ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی


نیوزی لینڈ کی مسجد میں پچاس نمازیوں کی دردناک شہادت سب پر قیامت بن کر ٹوٹی۔ ہر آنکھ اشک بار ہے اور ہر دل درد سے پُر۔ انسان ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہمیں دوسرے انسان کی خوشی میں خوشی ملتی ہے اور دوسرے کے غم میں دکھ کا احساس ہوتا ہے۔ اس طرح کی بےوقت، بےرحمانہ اور تکلیف دہ موت پر تو صرف دکھ کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ایک ایک شہادت کی بے بسی پر نظر کر کے اور ان کے چاہنے والوں پر ٹوٹے پہاڑ کو سوچ کر پل پل دل ڈوبتا ہے۔

پاکستان میں بھی اس دہشت گردی پر انتہائی غم و غصہ تھا۔ اور ہونا بھی چاہئیے تھا، مگر اس غم و غصے میں جو منافقت کا پہلو تھا اس پر لکھنا میں نے کچھ دن تک ادھار رکھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم سب کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت واپس آ جائے جو کہ اس ظالمانہ دہشتگردی کی وجہ سے کہیں کھو بیٹھے تھے۔

نیوزی لینڈ کے واقعہ پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور وہاں کے رہنے والے لوگوں نے جس طرح مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی جتائی، انہیں اپنائیت کا احساس دلایا اور اور ان کے لئے اپنی بانہیں کھول دیں، کچھ خواب کا سا احساس تھا۔ انسانیت کی عروج پر ایسے لوگوں کی پاکستانیوں نے کھُل کر تعریف کی اور ان کے ایک ایک احسن بات کی تعریف و توصیف کی۔ یہاں منافقت کا دوسرا پہلو تھا جو آشکار ہوا۔ اسی پر ہم آج بات کریں گے۔

پاکستانیوں کے لئے دہشتگردی نئی نہیں ہے۔ ہم نے اپنے بہت سے ہنستے جیتے پیارے، کلاشنکوف کی گولیوں، خودکش جیکٹوں کے بال بیرنگ اور جہاد کے غلط تصورات پر کھوئے ہیں۔ پاکستان میں نہ صرف عمومی دہشتگردی ہوئی بلکہ ٹارگٹ کر کے کچھ مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا اور سینکڑوں معصوم مرد، خواتین اور بچے اس کالقمہ بنے۔ کیا ہم نے کبھی ان شہادتوں پر وہی غم و غصہ دکھایا جو ایک انگریز دہشتگرد کی ظالمانہ کاروائی پر ہم اب دکھا رہے ہیں؟ اور کیا ہم نے وہی اعلیٰ درجے کی اقدار اپنائیں جو نیوزی لینڈ کے لوگوں نے مسلمانوں کے لئے اپنائیں؟

پانچ سالوں (۲۰۱۲ سے ۲۰۱۷) میں ہزارہ شیعہ کے پانچ سو سے زائد افراد قتل کر دئے گئے۔ جی ہاں صحیح پڑھا آپ نے، پانچ سو سے زائد، فی سال سو افراد۔ ان پانچ سو میں سے تقریباً دو سو افراد تو صرف دو حملوں میں شہید ہوگئے تھے۔ اگر ابھی دل نہیں دہلا تو سنیں کہ یہ سب شہادتیں صرف کوئٹہ کی ہیں۔ دس جنوری دو ہزار تیرہ کو علمدار روڈ کوئٹہ میں بم دھماکہ ہوا، اگلے دن کی خبروں میں اسّی سے زیادہ شہادتوں کی خبر آئی۔ سولہ فروری دو ہزار تیرہ کو ہزارہ ٹاؤن کوئٹہ میں واٹر ٹینکر میں رکھے بم نے پھر سے پچاسی سے زیادہ لوگ نگل لئے۔

ڈیڑھ مہینے میں ایک ہی شہر میں ایک ہی کمیونٹی کی اتنی شہادتوں پر پاکستان میں کتنا احتجاج ہوا؟ پاکستانیوں نے لشکر جھنگوی کے خلاف کتنی مذمتی بیان جاری کئے؟ کتنے پاکستانیوں نے ماتمی جلوس نکالے، پھولوں کی پتیاں قبروں پر نچھاور کیں یا اپنے غم و غصے کا اظہار کسی بھی طریقے سے کیا؟ میں آپ کو بتاؤں کہ جو کچھ نیوزی لینڈ کے واقع پر ہوا اس کا عشر عشیر بھی پاکستانیوں نے اپنے ہم مذہب و ہم وطن پاکستانیوں کے مرنے پر نہیں کیا۔ ایک چپ سادھ لی جاتی ہے، لب سی لئے جاتے ہیں اور زبان پر بزدلی کے آبلے نکل آتے ہیں۔

فرق یہ ہے کہ وہاں مارنے والا انگریز تھا اور یہاں مارنے والے لشکر جھنگوی کے لمبی لمبی ڈاڑھیوں والے پنجوقتہ نمازی۔ وہاں انگریز کے مارنے سے ان کو اپنا بیانیہ بڑھانے میں مدد ملی کہ دہشتگردی کا مذہب نہیں ہوتا جبکہ مسلمان کے مارنے سے یہی بیانیہ مذمت سمیت دفن ہوا پڑا ہوتا ہے۔

ہزارہ شیعہ تو پھر ختم نبوت پر یقین رکھنے والے پکے مسلمان تھے، مگر جن کو ہم مسلمان نہیں سمجھتے اور جو غیر مسلم ہیں ان کے دہشتگردی میں مرنے پر ہم نے کون سا اعلیٰ اقدار کا نمونہ دکھایا؟ گڑھی شاہو اور ماڈل ٹاؤن میں احمدیوں کی مساجد میں دہشتگردی، گوجرہ اور جوزف کالونی میں عیسائیوں پر حملے، ہندوؤں کی بچیوں کو زبردستی مسلمان بنانے پر ہم نے آج تک کتنی مذمت کی؟ ان کو اپنا اور پاکستانی ہونے کا کتنا یقین دلایا؟ ان کی کتنی ہمت بندھائی؟

ہم مجموعی طور پر ایک منافق قوم ہیں۔ ہمارے اپنے مسلکی مقتول ہیں اور اپنے مسلکی قاتل۔ ہم انسان کو انسان ہونے سے نہیں پہچانتے بلکہ اس کو اس کے مسلک و مذہب پر اس کے ساتھ برتاؤ کرتے ہیں۔ ہمارے بارے میں ہی کسی نے کہا تھا کہ داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).