ہولی کے تہوار کے پیچھے کیا کہانی ہے؟


ہر مذہب کے اپنے عقائد کے مطابق کچھ ایسے تہوار ہوتے ہیں، جو بڑی ہی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ وھ نہ صرف بڑے جوش و خروش کے ساتھ منائے جاتے ہیں بلکہ ان کے پیچھے ایسے حقائق چھپے ہوتے ہیں، جو کہ نہ صرف ایک مذہب کے پیروکاروں کو، بلکہ عالم انسانیت کو بھی ایک مثبت پیغام دیتے ہیں۔ یہ بات تو واضح ہے کہ، چاہے جو بھی مذہب ہو، وہ بدی کے اوپر نیکی کی فتح کا درس دیتا ہے۔ ہندوؤں کی جانب سے بہار کی موسم کی آمد پر، مارچ میں چاند کی چودھویں کو منائے جانے والا سب سے بڑا ہولی کا تہوار ہے۔

عام طور پہ یہ رنگوں کے تہوار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مذہبی افسر پر ہندو مذہب کے لوگ ایک دوسرے پر مختلف رنگ پھیں نک کر یہ جشن مناتے ہیں۔ اس دن کو بہت سارے رنگ خریدے جاتے ہیں، جو کہ تہوار کے دن ایک دوسرے پر پھینکے جاتے ہیں۔ ہولی کے دن، رنگ بھگو کر ایک دوسری کو پچکاریاں ماری جاتی ہیں، جس سے وہ رنگوں میں نہا جاتے ہیں۔ ہولی کے پیچھے تواریخ بھی یہ بتاتی ہے کہ ہولی حق پرستی کا کو منانے کا دن ہے۔

ہولی کا پس منظر یہ بتاتا ہے کہ، ایک وقت میں ہرناکش نام کا ایک بادشاہ ہوئا کرتا تھا، اور وھ خود کو خدا سمجھتا تھا۔ اس نے اپنے ارد گرد اپنا خوف و ہراس اس قدر بٹھادیا کہ لوگ اس کا نام لینے سے بھی ڈرتے تھے اور جو حکم کرتا بجا لاتے۔ لوگوں کے دل میں اس کے لیے نفعرت تھی، پر ظلم کے ڈر سے وہ چپ رہتے اور غلاموں والی زندگی بسر کرتے۔ راجا ہر اس چیز سے خود کو دور رکھتا، جس سے اسے مرنے کا خوف ہوتا تھا۔ خدا کی کرنی کیا ہوئے کہ اس کو پھلاج نام کا ایک بیٹا ہوا، اور اس کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیے اچھے استادوں کے سپرد کیا گیا۔ پھلاج کا دماغ جوں جوں علم کی آگاہی سے روشن ہوتا گیا، وہ ویسے ہی اپنے باپ کی مخالفت کرتا گیا۔ وہ اپنے باپ کو بہت سمجھاتا کہ آپ خدا نہیں ہو، آپ انسان ہو۔ مظلوموں پہ ظلم نہ کرو، خدا کی برابری نہ کرو، انصاف کی راہ کے راہی بنو وغیرہ وغیرہ۔

پر وہ عقل کا اندھا راجا ایک بات نہ مانتا اور ایسے ہے دونوں کے اختلاف آپس میں بڑھ گئے۔ پھلاج کو سیدھے راستے پہ چلتا دیکھ کر سارے لوگ اس کے قریب آتے گئے، اور راجا ہرناکش کو یہ بات بہت ناگوار گزری۔ اس نے سارے طریقے آزما کہ دیکھ لیے پر کوئی بھی دل سے اس کی پیروی کرنے کو تیار نہ تھا، بس سارے لوگ ظلم و تشدد کے ڈر سے چپ تھے۔ لوگ دل سے پھلاج کی باتوں پہ یقین رکھتے تھے۔ ایسا ہوتا دیکھ کر راجا ہرناکش اپنے بیٹے کا جانی دشمن بن گیا۔

