انسانی رویے اور صدائے حق


رویے اور مزاج کے اعتبار سے بنی نوعِ انسان کو دو قسموں میں منقسم کیا جاسکتاہے۔ پہلی قسم کے لوگ عاجزی وانکساری کے ساتھ ساتھ ذرا دھیمے مزاج کے ہوتے ہیں۔ اگر کبھی ان کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو وہ واویلا کرنے کے بجائے یا تو درگزر سے کام لیتے ہیں یا پھر اپنا پوائنٹ آف ویو سادگی کے ساتھ بیان کرکے چپ سادھ لیتے ہیں۔ کسی کے منہ سے کسی کے خلاف کوئی بات سنتے بھی ہیں تو آگے بیان نہیں کرتے تاکہ لوگوں کے معاملات خراب نہ ہوں۔ اپنے عہدے کی پاسداری تو کرتے ہیں لیکن عہدے کا خمار اپنے اوپر مسلط نہیں کرتے ’بلکہ ہر جگہ پر اپنوں کی خاطر ایک خادم بنے پھرتے ہیں۔

رویے اور مزا ج کے اعتبار سے بعض انسان ذرا سخت رو ہوتے ہیں۔ ہر بات کو اپنے مزاج کے اعتبار سے پرکھتے ہیں اورہر شخص کو اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر ان کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہوجائے تو وہ درگزر تو دور کی بات ہے ’وہ اس وقت تک اس بات کا اور کہنے والے کا پیچھا نہیں چھوڑتے جب تک وہ بات کلیئر نہ ہوجائے یا اگلا شخص معافی نہ مانگ لے۔ مزید یہ کہ اپنا پوائنٹ آف ویو بڑی سختی سے بیان کرتے ہیں اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو بھی شدت اور بھرپورطریقے سے جواب دیتے ہیں۔ کسی کے منہ سے کسی کے خلاف کوئی بات سن لیں تو وہ بات کومتعلقہ شخص تک پہنچا کردم لیتے ہیں اور پھر ان کے معاملات خراب ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ بزرگوں کا کہنا ہے کہ جس سچ کو بتانے سے لوگوں کے معاملات خراب ہوتے ہوں تو اس کو بتانے سے گریز بہتر ہے۔

راقم الحروف ’الحمد للہ پہلی قسم کے لوگوں کا سا مزاج رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں رحم دلی کے جذبات بھرے ہیں اور میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اپنے اخلاق سے لوگوں کے دلوں میں گھر کروں اور ممکن حد تک اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں کے کام آتا رہوں اور ان کی کامیابیوں اور خوشیوں کے لیے مجھ سے جوبن پاتا ہے وہ میں ضرورکرتا ہوں‘ چاہے اس سے کوئی ناراض ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لئے ”مجھے وہ لوگ بہت پسند ہیں جو اپنی ہی موج میں رہتے ہیں ’سازشیں نہیں کرتے‘ تنقید کے نشتر نہیں چلاتے ’خود کو برتر اور دوسروں کو کم تر نہیں سمجھتے‘ نفرتوں کے بجائے محبتیں پھیلاتے ہیں۔ یقین جانیں کہ ایسے لوگ بہت منفرد ہوتے ہیں ’مگر حقیقت میں آج کل ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ “

گزشتہ کئی سالوں سے میرا تعلق ’بلکہ یارانہ ہے ایک ایسے شخص سے جو دل کا تو بہت اچھا ہے مگر اپنے رویے اور مزاج کے اعتبار سے سخت رو ہے اور اپنا پوائنٹ آف ویو بیان کرنے کے معاملے میں بھی مصلحت کے بجائے جارحانہ انداز اپناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اس کے منہ سے یہ شعر سننے کوملتا ہے :

جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں

میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں

اکثرادبی شخصیات کی طرح علمی وادبی حلقوں میں موصوف بھی اپنے اصل نام ”میاں محمد علی“ کے بجائے اپنے قلمی نام ایم ایم علی سے جانے جاتے ہیں۔ تین مارچ 1988 ء کو کراچی میں پیدا ہونے والے علی کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ محمد علی سے ایم ایم علی بن کر ادب کے میدان میں ایک مقام بنا ئے گا۔ موصوف بچپن سے ہی لکھنے کی طرف راغب ہوگئے اور لکھنے کا آغاز روز مرہ کی باتیں ڈائریوں میں قلم بند کرنے سے کیا۔ نصابی مضامین لکھنے کا مرحلہ آیا تو ان مضامین میں جملوں کی عمدہ تراکیب کے استعمال اورمعیاری الفاظ کے چناؤ نے اساتذہ کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ اس بچے میں لکھنے کی بے پناہ صلاحتیں موجود ہیں اور آنے والے وقت میں اس کی تحریروں کا چہاردانگ ِ عالم میں شہرہ ہوگا۔

