ان کا قاتل “دہشتگرد” ہمارا قاتل “غازی


آپ کو پتہ ہے وہ مر چکے ہیں؟ جی۔ کیا آپ مطمئن ہیں جو کچھ آپ نے کیا؟ جی بالکل مطمئن ہوں۔ بالکل مطمئن۔ آپ کا نام کیا ہے خطیب حسین۔

بہاولپور کے ایک گورنمنٹ کالج کے انگلش ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ پروفیسر خالد حمید نے کیا غیر شرعی کام کیا تھا؟ کیا گستاخی کی تھی؟ بقول بے خوف قاتل اسلام کے خلاف بولتے تھے؟ جب پوچھا گیا کیا بولتے تھے تو فرمانا تھا کہ بس ہر وقت بولتے تھے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق انہیں نئے داخلہ سال کے آغاز پر مخلوط ”ویلکم پارٹی“ منعقد کرنے کے جرم میں اس خودساختہ مومن، مجاہد، غازی اور کامل ایمان کے درجے پر فائز طالبعلم نے اپنی پست سوچ کی عدالت میں خود ہی مقدمہ پیش کر کے، خود ہی فیصلہ سنا دیا۔ سزائے موت کے لئے چھریوں کے وار کا انتخاب کیا اور اس جہالت میں ڈوبے کم عقل نے یہ سمجھا کہ اس نے اپنا دین زندہ کر دیا۔

موصوف خادم رضوی نامی فتنہ پرور کے دلدادہ ہیں۔ اگر سرسری طور پر بھی قاتل کے بیان اور باڈی لینگویج کا جائزہ لیا جائے تو سمجھ آجاتا ہے کہ اس کے پاس کوئی ٹھوس وجۂ قتل موجود ہی نہیں۔ کوئی دلیل نہیں، کوئی بحث نہیں بس لہجے میں ایک سرد مہری اور زبردستی طاری کیا گیا اطمینان ہے جو یقینا خود کو ہیرو بنانے کے لئے اپنایا گیا حربہ ہے۔ جمعہ کی آمد آمد ہے تو یقینا انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں موجود کچھ مساجد میں بالخصوص اس احمق بچے کو مذہب فروشی کی نئی اے ٹی ایم مشین کے طور پر لانچ کیا جائے گا۔ کچھ بعید نہیں کہ گھر پر مبارکباد کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہو۔

اس سب کے پیچھے جہالت کے علاوہ کون سے عوامل ہو سکتے ہیں؟ حال ہی میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے پچاس افراد کے قاتل جنونی کو صرف ”دہشتگرد“ کہہ کر پکارا اور کہا اس کی صرف ایک یہی شناخت ہے۔ وہ ایک گھناونے عمل کے ذریعے تاریخ میں اپنا نام، اپنی جگہ بنانا چاہتا تھا مگر آپ میرے منہ سے اس کا نام کبھی نہیں سنیں گے کیونکہ یہی ہمارا ردعمل ہونا چاہیے۔

مغرب پر تنقید کو ہر وقت تیار ہماری ملا بریگیڈ کا ردعمل کا طریقہ ملاحظہ کریں۔ بغیر کسی ٹھوس وجہ سے آگاہ ہوئے، ایک سرکاری محافظ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر کو دن دھاڑے گولیوں سے بھون کر خود کو ہیرو بنا کر گرفتار ہو جاتا ہے۔ اس کی پیشی کے موقع پر گل پاشی کی جاتی ہے۔ تمام مذہبی جماعتیں خاموش، تمام سیاسی جماعتیں کسی پختہ مذمت سے گریزاں۔ ہر طرف ایک ہیجانی خوشی۔ اس قاتل کی پھانسی شرانگیزی لاتی ہے مگر اس کے ہیرو کا اسٹیٹس برقرار۔

