وسائل اور مسائل کا درمیانی راستہ!


مجھے آج کل محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے درمیان، ہمارے بیچ نفسیاتی مریضوں کی پوری اک کھیپ پروان چڑھ رہی ہے ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہم بہت چاہ کے بھی ہاتھ سے روک نہیں پا رہے اور آج کل ہر دن ایک نیا مسئلہ ہمیں ہارٹ سٹروک دینے کے لئے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو واقعی لگتا ہے سینے سے دل گیا۔ مگر کس کے؟ میں اور میرے جیسے بہت سے لوگ صبح شام شاید اسی سوچ کی تیزابیت سے مر رہے ہیں۔ اور اس خوف و ہراس میں پھر بھی جی رہے ہیں

آج دوپہر سے ایمبر الرٹ چل رہا تھا کہ ایک باپ جو قانونی طور پر اپنی بچی سے نہیں مل سکتا تھا اپنی بیٹی کو سکول سے زبردستی اٹھا کے لے گیا ہے۔ ابھی چند دن پہلے پورے ٹورنٹو نے ایک معصوم گیارہ سالہ بچی ریا کے باپ کے ہاتھوں قتل پر کئی دن سوگ منایا۔ دل نہیں مانتا نا۔ بالکل بھی نہیں مانتا۔ رات گیارہ بجے کے قریب پورے ٹورنٹو کے فونز پر ایمبر الرٹ بجے تھے اور سارا تھکا ہوا شہر اپنی تھکاوٹ بھول کر بچی کی سلامتی کے لئے اپنی اپنی کوششوں میں لگ گیا تھا۔

مگر افسوس صد افسوس کہ معصوم بچی باپ کے پاگل پن کے ہاتھوں ماری گئی۔ گرل فرینڈ سے جو بھی اختلافات تھے بیٹی کا کیا قصور تھا اور پھر جس کا بھی قصور ہو۔ قانون شکنی تو کی ہی تھی، انسانیت شکنیت کی انتہا کردی۔ ایک زور کا چکر آتا ہے یہ سوچ کے کہ کینیڈا میں بھی اک بچی ذاتی انتقام کے لئے قتل ہوجاتی ہے پورے شہر میں اتنے سخت اور بروقت الرٹ کے باوجود۔ درد دل رکھنے والے روئے۔ ہر آنکھ اشکبار ہوئی۔

آج ”صفا“ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ باپ سکول سے اٹھا کے لے گیا۔ ابھی نیوزی لینڈ کے سانحے کا خوف دل کو جکڑ کے بیٹھا ہوا تھا۔ سانحے کے بعد کل پہلی دفعہ ڈرائیو کر رہی تھی جب بھی کسی گورے کی گاڑی سامنے یا سائیڈ پر آتی، خوف کا ایک سایہ سا سامنے آکھڑا ہوتا جیسے ابھی کوئی گن نکالے گا اور اندھا دھند فائرنگ کر دے گا۔

ہم نفسا نفسی، مفاد پرستی، کھینچا تانی کی جس دلدل میں رہ رہے ہیں۔ اتنی تیز رفتاری میں انسانی ذہن اور جذبات کو کھل کے پنپنے کا موقع نہیں مل رہا اور کمزور اعصاب، شدت پسندی اور تشدد پسندی جیسی نفسیاتی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں جو کہ حسد، احساس کمتری یا برتری جیسی اخلاقی بیماریوں کا پیش خیمہ ہیں۔ وسائل کی ناموافق تقسیم اور مسائل کا وقت پر حل نہ ہوپانا، مسائل کا کھلے دل سے سامنا نہ کرنے کی ہمت، انسان کو پستی کی طرف لے جاتی ہے۔ وسائل اور مسائل کے درمیان کے فرق کو تسلیم کرلینا اور ان کو مثبت سمت میں لے کے چلنا ہی وقت اور حالات کا تقاضہ ہے مگر ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں

