چورن فروش ممانی اور دینی جماعتیں


یہ ان دنوں کی بات ہے جب نکاح نامے پر دستخط کے لئے پیانو کے دو روپے والے پیلے پین سے بھی کام چل جاتا تھا۔ سیاہی بھی پکی تھی اور رشتے بھی۔ نہ فیس بک تھی اور نہ اس پر دستیاب آن لائن سیلرز، جو سپیشل نکاح پین کے نام پر دس روپے والے پلاسٹک کے پین کی دم سے نقلی پر چپکا کے اسے ہزار روپے میں بیچتے۔ ان ہی دنوں ہمارے خاندان میں ایک شادی تھی۔ تقریب میں مقررہ وقت سے قبل یعنی روٹی کھلنے سے ایک گھنٹہ پہلے ہی ہم پہنچ چکے تھے۔

سٹیج پر ویسے ہی جھمگٹا لگا تھا جیسے آج کل زونگ کی سم بیچنے والے کھوکھوں پر ہوتا ہے۔ پتہ چلا نکاح کی رسم ابھی چل رہی ہے۔ ہم شادی میں کیے گئے اخراجات کی مناسبت سے چھوہارے والے پیکٹ میں موجود اشیا کی تعداد کا اندازہ لگانے لگے اور ساتھ ہی کن اکھیوں سے اطراف کا جائزہ بھی لے رہے تھے کہ جانے فیض عام کا یہ چشمہ کس جانب سے پھوٹ پڑے۔ رفتہ رفتہ سٹیج سے تو رش ختم ہوگیا لیکن چھوہارے والے پیکٹ اور ان کو چھیننے کے لئے بگولے کی مانند حرکت کرنے والا بچوں کا غول کہیں دکھائی نہیں دیا۔ معلوم کیا تو پتہ لگا کہ نکاح نامے پر دستخط کا مرحلہ ابھی باقی ہے اور اس دستخط کے لئے جو خصوصی قلم دولہا کی ممانی نے تیار کیا تھا، وہ ابھی تک دولہا میاں تک نہیں پہنچایا جاسکا ہے۔ نہ قلم دکھائی دے رہا تھا اور نہ قلم بردار ممانی جان۔

کسی اور قلم سے دستخط کرنے میں شریعت کے مانع ہونے کی بابت معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ممانی جان بہت حساس ہیں اور اگر ان کے ارمانوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کسی اور قلم سے دستخط کیے گئے تو وہ ممانی کی جگہ دولہا کی پھوپھی کا عہدہ سنبھال لیں گی جن کا شادیوں میں عمومی کردارملتا جلتا ہوتا ہے اور جن کی وجہ سے شادی کی خوشی منانے کا رواج کم اور پھوپھی منانے کی رسم باربار ادا کرنا پڑتی ہے۔

خیر، قصہ مختصر یہ کہ ڈھنڈیا مچنے پر انکشاف ہوا کہ ممانی تقریب میں موجود ہر فرد کی کرسی پر جاکے بنفس نفیس یہ قلم دکھا رہی تھیں اور داد وصول کررہی تھی۔ اپنا منجن بیچنے کی یہ کوشش ان کو مہنگی پڑی اور قلم کہیں کھو گیا۔

لیجیے انہی ممانی کا ایک اور قصہ بھی یاد آگیا۔ کسی عزیز کے جنازے پر ان کو دیکھا۔ مرحومہ سے ممانی کا تعلق بہت قریبی یا گہرا تو نہ تھا لیکن صدمے کے سبب ممانی کی حالت اس قدر خراب تھی کہ مرحومہ کے گھر والے رونے دھونے کا پلان ملتوی کرنے کے بعد ممانی کی تیمارداری میں مصروف تھے۔ غم کی شدت اور ہچکیوں کے بیچ ممانی کے منہ سے جو فقرہ بمشکل ادا ہوا وہ یہ تھا کہ انہیں مرحومہ کے گھر والوں نے براہ راست فون کرنا گوارا نہ کیا اور انہیں کسی اور رشتے دار کے ذریعے سے انتقال کی اطلاع ملی۔ اطلاع ملنے میں چند منٹوں کی تاخیر کے سبب ہونے والی ممانی کی یہ حالت اگر مرحومہ دیکھ لیتیں توعین ممکن ہے کہ ممانی کو بنفس نفیس پیشگی اطلاع دینے تک اپنی وفات کا پروگرام ملتوی کر ڈالتیں۔

