سیاست اور بدزبانی


سیاست اور بدزبانی کا شاید چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا سیاست دانوں کو ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلتے ہی دیکھا، ہاں جب حکومت یا اپوزیشن میں اپنے کسی مفاد میں اکٹھے ہونا ہو تو اور بات ہے۔ پھر سارے اختلافات ایک طرف رکھ کر یوں گلے لگتے ہیں کہ جیسے جنموں کے بچھڑے ملے ہوں۔ مخالفت ہو تو ”سڑکوں پر گھسیٹوں گا“، ”چپڑاسی بھی نہ رکھوں“، ”یہودی ایجنٹ“، ”ملک و قوم کے لئے خطرہ“ اور ”قاتل لیگ“ کے نعرے اور جب ضرورت پڑے تو ایسے ملیں کہ جس کے لئے شاعر نے کہا ہے کہ، ”لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو۔ “

پچھلی صدی کی سیاست میں بھی ایک دوسرے پر خوب گند اچھالا گیا پر تب یہ تھا کہ عوام کا گند اچھالنے میں کچھ خاص حصہ نہ تھا۔ ایک چینل تھا کہ جس پر رات نو بجے ایک ”وزیر نامہ“ چلتا تھا، جو صدر مملکت سے شروع ہوتا اور وزیراعظم، وفاقی پارٹی کے وزراء اعلیٰ سے ہوتا ہوا کچھ اہم کچھ غیر اہم وزیروں پہ ختم ہو جاتا۔ اخبار تھے تو چند ایک اور سوشل میڈیا کیا بلا ہے اس کا پتہ ابھی کچھ عرصے بعد چلنا تھا۔ سنا ہے اس دور میں بھی ہیلی کاپٹر سے تصاویر پھینک کر اور ملک سی غداری کے نعرے لگا کر اپنی اپنی پارٹی کا جھنڈا اونچا کیا جاتا تھا پر عام عوام ذرا اس سے دور دور سے تھے۔

بھلا ہو ”میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں“ کا کہ جن کے دور حکومت میں کافی پرائیویٹ چینل آ گئے اور عوام کو اپنے پیارے نمائندگان کو روز براہ راست دیکھنے کا موقع مل گیا۔ جو کالم لکھتے تھے، اب ٹی وی پر سیاست دانوں کو لڑانا شروع ہو گئے۔ ملک کی مرکزی قیادت باہر تھی اور جب وہاں سے لوٹے تو معاہدہ کر کے لوٹے کہ اب آپس میں نہ لڑیں گے اور لڑیں گے تو قاعدے سے۔ پر وہ سیاست دان ہی کیا کہ جو اپنی بات ہر قائم رہے جیسے ایک صاحب نے فرمایا تھا کہ، ”میری بات کوئی حدیث نہیں کہ جس سے میں پھر نہیں سکتا۔ “ بہرحال آپسی معاہدے کا اتنا خیال ضرور کیا گیا کہ جب اک پارٹی نے مرکز میں حکومت بنا لی تو دوسرے چپکے سے اپنی باری کے انتظار میں بیٹھی رہی۔ انہی دنوں سوشل میڈیا کی بھی وطن عزیز میں آمد آمد تھی، پر اتنا زور نہ پکڑا تھا کہ اسے ہتھیار بنایا جاتا۔

چلیں بات کو مختصر کرتے ہیں اور اگلے دور حکومت میں چلتے ہیں کہ اک صاحب کہ جنہیں امید تھی کہ شاید وہ اس بار حکومت بنا پائیں گے اور اس دو پارٹی پلس فوج کا کمبینیشن ذرا خراب کر پائیں گے پر بات بن نہ پائی۔ حالانکہ انہوں نے عوام کو پیغام یہی بھیجا تھا کہ ”عزیز ہم وطنو، اگلے پانچ سال میں تو برداشت کر لوں گا، پر آپ سے نہ ہو پائے گا۔ “ پر ہوا یوں کہ عوام تو برداشت کر ہی رہی تھی پر جناب سے نہ ہوا اور الیکشن کے کافی عرصے بعد انہیں یاد آ گیا کہ اگر ہم نہیں جیتے تو لازمی دھاندلی ہوئی ہو گی۔ فٹ سے تحقیقات کا مطالبہ پیش کر دیا پر حکومت کو بھی حکومت مشکل سے اور بڑے انتظار سے ملی تھی تو وہ کہاں ماننے والے تھے۔