اور جب حقائق سے ہٹ کے، مثبت لائحہ عمل کو پسِ پشت ڈال کر عدم برداشت کو مقصدِ حیات ہی سمجھ لیا جائے تو معاشرے میں سوائے انتشار کے کچھ نہیں بچتا۔ یہی انتشار اس وقت بھی سامنے آتا ہے جب خونی رشتے دست و گریباں ہوجاتے ہیں جائیداد کے لئے ماں باپ، بھائی بہن تک قتل کر دیے جاتے ہیں تو کہیں غیرت کے نام پہ عورت کو اذیت دے دے کر ماردیاجاتا ہے۔ یہ مسائل کو منفیت دینا ہے اور یہی عدم برداشت ہے اور عوامل بھی وہی ہیں وسائل، مسائل کے بیچ کے درمیانی راستے کی عدم موجودگی۔

”صفا“ بخیروعافیت گھر پہنچ گئی الرٹ ختم ہوا پورے شہر نے سکھ کا سانس لیا۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جہاں اتنی سخت سیفٹی کے باوجود بھی لوگ قانون شکنی کرنے تک سے نہیں ڈرتے تو اندر ہی اندر کیا ہوتا ہوگا۔ ڈومیسٹک وائلینس شاید وہ اصل وجہ ہے جس سے بچپن سے ہی نفسیاتی طور پر شدت پسندی، نفرت، حسد تشدد پسندی اور ایسی بہت ساری نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ عدم توجہی کا شکار بچے اندر ہی اندر ان سارے عوامل سے گزر کے اپنے اندر انتقام کے جذبات پالتے رہتے ہیں۔

اور جہاں کہیں موقع ملتا ہے دوسروں کو نقصان پہچاتے ہیں۔ کیونکہ انسانی ہمدردی سکھانے کے لئے متعلقہ فرد کو محبت اور ہمدردی سے واقفیت دلانا ضروری ہے جس میں تھیوری سے زیادہ پریکٹیکل اہم ہے۔ اور پریکٹیکل بھی متعلقہ فرد کے ساتھ۔ لیکن جب گھر میں انتشار ہو تو گھر کا ہر فرد خصوصاً بچے اس کا شکار ہوتے ہیں بری طرح۔ مغربی معاشرہ تو اس انتشار میں بہت پہلے سے ڈوبا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ ٹین ایجرز تک ڈپریشن کا شکار ہیں ماں باپ اور گھریلو ناچاتیوں کی وجہ سے۔ نتیجہ سکولوں میں آئے دن ہونے والے مسائل۔ دوسرے طلبا کو تنگ کرنا، اذیت دینا، مذاق اور تضحیک کا نشانہ بنانے سے مارکٹائی اور ہتھیاروں کے استعمال تک سے گریز نہیں کیا جاتا۔

کل فٹ بال کے ایک ٹریننگ کیمپ میں کھلاڑی آپس میں لڑ پڑے۔ کھیل تو سپورٹس مین شپ سکھاتے ہیں۔ ہار جیت کومضبوطی سے تسلیم کرنے کا ہنر۔

وسائل اور مسائل کے درمیانی راستے کو کھلے دل سے سمجھنا ہوگا۔ منفی سوچوں اور عدم برداشت کو ہرانا ہوگا۔ انسانیت اور زندگی کی بقا کے لئے جئیو اور جینے دو کا جامع فارمولا اپنانا ہوگا۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں جو لوگ ذہنی، جسمانی، نفسیاتی یا گھریلو انتشار کا شکار ہیں ان کی مدد کرنے کی کوشش کریں ان کو سنبھالنے سے معاشرے میں مزید توڑ پھوڑ کو روکا جاسکتا ہے۔ ان میں بہت سے لوگ حقیقتاً ً بے ضرر ہوتے ہیں بس اوپر سے ہی نفرت انگیزی کی چھاپ لگی ہوتی ہے اندر سے یہ بھی محبت اور توجہ کے متلاشی ہوتے ہیں ان پر توجہ دیجئے۔ ایسی بہت سی آرگنائزیشن ہیں جو گورنمنٹ لیول یا پرائیویٹ لیول پر ان جیسے لوگوں کو پرسنل سپورٹ مہیا کرتی ہیں۔

سکولوں میں خاص طور پر ”برداشت“ کی تعلیم دی جانی چاہیے کیونکہ سکول سے ہی معاشرہ تعمیر ہوتا ہے۔ جن عوامل کا گھروں میں فقدان پایا جاتا ہے ان کاحل سکولز میں مہیا کیا جانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).