ایک انسان دوست عورت کو سلام


ہماری حکومت نے نیوزی لینڈ کی 2 مساجد میں مسلمانوں کے قتل عام کے 3 روز بعد ملک میں سوگ منانے اور قومی پرچم کو سرنگوں کرنے کا ”تاریخی“ فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم پے۔ اس فیصلے سے ہماری حکومت کی سیاسی بصیرت اور ”دور اندیشی“ کا بھی ایک بھرپور ثبوت ملتا ہے۔ یہ افسوسناک واقعہ 15 مارچ کو پیش آیا جس نے نیوزی لینڈ سمیت دنیا بھر کے امن پسند اور انسان دوست قوتوں کو ہلاک کر رکھ دیا۔ لیکن اس دوران اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کو ہم مملکتِ خداداد بھی کہتے ہیں۔ میں۔ پی ایس ایل 4 نامی ایک کرکٹ ایونٹ ہو رہا تھا۔ اس لئے ہم اس سانحہ عظیم کی طرف متوجہ نہیں ہو سکے۔ 17 مارچ کو اس ایونٹ کا فائنل میچ کھیلا گیا جس کی اختتامی تقریب میں ہم نے ”زندہ دلی“ کا ثبوت دیتے ہوئے خوب ہلہ گلہ کیا۔ بھنگڑا ڈالا۔ نوجوان مرد و خواتین نے بھرپور رقص کیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت تک شہید ہونے والے پاکستانیوں کی لاشیں پڑی رہیں جن کی تدفین کا حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا تھا۔ لیکن جوں ہی فائنل میچ مکمل ہو گیا ہماری حکومت نے ایک لمحہ بھی ضایع کیے بغیر شہدا کے غم میں سوگ منانے اور قومی پرچم سرنگوں کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اور یہ اپنی نوعیت کی نئی روایت ہے کہ کسی بھی عظیم سانحہ کے 3 روز گزرنے کے بعد سوگ منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ بھی پاکستان جیسے اسلامی ملک میں نئی روایت ہے کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے لئے مغفرت یا ایصال ثواب کی خاطر دعا کی بجائے پی ایس ایل 4 کی اختتامی تقریب میں مغرب کی تقلید کرتے ہوئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ جبکہ سوائے ترکی کے تمام اسلامی ممالک بشمول سعودی عرب کسی نے بھی اس واقعے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ ہی افسوس کا اظہار کیا۔ پھر بھی غیر مسلم ممالک کو سلام ہے جنہوں نے اس دہشت گرد واقعے کی سخت مذمت کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ لیکن ہماری جانب سے سوگ منانے کا یہ فیصلہ شاعر کے اس شعر کی مکمل تفسیر ہے کہ

رات بھر مے پی لی صبح کو توبہ کر لی

رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی

15 مارچ 2019 کو جب نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی 2 مساجد کے اندر دہشت گردی کا یہ سانحہ پیش آیا تو نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم جیسینڈرا ارڈن پر جیسے قیامت صغریٰ ٹوٹ پڑی۔ ایک ریاست کی سربراہ اور ایک قوم کی ماں کی حیثیت سے اس کے جسم کی روح تک تڑپ گئی۔ اس کے چہرے سے ہوائیاں اڑ گئیں۔ اس نے 24 گھنٹوں میں 2 مرتبہ پریس کانفرنس کی جس میں اس نے اس واقعے کو بدترین دہشت گردی قرار دیا اور مسلمانوں سے مکمل یکجہتی اور ہمدردی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ جیسینڈرا ارڈن نے سیاہ لباس اور سیاہ دوپٹہ اوڑھ کر سوگ منانا شروع کر دیا اور کہا کہ مسلمانوں کو ان کی عبادت گاہوں میں شہید کرنے کا یہ سانحہ نیوزی لینڈ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ وہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے مسلم خاندانوں کی خواتین سے بغلگیر ہو کر ایک ماں کی طرح دکھ اور افسوس کا اظہار کرتی رہی اور ان خواتین کو صبر اور حوصلہ دیتی رہی۔ اس نے گلوگیر اور رندھی ہوئی آواز میں ان سے کہا کہ میں اس سانحہ پر آپ لوگوں سے معافی مانگتی ہوں کہ ہم آپ کی حفاظت نہیں کر سکے۔

جیسینڈرا سے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اس واقعے پر ہم آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں تو انہوں نے صدر ٹرمپ سے کہا کہ آپ مسلمانوں سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کریں اور اس دہشت گرد واقعے کی مذمت کریں۔ جیسینڈرا نے مسلمانوں سے کہا کہ جن لوگوں نے اس سنگین ترین جرم کا ارتکاب کیا ہے وہ ہم سے نہیں ہیں اور ان کی اس ملک میں کوئی جگہ اور کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جبکہ آپ اس ملک کے شہری ہیں یہ آپ کا گھر ہے اور آپ ہم میں سے ہیں۔ اس عظیم سانحے پر نیوزی لینڈ کے یہودیوں نے بھی جیسینڈرا کی طرح مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی اور یکجہتی کے طور پر نیوزی لینڈ کی تاریخ میں پہلی بار سوگ میں اپنی عبادت گاہیں عارضی طور پر بند کر کے کمال کر دیا۔