کچھ کو ممانی کی یہ ادا زیادہ پسند نہیں لیکن ہمیں تو ممانی کی یہ عادت بے حد پسند ہے کہ شادی ہو یا مرگ، ممانی کمال مہارت سے شرکاء کا رخ اپنی جانب موڑ لیتی ہیں۔ ان کی شہرت سے خائف خاندان کی کچھ دل جلی بہوئیں تو ان کو ”منجن فروش“ بھی کہتی ہیں کہ بسوں میں چورن، منجن بیچنے والوں کی طرح ممانی بھی اپنی منجن فروشی کی صلاحیت کے سبب کبھی بھی، کہیں بھی اور کسی کی بھی محفل میں حاضرین کا رخ اپنی جانب موڑ لیتی ہیں۔

پاکستانی سیاست میں دینی جماعتیں اور اس سے وابستہ افراد کا کردار بھی ممانی منجن فروش جیسا ہی لگتا ہے کہ کب موقع ملے اور کب یہ اپنا منجن بیچنا شروع کریں۔ عورت مارچ کا قصہ ہی لے لیں۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ جب اس مارچ میں شامل چند پلے کارڈز کی وجہ سے ملکی نظریاتی سرحدیں حل جانے کی بریکنگ نیوز ان جماعتوں نے دی تھی۔ عامر لیاقت جیسے سکالرز نے بھی موقع سے خوب فائدہ اٹھایا تھا اور اپنی چورن کی چھابڑی سجا کے بیٹھے تھے۔ ابھی یہ قصہ ٹھنڈا نہیں پڑا تھا کہ کریم والوں نے ایک پروموشن نکالی جس پر بحالت مجبوری انصار عباسی کو کریم کا لائسنس منسوخ کرنے کا مطالبہ کرنا پڑا تاکہ قوم کی معصوم بیٹیوں کو ورغلانے والی سروس کا خاتمہ کیا جاسکے۔

اب یہ جماعتیں بیچاری بھی کیا کریں، ہمارا حال ہی ”اللہ دے اور بندہ لے“ والا ہے کہ چورن اور منجن کا سٹاک ختم ہوجائے لیکن مانگ میں کمی نہیں آنے پاتی۔ گزشتہ روز بہاولپور میں شاگرد کے ہاتھوں استاد کے قتل کا لرزہ خیز واقعہ رونما ہوا ہے، خبر ہے کہ کل بروز جمعہ اس شاگرد کے حق میں جمعیت والوں کی جانب سے ریلی نکالی جائے گی۔ بقیہ جماعتوں سے بھی گزارش ہے کہ اپنے اپنے برانڈ کے چورن اور منجن کے سٹاک جھاڑ پونچھ لیں، ان کی چھابڑی سجانے کا وقت آگیا ہے۔

ملیحہ ہاشمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملیحہ ہاشمی

ملیحہ ہاشمی ایک ہاؤس وائف ہیں جو کل وقتی صحافتی ذمہ داریوں کی منزل سے گزرنے کر بعد اب جزوقتی صحافت سے وابستہ ہیں۔ خارجی حالات پر جو محسوس کرتی ہیں اسے سامنے لانے پر خود کو مجبور سمجھتی ہیں، اس لئے گاہے گاہے لکھنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

maliha-hashmi has 21 posts and counting.See all posts by maliha-hashmi