جنسی ہراسانی۔ چائے کی پیالی پر طوفان


گزشتہ چند دنوں سے وفاقی خاتون محتسب برائے ہراسانی کے ایک بیان کو لے کر سوشل میڈیا پر سب احباب نے ایک منڈلی جمائی ہوئی ہے، یقیناً جس پاور اسٹرکچر کے اس سماج میں ہم جی رہے ہیں، وہاں اس قسم کا ہنسی مذاق کرنا، ہم مردوں کا شیوہ بھی ہے اور تفریح طبع بھی۔

ہاں اگر ہم لڑکی ہوتے۔ ۔

اور پیدا ہونے سے لے کر بچپن اور پھر بچپن سے لے کر لڑکپن، اور پھر جوانی سے بڑھاپے تک ہم نے بھی محبت بھری معنی خیز گودیں اور بوس کنار اور چٹکیاں، تعریف بھرے معنی خیز جملے، بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک پر معنی خیز تبصرے، برقعہ، چادر تک اوڑھ کر بھی کہنیاں، مکے کھائے  ہوتے، چلنے سے لے کر بیٹھنے تک کہ انداز پہ تبصرے سُنے ہوتے اور ان پر اچھلتے قہقہے برداشت کیے ہوتے۔ گلی سے لے کر پارک اور بازار میں راستہ دیتے ہوئے ٹھرکیوں کی حرکتیں برداشت کی ہوتیں تو ہمیں اندازہ ہوتا۔ کہ لڑکی ہونا کیسا ہے؟

کبھی کسی لڑکی یا خاتون سے پوچھیں تو ہر عورت کے پاس جنسی ہراسانی کی ایک یا دو کہانیاں ضرور ہوتی ہیں جو یا اس کی چند سہیلیوں تک محدود رہتی ہیں یا پھر وہ انھیں اپنے دل میں دبائے دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں۔

گھر میں خاندان والے، اسکول یا یونیورسٹی میں ادارے کے ذمہ داران، دفتروں میں افسران ہو سب کہتے ہیں چُپ کرو کیوں اپنی بچی کھچی عزت داؤ پر لگاتی ہو، ان جملوں، حرکتوں کی نہ کوئی پکڑ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ریکارڈ، گندی نظر ناپنے کا نہ کوئی آلہ ایجاد ہوا ہے اور نہ بد نیتی کسی سکینر کی زد میں آ سکتی ہے، اس لیے ہراسانی کا کوئی ثبوت نہیں دیا جا سکتا۔

اور ایک لڑکی یا عورت کے لئے یہ مرحلہ کتنا کٹھن اور اذیت ناک ہوتا ہے کہ وہ چیخ اٹھتی ہے کہ

اگلے جنم موہے بٹیا نی کیجیو

کارل مارکس نے کہا تھا کہ کسی معاشرے کے مہذب ہونے کا اندازہ اس معاشرے میں عورت کی سماجی حیثیت، مقام اور مرتبے سے لگایا جاسکتا ہے۔

اب وفاقی محتسب صاحبہ نے تو بیان دے دیا۔ اور ہم سب مردوں نے اس چائے کہ کپ میں سے طوفان نکال کر تفریح طبع کا سامان ڈھونڈ لیا۔ حالانکہ محتسب صاحبہ بطور خاتون کے اچھی طرح جانتی ہیں کہ یہ مرودوں کا سماج ہے۔ یہ مردوں کا معاشرہ ہے۔ اس سماج میں ایک لڑکی یا عورت کیا کر سکتی ہے؟ یا سب لڑکیاں یا عورتیں کیا کر سکتی ہیں؟ عورت کیا ہے؟ بچیاں کیا ہیں؟ بیٹیاں کیا ہیں؟ لڑکیاں کیا ہیں؟ اور یہ سماج ان کی کیا قدر کرتا ہے؟

اور ہمارے پاکستانی معاشرے میں عورت کے بارے میں سطحی گفتگو کرنے کی آزادی تو ہمیشہ ہی سے ہے۔

ہراسانی ’کیا ہے اس پہ بہت گفتگو ہوتی رہتی ہے، مردوں کا عورتوں کو ہراساں کرنا، عورتوں کا عورتوں کو ہراساں کرنا، مردوں کا مردوں کم عمر لڑکوں کو ہراساں کرنا اور ہم مردوں کی طرف سے جوابی رد عمل کے طور پر عورتوں کا مردوں کو ہراساں کرنے کے حوالے سے بہت بات کی جاتی ہے

کچھ مرد حضرات نے اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں بہت خوش ہوتے ہوئے یہ بھی بتاتے ہیں کہ انھیں بھی ان سے بڑی عمر کی خواتین نو عمری میں ہراساں کرتی رہی ہیں۔ یقیناً ان کے ساتھ ایسا ہوا ہو گا اور ایسا ہوتا ہو گا۔

لیکن کیا انھیں نظر انداز کر دیے جانے کی حد تک کم واقعات کے باعث یہ مان لیا جائے کہ خواتین کو ہراساں نہیں کیا جاتا؟ اور اگر کیا بھی جاتا ہے تو اس کے لیے ایک خاص وضع قطع، عمر، شکل اور سماجی حیثیت کی عورت ہی شکار بن سکتی ہے؟

ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ ہر ماحول، ہر طبقے اور ہر میدان کی عورت کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ مرد عورت کو کیوں ہراساں کرتا ہے؟ اور کیا اس جرم کے لیے کسی عورت کا حسین، پردے دار، کم سن اور شرمیلا ہونا ضروری ہے؟

نہیں! ایسا بالکل نہیں ہے، ذرا اپنے سماج پر نظر ڈالیں۔ ننھی منی بچیوں سے لے کر ضیعف خواتین تک، گندی میلی کپچیلی فقیرنیوں سے لے کر پاگل، بیمار اور مریض لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ ہراسانی اور بد سلوکی سب کچھ ہورہا ہوتا ہے۔ اور پھر ہم مردوں کا ہنس کر ایک جملہ کہہ دینا کہ
بس نبض چلنی چاہیے۔ ۔

سوال یہ ہے کہ بطور مرد ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ تو ہمیں اپنا ظرف اور حوصلے کو بڑھانا ہے۔ بجائے اس کہ چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھائیں بلکہ اگر ایک لڑکی یا عورت اپنے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی کا ذکر کر رہی ہے تو اسے بولنے دیں، اس ایک آواز میں جانے کتنی پسی ہوئی مظلوم خواتین کی آوازیں شامل ہیں۔ وہ جو ابھی تک نہیں بول سکیں اس ایک چیخ میں ان کی پکار بھی شامل ہے، خدارا! اس پکار کا گلا نہ گھونٹیں بلکہ اس آواز میں اپنی آواز ملائیں خود کو تبدیل کریں، اپنی غلطی کا عتراف کرنا سیکھیں، معافی مانگنا سیکھیں۔ مرد ہونا اعزاز نہیں اور عورت ہونا کوئی گالی نہیں، انسان ہونا بڑی بات ہے، انسان بنیں، مرد نہ بنیں!

نوٹ: اس تحریر کو لکھنے میں آمنہ مفتی صاحبہ کی تحریر سے استفادہ کیا گیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).