بی آر ٹی خیبر پختونخوا حکومت کے لیے درد سر یا متازع منصوبہ؟


بی آر ٹی منصوبہ

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں تقریباً ڈیڑھ سال سے تاخیر کا شکار پبلک ٹرانسپورٹ منصوبے، بس ریپڈ ٹرانزٹ یا بی آر ٹی کی ڈیزائننگ میں بار بار تبدیلیوں کی وجہ سے اب اس میں کئی تعمیراتی نقائص سامنے آ رہے ہیں جس سے یہ منصوبہ حکومت کے لیے درد سر کے ساتھ ساتھ متنازع منصوبے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ماضی میں تین مرتبہ اس منصوبے کے افتتاح کا اعلان کر چکی ہے تاہم ہر مرتبہ اس میں تاخیر ہوتی رہی ہے۔ وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے حالیہ دنوں میں منصوبے کی تاخیر کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر 23 مارچ کو اس کے جزوی افتتاح کا اعلان کیا تھا۔

دوسری طرف زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں۔

بی آر ٹی منصوبہ

گذشتہ دنوں بی بی سی کی ایک ٹیم نے چمکنی سے لے کر حیات آباد تک زیر تعمیر اس منصوبے کا تفصیلی دورہ کیا۔ 26 کلو میٹر پر مشتمل بی آر ٹی کوریڈور تقربیاً مکمل ہو چکا ہے تاہم 32 بس سٹیشنز میں سے چار ایسے ہیں جو تاحال مکمل نہیں ہو سکے ہیں۔ ان سٹیشنز کو مکمل کرنے میں اب بھی کئی دن لگ سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ شہر کے تین مختلف مقامات چمکنی، ڈبگری گارڈن اور حیات آباد میں تین بڑے بڑے ڈیپو بنانے کا اعلان کیا گیا تھا جہاں منصوبے کے مطابق مارکیٹیں اور پارکنگ پلازے تعمیر کیے جائے گے لیکن وہاں بھی کوئی قابل ذکر کام دیکھنے کو نہیں ملا۔

اس منصوبے کی ڈیزائننگ میں گذشتہ تقریباً ڈیڑھ سال کے دوران ایک درجن سے زیادہ مرتبہ تبدیلیاں کی گئی ہیں جس سے کئی نقائص سامنے آئے ہیں۔

بی آر ٹی منصوبہ

حالیہ دنوں میں صوبائی حکومت کو اُس وقت شدید تنقید اور خفت کا سامنا کرنا پڑا جب اس منصوبے کے لیے قرضہ دینے والے ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک کے ماہرین نے بی آر ٹی منصوبے کے تحت بننے والے بس سٹیشنز پر شدید اعتراضات اٹھائے اور انھیں بسوں کی آمد و رفت کے لیے انتہائی غیر موزوں قرار دیا۔

بی آر ٹی کوریڈور میں تین سٹیشنز ایسے پائے گئے جہاں بسوں کے گزرنے کے لیے بنائی گئی سڑک کی چوڑائی اور لمبائی کم پائی گئی۔

حیران کن طور پر بی آر ٹی انجینئروں کو یہ نقائص ڈیڑھ سال کے بعد اُس وقت نظر آئے جب منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔

بی آر ٹی منصوبہ

صوبائی حکومت نے مزید تنقید سے بچنے کے لیے ان غیر موزوں بس سٹیشنز کو ہنگامی بنیادوں پر توڑ کر راتوں رات دوبارہ اس کی تعمیر کی لیکن اس دوران پشاور کے شہریوں نے سوشل میڈیا پر بی آر ٹی انجینئروں اور حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

صارفین نے درجنوں ایسے ویڈیوز شئیر کیے جس میں مزدور تعمیر شدہ سٹیشنز کو توڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

عوامی حلقوں میں کچھ دنوں سے یہ بحث خاصی گرم رہی کہ اتنے بڑے اور خطیر رقم سے تعمیر ہونے والے منصوبے کے لیے آخر کس قسم کے انجینئروں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جو سڑکوں کی درست پیمائش تک کرنے میں ناکام رہے؟

بی آر ٹی منصوبہ

رہی سہی کسر حالیہ تیز بارشوں نے پوری کردی جب چند مقامات پر پورا بی آر ٹی روٹ ہی پانی میں ڈوبتا نظر آیا۔

یونیورسٹی روڈ پر چند دن پہلے ہونے والی بارشوں کی وجہ سے تمام انڈر پاسسز میں کئی دنوں تک نہ صرف کئی فٹ پانی کھڑا رہا بلکہ اس کی وجہ سے آس پاس موجود دکانوں کو نقصان بھی پہنچا۔

اس بات کا بھی پہلی مرتبہ انکشاف ہوا کہ کوریڈور کے مقام پر نکاسی آب کا پہلے سے کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں پشاور میں نکاسی آب اور صفائی کے ادارے ڈبلیو ایس ایس پی کی طرف سے بی آر ٹی کے ڈائریکٹر کو ایک خط بھی لکھا گیا ہے جس میں کوریڈور سے گزرنے والی جگہوں پر نکاسی آب کا بہتر انتظام نہ ہونے اور دیگر خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ خط متعدد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کئی دنوں تک زیر بحث رہا۔

بی آر ٹی منصوبہ

تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی جانب سے بی آر ٹی منصوبے کے افتتاح کے لیے بار بار تاریخوں کا اعلان کرنا اب ایک تنازعے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

اکتوبر سنہ 2017 میں جب پہلی مرتبہ اس منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا تو اُس وقت کے وزیر اعلی پرویز خٹک نے اسے چھ ماہ میں مکمل کرنے کا بڑا اعلان کیا تھا۔

اس کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے دو مرتبہ اس طرح کے اعلانات کیے گئے لیکن ہر مرتبہ تاخیر ہوتی رہی۔ تاہم موجودہ وزیر اعلی محمود خان نے چند دن پہلے بی آر ٹی کا دورہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر 23 مارچ کو اس کے افتتاح کا اعلان کر دیا۔

وزیراعلی نے کہا: ’23 مارچ کو وہ یہاں آئیں گے اور کام نامکمل ہونے کی صورت میں کیا اقدامات اٹھائیں گے وہ سب لوگ دیکھ لیں گے۔‘

بی آر ٹی منصوبہ

اس سے پہلے بھی محمود خان تعمیراتی کام میں تاخیر کا سختی سے نوٹس لیتے رہے ہیں جبکہ پرویز خٹک نے بھی اپنے دور حکومت میں تاخیر پر کچھ افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا تھا۔

بی آر ٹی منصوبہ شہر کی واحد مرکزی شاہراہ پر واقع ہے جہاں تعمیرات سے آس پاس کی سڑکیں پہلے ہی کافی حد تک تنگ ہو چکی ہیں جس سے شہر میں صبح سے لے کر شام تک ٹریفک جام رہتی ہے۔

ابتدا میں کہا گیا تھا کہ شہر میں ٹریفک کا بہاؤ بہتر بنانے کےلیے متبادل انتظامات کیے جائیں گے لیکن اس ضمن میں تاحال ایسے کوئی اقدامات نظر نہیں آئے۔

پشاور کے شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر ٹریفک کے بہاؤ میں بہتری نہیں لائی گی تو یہ اس منصوبے کی سب سے بڑی ناکامی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp