رانا ثنا اللہ کہتے ہیں، اسٹبلشمنٹ سے لڑائی جیتنا ممکن نہیں
”جتنے لوگ پیپلزپارٹی نے اسلام آباد میں نیب ہیڈکوارٹر کے سامنے باہر نکالے اس سے کئی گنا زیادہ لوگ ن لیگ نکال سکتی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ن لیگ اسٹیبلشمنٹ سے لڑنے کے موڈ میں نہیں۔ پیپلزپارٹی اور ایم ایم اے کے لوگ میاں نواز شریف کے پاس گئے تھے کہ انتخابات میں جو دھاندلی ہوئی ہے اس کے خلاف سڑکوں پر نکلا جائے میاں نواز شریف نے تحمل سے ان لوگوں کی بات سننے کے بعد انھیں جواب دیا کہ آپ بتائیں ہم سڑکوں پر نکلتے ہیں اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ ہمیں کامیابی ملتی ہے ہماری بات مان کر نئے انتخابات کا اعلان ہو جاتا ہے ہم متحمل نہیں ہو سکتے کہ نئے انتخابات میں جائیں۔ ملک کے معاشی حالات دگرگوں ہیں۔ ہم کامیاب ہو جاتے ہیں تو ملک کو کس طرح سنبھالا دیں گے۔ “
”میاں شہبازشریف کا طرز سیاست میاں نواز شریف سے بالکل جدا ہے وہ تمام قوتوں کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھلا رکھنے کے عادی ہیں لوگ کہتے ہیں کہ میں میاں شہباز شریف کے زیادہ قریب ہوں اور انھیں پسند کرتا ہوں۔ بات درست ہے مگر حتمی فیصلہ میاں نواز شریف ہی کرتے ہیں۔ “
”کوشش کی گئی تھی کہ میاں شہبازشریف کی راہیں بڑے بھائی سے علیحدہ کر دی جائیں مگر کوشش کرنے والوں کو کامیابی نہیں ملی۔ میاں نواز شریف بھی ایک خاص لائن سے آگے نہیں جانا چاہتے تھے مگر انھیں مجبور کیا گیا وہ چلے گئے جس کا ہمیں نقصان ہوا۔ “
یہ الفاظ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے رانا ثناءاللہ کے ہیں جو گزرے روز مجھے سنا رہے تھے۔ دوران گفتگو جب انھوں نے کہا کہ ہم بھی سڑکوں پر نکل سکتے ہیں مگر ن لیگ اسٹیبلشمنٹ سے لڑنا نہیں چاہتی میرا ماتھا ٹھنکا۔ میں نے رانا ثناءاللہ سے کہا کہ سڑکوں پر نکلنے اور ماریں کھانے کی طاقت صرف پیپلزپارٹی کے پاس ہے اور اب متروک ہوتی جماعت اسلامی کے پاس ہوا کرتی تھی ن لیگ نے ہمیشہ ڈرائنگ روم کی سیاست کی ہے اور جن کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں اُن کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار تک پہنچی اور اب بقول آپ کے پھر انھی راستوں کے راہی بننے جا رہی ہے۔ اگر یہ سب کچھ کرنا تھا تو پھر ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ کیوں لگایا گیا؟ عوام کو سہانے سپنے کیوں دکھائے گئے؟
بولے کہ اس مُلک مقتدر طاقتوں کے ساتھ لڑا نہیں جا سکتا۔
سر پیپلزپارٹی لڑ سکتی ہے تو آپ کیوں نہیں؟
بولے ابھی تو ان کی شروعات ہیں وقت گزرنے کے ساتھ انھیں معلوم ہو گا تو وہ بھی ہاتھ ملانے پر راضی ہو جائیں گے۔
میاں نواز شریف کی رہائی کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ جلد وہ جیل سے باہر ہوں گے کچھ معاملات پر ڈیڈ لاک ہے۔ امید ہے کہ ڈیڈ لاک جلد ختم ہو جائے گا۔
ہائی کورٹ سے میاں نواز کی رہائی کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہو سکتی تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے میاں نواز شریف کا کیس سننے سے معذرت اس لیے کی تھی کہ امریکہ سے لے کر کینیڈا اور لندن تک ان کی جائیدادوں کے تلاش جاری تھی اور بال کی کھال اتاری جا رہی تھی کہ انھوں نے کیس سننے سے معذرت کر لی۔
رانا ثناءاللہ کی باتوں سے مجھے شاک تو ضرور لگا کہ کہاں انقلابی بننے کی باتیں کرنے والے اور آج نہ لڑنے کی باتیں کرنے والے، مگر میں شاک سے جلد ہی باہر نکل آیا کیوں کہ آخر یہی کچھ ہونا تھا اور ن لیگ کی تاریخ بھی یہی ہے۔
- الیکشن کے دن اسلام آباد کے ایک رپورٹر نے کیا دیکھا؟ - 25/02/2024
- قاضی فائز عیسیٰ تاریخ کے صفحات میں کہاں کھڑے ہوں گے - 17/11/2023
- پریس پر پابندی – کل اور آج - 19/06/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).