اس نے بہت سی ترکیبیں آزمائیں جس سے پھلاج مر جائے، پر مارنے والے سے بچانے والے کا ہاتھ بڑا تھا، اور ہر دفعا ہر خطرے سے پھلاج صحیح و سلامت واپس نکل آتا۔ پھر ہرناکش کی بہن ہولکا نے اپنے بھائی کو مشورہ دیا کہ باہر میدان میں بڑی آگ جلاؤ، اور سب لوگوں کو اکٹھا کرو۔ پھر پھلاج کو بولو اگر اور حق اور سچ کے راستے پہ ہے تو اپنے آپ کو اس آگ میں جھونک دے، اگر وہ سچ ہوگا تو اس کے جسم کو آنچ تک نہ آئی گی۔ ہولکا نے اپنے بھائے کے سامنے یہ سازش کی کہ، وہ لوگوں کے بھیڑ میں سب سے چھپ چھپا کے ایک جادوئی چادر کے سہارے خود کو آگ میں جھونکے گی، چونکہ وہ چادر جادوئی ہے، تو وہ خود صحیح سلامت واپس آ جائے گی۔

اور لوگوں کے سامنے سرخرو ہوکر وہ یہ کام پھلاج سے کروائے گی۔ جیسا کہ پھلاج کے پاس کسی جادوئی چادر کا سہارا نہ ہوگا، وہ آگ میں جل کے راکھ ہوجائے گا، اور اس سے ہرناکش کو اپنا کھویا ہوئا مقام مل جائے گا۔ ہرناکش اپنی بہن کی اس سازش پہ رضامند ہوگیا، کیونکہ اسے بیٹے کی جان سے زیادہ اپنی شہرت پیاری تھی، وہ اپنے بیٹے کو راہ کا کانٹا سمجھتا تھا۔ بالا آخر ایک دن لوگوں کو جمع کر کے ایک بڑے حلقے میں لکڑیوں کا ڈھیر جمع کر کے آگ لگائی گئی۔

آگ اس قدر شدید تھی کہ شعلے دور دور تک جا رہے تھے۔ جب آگ جلائی گئی، پھلاج کو بھی بلایا گیا۔ اسے کہا گیا کہ وہ اپنے حق سچ کو درست ثابت کرے۔ پھر اس کی پھوپھی بڑی چالاکی سے جب چادر اوڑھ کے پھلاج کے ساتھ آگ میں داخل ہوئی، تو خدا کے حکم سے تیز ہوائیں چلنے لگیں، اور تیز ہواؤں سے وہ چادر ہولکا کے جسم سے اُڑ گئی، اور آکے پھلاج کے ساری جسم سے لپٹ گئی، جو ہولکا نے اوڑھ رکھی تھی۔ چادر کے اُڑتے ہی، ہولکا کو ساری آگ نے لپیٹ میں لے لیا، اور وہ چیختی چلاتی راکھ کا ڈھیر بن گئی۔

جب کہ پھلاج اس چادر کے سائے میں محفوظ رہا۔ یوں سب کے سامنے ہرناکش اور اس کی بہن کا مکروہ چہرا ایک بار پھر ظاہر ہوگیا۔ پھر راجا ہرناکش کو بھی ایک شیر کے جسم والے نرسنگھ نے اس کے سینے پہ اپنے ناخن سے کاٹ کہ ماردیا۔ اور سب لوگوں نے تخت پہ پھلاج کو بٹھایا۔ اور یوں سب خوشی سے کہنے لگے ہولی ہے۔ ہولی ہے۔ ہولی ہے۔

ہولی کا تہوار بھی ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ مکار، فریب اور جھوٹ کی ہمیشہ ہار، اور حق سچ کی فتح ہوتی ہے۔ ہم مسلمان ہو یا ہندو، پر ہر مذہب ہمیں امن، شانتی، حق سچ کا درس دیتا ہے، ہمیں تمام مذاہب سے سیکھنا چاہیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).