اس کے برعکس بھارت میں انتہا پسند ہندوٶں نے اس سانحہ پر بھرپور جشن منایا اور سوشل میڈیا پر اپنی بھرپور خوشی کا اظہار کرتے رہے جبکہ ہم ویسے ہی پی ایس ایل 4 کے ایونٹس بھرپور طریقے سے انجوائے کرتے رہے۔

اگر انصاف سے کام لیا جائے تو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم محترمہ جیسینڈرا ارڈن کو ان کے مثبت کردار پر امن نوبل ایوارڈ سے نوازا جائے جس نے اپنے کردار سے خود کو ایک عظیم خاتون رہنما ثابت کیا ہے۔ جس نے اپنے مثبت اور ناقابل فراموش کردار کے باعث عالم اسلامی کی نہ صرف ہمدردیاں حاصل کی ہیں بلکہ اس سانحہ سے نیوزی لینڈ کے خلاف ان کے دلوں میں جنم لینے والی ممکنہ نفرت اور غصے کو بھی بروقت ختم کر دیا۔ سلام ہے اس آسٹریلوی شہری کو بھی جس نے اپنے دہشت گردی شہری برینٹ سے نفرت اور مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کے طور پر مغرب کے وقت ہونے والی اذان کی ریکارڈنگ بجا دی اور واضح کیا کہ وہ مذہبی نہیں ہے لیکن مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی غرض سے ایسا عمل کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا میں ہی ایک سینیٹر فریزر اینیگ نے جب اس سانحے پر خوشی کا اظہار کیا تو ایک آسٹریلوی نوجوان نے اس سینیٹر کو انڈہ مار کر اس کی منفی سوچ سے شدید نفرت اور غصے کا اظہار کیا۔ جس کے بعد وہ امن پسند اور انسانیت دوست نوجوان آسٹریلیا کا ہیرو اور وہ سینیٹر زیرو بلکہ قابلِ نفرت ولن بن گیا۔ اس کی سینیٹر شپ تک خطرے میں پڑ گئی ہے۔

نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا دونوں امن پسند ممالک ہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے مساجد کے اندر دورانِ نماز شہادت کا اتنا گہرا اثر لیا ہے کہ اس نے اپنے ملک کے اندر بندوق برداری یا گن کنٹرول کے حوالے سے پارلیمنٹ میں نئی قانون سازی اور سیکورٹی پالیسی میں بھی نظرثانی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سے ان کی مسلم دوستی خواہ انسان دوستی اور امن پسندی کا ثبوت ملتا ہے۔ ان کی سوچ اور ان کے اقدامات عالمی امن کے لئے بہت مفید اور مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں اس طرح کی بربریت کا واقعہ 29 سال بعد پیش آیا ہے۔ 1990 میں اراموآنا کے ایک قصبے میں ایک جنونی شخص نے فائرنگ کر کے 13 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ جس کے بعد اسلحہ اٹھانے اور استعمال کرنے کے خلاف گن کنٹرول پالیسی بنائی گئی تھی اور آج تک کوئی دوسرا واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس دہشت گرد قاتل کا تعلق آسٹریلیا سے ہے۔ جب کہ دلچسپ امر یہ ہے کہ آسٹریلیا میں 22 سال قبل اپریل 1996 میں تسمانیہ کے قصبے بورٹ آرتھر میں ایک ایسے ہی انتہا پسند شخص نے فائر کر کے 35 غیر ملکی سیاہ قتل کر دیے تھے۔ اس کے بعد آسٹریلیا میں بھی گن کنٹرول کی مٶثر پالیسی بنائی گئی اور وہاں بھی آج تک کوئی دوسرا دہشت گرد واقعہ پیش نہیں ہوا ہے۔ جیسینڈرا نے اس دہشت گرد واقعے کے بعد اپنے ملک کی پارلیمنٹ کی کارروائی کا قرآن مجید کی تلاوت سے کروایا اور پارلیمنٹ سے اپنے خطاب کا آغاز السّلام علیکم کہہ کر کیا۔ اس عمل سے انہوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل جیت لئے ہیں۔ اور طرح سے انہوں نے ایک تارخ رقم کی ہے کہ کسی غیر اسلامی اور غیر مسلم ملک کی پارلیمنٹ کیا کارروائی کا آغاز اسلامی طریقے سے کیا گیا ہو۔ اس کے علاوہ اس نے پاکستانی شہدا کو خصوصی طور پر خراج عقیدت بھی پیش کیا۔ اب جبکہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسینڈرا ارڈرن نے شہریوں کے تحفظ کی غرض سے ایک بار پھر گن کنٹرول کے تحت نئی قانون سازی کا مثبت فیصلہ کیا ہے تو یقینی طور پر اس کا پوری دنیا کے لئے مثبت پیغام جائے گا اور عالمی سطح پر اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ اس حوالے سے یہ عظیم خاتون وزیراعظم جیسینڈرا ایک رول ماڈل کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ ایسے مثبت کردار کی حامل شخصیت کو نوبل امن ایوارڈ دینا چاہیے جس سے اس ایوارڈ کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوگا اور عالمی سطح پر امن اور انسانیت دوستی کی ایک نئی تحریک چل پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).