علاوہ ازیں ’ایم ایم علی نے اپنے تعلیمی کیریئر کے دوران ہی کالم لکھنا شروع کردیے تھے اور ان کا پہلا کالم 2004 ء میں روزنامہ ”پوسٹ مارٹم“ میں شائع ہوا۔ چند ہی کالموں کی اشاعت پر مختلف لوگوں کی جانب سے پذیرائی کے الفاظ ان کی سماعتوں سے ٹکرائے تو ان کا حوصلہ فلک تک جا پہنچا اور انہوں نے کالم کایہ سلسلہ جاری رکھنے کا تہیہ کر لیا۔ 2010 ء میں انہوں نے ”صدائے حق“ کے نام سے مستقل بنیادوں پر کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اورکچھ ہی عرصہ میں کالم نگاری کی دنیا میں اپنا ایک مقام بنا لیا۔ اب تک ایم ایم علی کے سینکڑوں کالم مختلف قومی اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں اورانہی کالموں پر مشتمل کتاب ”صدائے حق“ اس وقت میرے ہاتھ میں ہے۔

صدائے حق کہنے کو تو کالموں کا مجموعہ ہے ’مگر اس کو بہت عمدہ انداز میں ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ کتاب مندرجہ ذیل دس ابواب پر مشتمل ہے :روحِ اسلام‘ امت مسلمہ ’فلاح انسانیت‘ قدرتی آفات ’تعمیر وطن‘ عدل و انصاف کا قیام ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ بدترین ہمسایہ بھارت ’سیاست اور شخصیات۔ کتاب کے شروع میں سینئر صحافیوں مثلاً مجیب الرحمن شامی‘ بین الاقوامی سکالرجاوید اقبال ’اجمل خان نیازی‘ گل نوخیز اختر ’شاہد نذیر‘ زبیر احمد انصاری ’ناہید نیازی کے تبصروں نے کتاب کو چار چاند لگا دیے ہیں اوریہ تبصرے ایم ایم علی کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ایم ایم علی کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنے ہٹ کے پکے ہیں اور جب کسی کام کا سوچ لیں تو پھر اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھارکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسال پہلے علی نے نوجوان لکھنے والوں کے لیے ایک تنظیم بنانے کا سوچا اورپھر مقدس فاروق اعوان، عرفان چوہدری اور راقم الحروف کے ساتھ مل کر ”آل پاکستان رائٹر ز ویلفیئر ایسوسی ایشن“ تنظیم کی بنیاد رکھی اور اس پلیٹ فارم کے ذریعے سینکڑوں نئے لکھنے والوں کی نہ صرف رہنمائی کی جارہی ہے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی میں بھی تنظیم ہمیشہ پیش پیش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحافتی دنیا میں آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن ”نام ہی کافی ہے“ کی مثال بنی ہوئی ہے۔ کتاب صدائے حق کے آخر میں تنظیم کے عہدے داروں سمیت بعض ممبران کے کتاب اورصاحب کتاب پر کیے گئے تبصرے بھی موجود ہیں جو یقینا پڑھے جانے کے قابل ہیں۔

کتاب کے شروع میں موجود پیش لفظ اور تعارف نامہ میں مصنف کی زندگی کے تقریباً تمام پہلوؤں کو مختصر انداز میں بیان کیا گیا ہے اور یہ مختصر سفر نامہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ایم ایم علی بے شمار صلاحیتوں کے مالک ہیں اور انہوں نے جس بھی کام کا ارادہ کیا تو اسے پوری دل جمعی اور آب و تاب کے ساتھ پایہئی تکمیل تک پہنچاکر ہی دَم لیا۔ دعاگوہوں کہ اللہ تعالیٰ ایم ایم علی کو ان کے آنے والے پراجیکٹس میں کامیابیوں سے بہرہ ور فرمائیں اور کتاب صدائے حق کو ادبی دنیا میں ایک اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).