (کینیڈا میں عموماً وزیر قانون ہی اٹارنی جنرل ہوتا ہے ) محترمہ جوڈی ولسن رے بولڈ پر دباؤ ڈالا کہ وہ بطور وزیرکریمنل چارجز کی بجائے صرف مالی جرمانے کا کیس بنوا کر تصفیے میں اپنا کردار ادا کریں۔ (مالی جرمانے کی سزا سے کمپنی حکومتی ٹھیکے حاصل کرنے کی اہل رہتی جبکہ کریمنل سزا پر وہ کم از کم دس سال تک حکومتی ٹھیکے لینے سے نا اہل ہوجاتی) ۔ جس پر وزیر موصوفہ نے قانونی کارروائی پر اثر انداز ہونے سے انکار کردیا۔

جنوری میں اٹارنی جنرل کو وزارت قانون سے فارغ کرکے سابقہ فوجیوں کے امورکی وزیر بنا دیا گیا۔ جوڈی ولسن رے بلڈجو وینکوور شہر سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوتی ہیں، ایک اچھی اور باوقار خاتون کے طور پر جانی جاتی ہیں، انہوں نے دوسری وزارت سے استغفی دے دیا۔ ایک اخبار گلوب اینڈ میل کے ذریعے یہ سکینڈل سامنے آنے پرد وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اور قریبی دوست جیرلڈ بٹس اور ایک اور سینئر ممبر پارلیمنٹ اور ٹیژری بورڈ کی صدر محترمہ ڈاکٹر جین فیلپوٹ بھی اپنے استغفے وزیراعظم کو پیش کر چکے ہیں۔

سابق اٹارنی جنرل نے پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے انصاف کے سامنے پیش ہو کر حکومت کے سینئر لوگوں بالخصوص وزیراعظم کے دفتر کی طرف سے مسلسل دباؤ کا اقرار کیا۔ اس دباؤ کو وزیر موصوفہ نے غیر مناسب تو قرار دیالیکن غیر قانونی نہیں۔ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی جرمانوں کی سزا کی وکالت سے انکار نہیں کیا بلکہ اسے 9000 نوکریاں بچانے کے لئے اٹھایا گیا قدم قرار دیا ہے

کینیڈا کے Ethnic Commissioner نے اس سارے معاملے پر وفاقی سطح پر تحقیقات شروع کرادی ہیں۔ اپوزیشن لیڈر اور کنزرویٹو لیڈر اینڈریو شیئر نے کہا ہے کہ قانونی عمل میں مداخلت سے وزیراعظم اپنی ساکھ کھو چکے ہیں اور انہیں اخلاقی طور پر کوئی حق نہیں کہ وہ اس عہدے پر قائم رہ سکیں، انہیں فوری استغفی دینا چاہیے۔

7 مارچ کو وزیراعظم نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور سارے معاملے کی وضاحت کی۔ جسٹن کا کہنا تھا کہ انہوں نے کسی قسم کی غیرقانونی مداخلت نہیں کی بلکہ اپنے دفتر کو کہا تھا کہ وہ وزیر موصوفہ کو کسی ٹھوس فیصلے تک پہنچنے سے پہلے اس کے مضمرات کے بارے میں بتائیں۔ تاکہ وہ کینیڈین اکانومی اور نوکریاں بچانے کے لئے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرسکیں۔ یہ صورتحال میرے پرنسپل سیکرٹری اور وزیر صاحبہ کے درمیان اعتماد کے فقدان کی وجہ سے پیدا ہوئی جس سے مجھے باخبر ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے وزیر کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کے لئے ذاتی طور پر بھی کہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی اس بحران سے کامیابی کے ساتھ نمٹ کر سامنے آئے گی۔ ساتھ ہی وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے نوکریاں بچانے پر معذرت کرنے سے انکار کیا ہے۔ لیکن اس بات کا اقرار کیا کہ حالات کارخ ان کے اندازے سے مختلف سمت اختیار کرگیا جس پر انہیں افسوس ہے۔

جسٹن ٹروڈو نے وزیراعظم بننے کے بعد پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی طرح کی ہر چیز سے عوام کو باخبر رکھنے اور احتساب کی بات کی تھی ج لیکن اس سکینڈل کے بعد ان کی شہرت اور اس نعرے کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ باوجود اس کے کہ اس وقت کینیڈا میں بیروزگاری کی شرح پچھلے چالیس سال میں سب سے کم ہے، لبرل پارٹی اس وقت پول میں اپوزیشن کنزرویٹو سے کافی پیچھے چل رہی ہے جبکہ تیسری بڑی پارٹی این ڈی پی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔

اگر حالات ایسے ہی رہے تو این ڈی پی کا رول اہمیت اختیار کرجائے گا اور این ڈی پی کے فعال اور مقبول لیڈر جگمیت سنگھ کنگ میکر کی حیثیت سے سامنے آئیں گے۔ انتخابات میں کچھ عرصہ باقی ہے دیکھنا ہوگا کہ اس وقت تک اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، فی الحال تو SNC۔ Lavalinسکینڈل لبرل پارٹی کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).