قاتل کے معصوم بچے کی برین واشنگ جلاد ملاؤں کے ہاتھوں شروع۔ بچے کو کیش کروا کر مزار کا سنگ بنیاد پڑتا ہے۔ نہ صرف ملک بھر سے لوگ زیارت کے لئے آتے بلکہ مزار کو چندہ بھی دیتے ہیں۔ مزار کے مبارک ہونے کی دلیل اور خواب میں بزرگان دین کی جانب سے جنت کی بشارت کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ایک خطرناک فتنہ نے اس شجر اشتعال سے جنم لیا۔ گستاخ گستاخ کرتے نوجوان ہر وقت ہاتھ میں سزائے موت کی مہر لیے دندناتے پھرتے ہیں۔

مغرب قاتل کو دہشتگرد ہی کہے۔ بجا۔ سو فیصد متفق۔ مگر ہم قاتل کو غازی، ہیرو، شہید، رحمت اللہ علیہ ہی کہیں گے۔ ایک نوجوان جو خود سفید ہے تو دنیا کو سفید بنانے پر تلا ہے۔ ایک نوجوان جو خود شدت پسند جنونی ہو چکا ہے تو دوسرے کسی طرز زندگی کو برداشت کرنے پر راضی نہیں۔ مغرب کا قاتل ”دہشتگرد“ بن گیا مگر ہمارا قاتل کیا ایک بار پھر ”غازی“ بن جائے گا؟

ان سب کے درمیان ہمارا تعلیمی نصاب کیا کہتا ہے؟ آدھے سچ اور مکمل جھوٹ سے لدے ہوئے ہمارے نصاب جو عشروں تک بغیر تبدیلی کے پڑھایا جاتا ہے اس کا بیشتر حصہ خونریزی، جنگ و جدل اور دروغ گوئی سے بھرپور ہے۔ سوال کی اجازت نہیں اور سوچنے پر پابندی ہے۔ ہمیں اندھا کیا گیا تاکہ ہم سچائی نہ دیکھ سکیں۔ ہمیں صرف مذہب کی پٹی آنکھوں پہ باندھ کر سوال پوچھنے کی جسارت نہ کرنے کا کہا گیا۔ یہاں چور، غنڈوں، لٹیروں کو صاحب، عزت مآب، سائیں اور حضرت کہہ لو مگر ان کا نام مت لو جن کو فطرت نے ان کی پہچان دی۔

ایک دائرے سے باہر سب کو واجب القتل تصور کر لو یا جنت سے محروم۔ سور بولنا چالیس دن زبان کو ناپاک کر دے گا مگر جھوٹ، رشوت، بدگمانی، قبضہ اور سود سب چلتا رہے گا۔ جس جس سیاسی جماعت کو جب جب میسر ہو گا وہ مذہبی کارڈ کا استعمال کریں گے۔ جس جس مذہبی جماعت کو جو سرپھرا ملے گا اسے ہیرو بنائیں گے کیونکہ مذہب فروشی سے زیادہ منافع بخش کوئی اور کام دنیا میں اب تک متعارف نہیں ہوا ہے۔

ایک استاد کا قتل جنون کے ہاتھوں ہونا تشویشناک نہیں خوفناک ہے۔ ایک طالبعلم (مشال خان) کا درسگاہ میں ساتھی طلبہ کے ہاتھوں قتل ہو جانا خوفناک ہی نہیں بھیانک رجحان کا جنم لینا ہے۔ ریاست نے عملا نہ کچھ کرنا ہے نہ کرے گی۔ افسوس کا مقام صرف اور صرف یہ ہے کہ یہ سب اس ملک میں ہو رہا ہے جسے ایسے مذہب کے نام پر قائم کرنے کا دعوی ہے جو دین سلامتی ہے، جس کا رب مہربان، رحم والا ہے، جس پاک ہستی کے نام کا سہارا لے کر قتل ہوتے ہیں وہ خود جہانوں کے لئے رحمت ہیں۔ جب اتنا رحم، امن، سلامتی جیسے الفاظ بارہاں دہرائے جاتے ہیں تو پھر نوجوان اتنے مشتعل کیوں؟ کیونکہ بعض مفاد پرست لوگوں کے لئے مذہب ایک ایسی اے ٹی ایم مشین ہے جس میں جوان جنگجو کو ڈالیں گے تو وہ ہیرو بن کر نکلے گا اور اس ہیرو کے نام پر کتنا عرصہ کاروبار منافع پکڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).