انسانیت اور مذہب


احد کا پہاڑ اس لرزہ خیز منظر کا گواہ ہے جب ہندہ نے شہید حمزہ کا کلیجہ چبایا۔ یہ ہندہ وہی ہے جو آقائے نامدار حضرت محمّد مصطفٰے صلعم پر گندگی پھینکا کرتی تھی اور جس کا خاوند ابو سفیان آپ کے خلاف تمام جنگوں کی منصوبہ بندی کرتا رہا۔ جب یہ مفتوح ہوئے تو اللہ کے پاک پیغمبر نے نہ صرف انہیں معاف کر دیا بلکہ ان کے گھر کو جائے امان بنا دیا۔

طائف کے سفر میں جب لونڈوں نے آپ کو پتھر مارے اور آپ کو لہو لہان کردیا اور فرشتے نے پوری بستی نیست و نابود کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے منع فرمایا۔ طاقت ہوتے ہوئے بھی دشمنوں کو مذہب سے ہٹ کر صرف انسان ہونے کے ناتے مارنے سے اجتناب فرمایا۔

سید عطاللہ شاہ بخاری کہ جن کی خطابت پرندوں کو بھی مدہوش کر دیتی تھی۔ ایک بار جلسے سے خطاب فرما کر فارغ ہوئے تو ایک خاکروب جو عیسائی تھا، نے ملنے کی خواہش کی۔ آپ نے اسے اپنے ساتھ کھانے میں نہ صرف شامل کیا بلکہ اپنے ہاتھ سے نوالہ بنا کر اس کو کھلایا۔ لوگ کہتے ہیں احراری متعصب مسلمان تھے لیکن بخاری مذہب سے ہٹ کر صرف انسانیت کی بنیاد پر محبت کرتے تھے۔

دو وصف ایسے ہیں جو انسانوں کے علاوہ تمام مخلوقات میں پائے جاتے ہیں۔ یہ اوصاف چڑیا سے لے کر ہاتھی تک اور چوہے سے لے کر شیر تک میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ پالتو جانوروں سے لے کر خونخوار درندوں تک سبھی اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں اور اپنے دشمن سے بچاؤ کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔ انسان کے اندر بھی یہ دونوں اوصاف اسی طرح موجود ہیں مگر یہ اشرف المخلوقات اس لئے ہے کہ انسان اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کے بچوں سے بھی پیار کرتا ہے بلکہ یہ دوسری مخلوقات کے بچوں سے بھی پیار کرتا ہے۔ یہ وصف جس انسان سے نکل جائے وہ انسان نہیں رہتا اور جانور بن جاتا ہے۔ اور یہ وصف جتنا زیادہ کسی انسان میں آجائے وہ اتنا ہی بڑا انسان بن جاتا ہے۔

سدھارتھ اگر راج محل نہ چھوڑتا تو بادشاہ بنتا۔ وہ شہزادگی چھوڑ کر انسانیت کے جنگل میں جا بسا۔ نفرت کو چھوڑ کر محبت میں گم ہوا اور مہاتما بدھ بن کر امر ہو گیا۔ نانک اگر اپنے برہمن باپ کے نقش قدم پر چل کر بہی کھاتوں میں مہارت حاصل کر بھی لیتا تو معدوم ہو جاتا۔ وہ ہندو مسلمان کے چکر سے نکل کر انسانیت کے بڑے سرکل میں آیا تو گرو نانک بن کر لاکھوں انسانوں کے دل میں بس گیا۔

انسانیت مذہبی جذبات سے بالا تر ہے۔ یہ رنگ و نسل کے امتیاز کو ختم کرنے سے آتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں لاکھوں افراد کے لقمہ اجل بن جانے کے بعد یورپ اس نتیجے پر پہنچا کہ اپنے اپنے مذاہب سے بالا تر ہو کر انسانیت کو اپنایا جائے۔ چنانچہ یوروپی یونین وجود میں آئی۔ یورو نے لوکل کرنسیوں پر غلبہ پایا۔ دیوار برلن ٹوٹ گئی۔ لنڈن اور فریکفرٹ میں امتیاز نہ رہا۔ جمہورئیت کو نظام حکومت دل و جان سے تسلیم کر لیا گیا۔ کشت و خون کے بغیر حکومتیں ووٹ کی بنیاد پر تبدیل ہونے لگیں۔

نسلی امتیاز کی بات کرنے والوں کے دن چھوٹے ہو گئے۔ پھر وہ موڑ آیا جہاں دنیا جنگ عظیم سے پہلے کھڑی تھی۔ جمہوریت کا ہی نسلی امتیاز کے لئے استعمال شروع ہوا اور اس کی ابتدا امریکہ سے ہوئی۔ سفید فام نسل کو تارکین وطن کے خلاف بھڑکا کر ٹرمپ اقتدار میں آیا۔ اسی سفید فام نسل پرستی اور تنگ نظری نے آسٹریلوی شہری کو نیوزی لینڈ میں شوٹنگ پر مجبور کیا۔ اس شوٹنگ کے نتیجے میں مسجدیں خون سے سرخ ہوئیں۔ پچاس مسلمان شہید ہوئے اور درجنوں زخمی۔

انسانیت کو لیکن اپنے رنگ و نسل اور مذہب سے بالا تر ثابت کرنے کے لئے کوئی اور نہیں نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم میدان میں آئی۔ یہ وہی بہادر خاتون ہے جو اپنی وزارت عظمٰے کے دوران ماں بنی۔ اپنے تین ماہ کے بے بی کو گود میں لئے اپنے ملک کی اقوام متحدہ میں نمائیندگی کی۔ وزیر اعظم جسنڈا سیاہ سکارف لئے نفرت کی دیواروں کو تمام تر رکاوٹوں کے باوجود توڑتی میدان عمل میں آئی۔ اس دلیر عورت نے یہ ثابت کیا کہ جذبہ جوان ہو اور انسان اندر سے سچا ہو تو نفرت کی دیواریں ریت کا ڈھیر ثابت ہوتی ہیں۔

اس کے عظیم الفاظ، پارلیمنٹ سے خطاب، جس میں اس نے تارکین وطن کو اپنا کہا اور سفید فام دہشت گرد کا نام تک لینا گوارا نہ کیا، اسے عظیم رہنما کا درجہ دے گئے۔ اس کا مسجد میں جاکر مسلمان عورتوں اور بچوں سے گلے ملنا اور ان کے درد کو اپنا سمجھنا، اسے ایک عظیم انسان اور ایک بہادر خاتون کے طور پر امر کر گئے ہیں۔ نیوزی لیں ڈ کی عوام مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس عظیم خاتون کو اپنا لیڈر چنا ہے۔ بحیثیت قوم نیوزی لینڈ کے شہریوں، بشمول بچوں اور خواتین نے انسانی یکجہتی اور محبت کی مثال قائم کی ہے۔ رنگ و نسل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شہید اور زخمی خاندانوں کی جس طرح مدد اور دلجوئی کی ہے اس نے انہیں عظیم قوم بنا دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).