تو جناب بھائی صاحب نے منگوائے کنٹینر اور چڑھ گئے اور پھر اترنے سے سمجھیں انکار ہی کر دیا۔ اس دوران ملک میں شاید ہی ان کا کوئی مخالف ہو گا کہ جس نے ان سے یہ نہ سنا ہو کہ ”اوئے، میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں“، مخالفین کو چور اور ڈاکو کہنے کے ساتھ ساتھ اپنی باری بھی مانگتے رہے پر باری تو باری سے ہی آتی ہے درمیان میں تو صرف ڈنڈا ہی آتا ہے اور ابھی شاید ڈنڈے کا وقت ہی نہ آیا تھا۔ بہرحال مخالفین کے بقول جس سیاست کو وہ دفن کر چکے تھے بھائی صاحب نے اس کو زندہ کر دیا۔ لیکن اگر ایک طرف سے یہ بھائی صاحب اپنے ”چپڑاسی“ کے ساتھ ”اوئے توئے“ کرتے تھے تو دوسری طرف ہمارے ”ہر دل عزیز وزیراعظم“ کے مصاحبین ٹی وی چینل پر دوبدو جواب دینے کو موجود ہوتے تھے۔

کنٹینر سے اترے تو پاناما پہ چڑھ دوڑے اور اس دفعہ لگا کہ صحیح فلائٹ پکڑ لی بھائی صاحب نے۔ زور تو بہت لگایا مخالفین نے کہ فلائٹ کو گرا لیا جائے پر بات بنی نہیں۔ سوشل میڈیا بھی زور پکڑ چکا تھا، پہلے جو تو تڑاک سیاست دان آپس میں کرتے تھے اب وہ ہر کوئی کرنے لگا۔ ہر بندہ اپنے لیڈر کو لیڈر چھوڑ بھگوان سمجھنے لگا کہ جس کی حفاظت کرنا اتنا ہی ضروری تھی کہ جس کے لئے کوئی رشتہ یا ناتہ بچانا ضروری نہیں۔ ہر کوئی دوسری پارٹی پر الزام لگاتا ہے کہ دشنام طرازی کا آغاز تو جناب آپ کی طرف سے ہوا۔

ایک پارٹی اگر کنٹینر سے بولے گئے الفاظ کی بات کرتی ہے تو دوسری ہیلی کاپٹر سے تصاویر گرانے کی، تیسری پارٹی کہ جس کا دامن کچھ عرصہ قبل تک کافی صاف تھا کہ اس کی لیڈر پر بے تحاشا الزامات لگائے گئے پر جواب کم ہی دیا گیا پر پچھلے کچھ عرصے سے شاید انہوں نے بھی باقی خربوزوں کا رنگ پکڑ ہی لیا۔ درمیان میں کچھ بس، کچھ تانگہ اور کچھ سائیکل پارٹیاں بھی ہیں لیکن اگر سوشل میڈیا پر دیکھا جائے تو کم وہ بھی نہیں کرتے۔

اب ہم سب مل کر ایک دوسرے کے لیڈر کو چور، ڈاکو، نا اہل، زکوٰۃ خور، یہودی ایجنٹ، مولانا ڈیزل، اور بہت کچھ کہتے ہیں۔ ایک بندہ اپنے لیڈر کے حق میں یا مخالف کے خلاف پوسٹ لگاتا ہے اور پھر سب خوب گتھم گتھا ہوتے ہیں۔ لیڈر بات کر کے بھول جاتے ہیں اور ہم ایک دوسرے سے کئی دنوں دست و گریباں رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).