پاکستان میں تعلیمی اصلاحات


گزشتہ مضامین میں ہم نے ان اسباب کا جائزہ لیا تھا جن کی بنیاد پر پاکستان کا قومی بیانیہ تشکیل دیا گیا۔ گزشتہ مضامین سے جڑی اس بحث کو ہم آج آگے بڑھاتے ہیں۔ آج ہم بالخصوص اس قومی بیانیے کے زیر اثر اپنے تعلیمی نظام کے خدوخال پر بحث کریں گے۔ چونکہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو ایک بہت طویل مکالمے کا متقاضی ہے اس لیے یہاں ہم تعلیمی نظام کے صرف تین اہم ترین اجزائے ترکیبی کو موضوع بحث بنائیں گے۔ یہ تین اجزاء اساتذہ کی بھرتی و تربیت، نصاب، اور تدریسی طریقہِ کار ہیں۔ ان موضوعات پر بحث کرتے ہوئے ہم جدید دنیا میں رائج نظام ہائے تعلیم سے بھی مدد لینے کی کوشش کریں گے تا کہ تعلیمی نظام میں اصلاحات کے حوالے سے ایک عملی حل کی طرف پیش رفت کی جا سکے۔

وہ سماج جہاں علم کا حصول ترجیحِ اوّل اور تعلیم سماجی تبدیلی اور ترقی کے حصول کے لیے واحد ایجنٹ کا درجہ رکھتی ہے وہاں اساتذہ کے انتخاب کا طریقہ کار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اساتذہ کی قابلیت جانچنے اور ان کی تدریسی صلاحیتوں کو پرکھنے کے لیے ایک پورا نظام تشکیل دیا جاتا ہے اور اس نظام کی چھلنی میں سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے بعد ہی کسی فرد کو اس شعبے میں بھرتی کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے فِن لینڈ کی مثال کو ہی دیکھ لیں جسے دنیا کا بہترین نظامِ تعلیم سمجھا جاتا ہے۔

فن لینڈ میں اساتذہ کی بھرتی کا نظام اتنا سخت اور مقابلے پر مبنی ہے کہ دس افراد جو اس شعبے میں آنے کے لیے درخواست دیتے ہیں ان میں سے صرف ایک سیلکشن کے عمل سے کامیابی سے گزر کر تدریس کے شعبے میں داخل ہو پاتا ہے۔ امیدواروں کے تعلیمی ریکارڈ کے علاوہ ان کی غیر نصابی سرگرمیوں میں دلچسپی کو بھی سیلکشن کے عمل میں خصوصی طور پر مدنظر رکھا جاتا ہے یعنی اس پیشے میں خواہشمند افراد کی پوری تعیلمی پرفارمنس اس کے تعلیمی عمل کے بارے میں انفرادی رویّے اور شوقِ تدریس کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے امتحانی عمل سے بھی اسے گزارا جاتا ہے جس میں نہ صرف اس کی تنقیدی و تخلیقی صلاحیتوں کا جائزہ لیا جاتا ہے بلکہ ایک مخصوص عرصے تک اس کو اپنی ان تمام صلاحیتوں کا کامیاب اظہار ایک کلاس روم کے ماحول میں کرنے کے بعد ہی کہیں اس فرد کا بطور معلم یا معلمہ انتخاب کا حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔

اس طویل عمل سے گزرنے کے بعد اساتذہ کو مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنے طلبا کی تعلیم و تربیت کے لیے جو بھی طریقہِ کار منتخب کریں۔ دلچسپ امر یہ ہے فن لینڈ میں اگلے درجے میں جانے کے لیے امتحانات کا کوئی نظام رائج نہیں اور اس فیصلے کا مکمل اختیار معلمین کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ کیا پڑھانا ہے، کیسے پڑھانا ہے اور کیسے اگلے درجے میں ترقی دینی ہے۔ ہفتے میں صرف بیس گھنٹے سکول میں گزارنے والے بچے اس نظام کی بدولت دنیا کے قابل ترین طلبا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ کیوں کہ اس نظام میں دماغوں پہ نظریات کے تالے نہیں لگائے جاتے بلکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو مزید نکھرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔

اب ذرا اپنے دیس میں اساتذہ کی بھرتی کے نظام کو دیکھ لیں۔ یہاں سیاسی اثر و رسوخ یا ایسے امتحانات کے ذریعے اساتذہ کی بھرتی ہوتی ہے جن سے نہ ان کی قابلیت کا انداذہ ہوتا ہے نہ سوچنے سمجھنے اور تخلیقی صلاحیتوں کا پتا چلتا ہے۔ شعبئہِ تعلیم علم کے حصول کے بجائے بیروزگاروں کو روزگار فراہم کرنے کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ چونکہ معاوضے کے حوالے سے اس شعبے سے وابستہ افراد وہ سہولیات حاصل نہیں کر پاتے جو اور بہت سے شعبوں کو حاصل ہیں اس لیے زیادہ تر اس شعبے سے وابستہ افراد کی یہ آخری ترجیح ہوتی ہے۔

مالی حوالے سے پرکشش نہ ہونے کے سبب اکثر نوجوان اپنی عمر بچانے یعنی اوور ایج سے بچنے کے لیے اپنے کیریر کی پہلی سیڑھی کے طور پہ اس کو اختیار کرتے ہیں اور جیسے کوئی اور نوکری میّسر آتی ہے جس میں زیادہ پیسہ کمانے یا بنانے کے موّاقع ہوتے ہیں تو اس شعبے سے وہاں چھلانگ لگا لیتے ہیں۔ میرے ایک بچپن کے ہم جماعت ہائی سکول میں گریڈ سترہ کی نوکری چھوڑ کر محکمہ مال میں بارویں گریڈ میں ملازم ہو گئے۔ ایک دن سرِ راہے ملاقات پر جب میں نے اس تنزل پسندی کا سبب پوچھا تو فرمانے لگے کہ محکمہ تعلیم کے بیس گریڈ سے محکمہ مال کا دسواں گریڈ سو گنا بہتر ہے۔

گو یہ مثال سو فیصد افراد کے لیے درست نہیں مگر اکثریت کو اگر ایسا موقع میسر ہو تو وہ اس شعبے سے جان خلاصی کر لیں گے۔ ایسے حالات میں علم بیزار اساتذہ سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ بچوں میں تجسس، علم کی پیاس، جاننے کی طلب پیدا کرنے میں کوئی دلچسپی رکھیں گے؟ یا ان کی تنقیدی و تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں معاوّن و مدد گار ثابت ہوں گے؟

ان سوالوں کے ساتھ ہم آج کی گفتگو کو یہاں پر روکتے ہیں۔ اس سلسلے کے اگلے اور آخری مضمون میں ہم نصابِ تعلیم اور طرزِ تدریس کے علاوہ کچھ سفارشات پیش کریں گے جن کی روشنی میں تعلیمی نظام میں اصلاحات کے مباحث کو آگے بڑھایا جا سکے گا۔ میں ایک بار پھر کہوں گا بیس مارچ کو بہاولپور میں ایک کالج میں ہونے والا واقع جس میں نہ صرف ایک شاگرد نے وحشیانہ انداز میں اپنے استاد کا قتل کیا بلکہ اس کے بعد جس قسم کا ردِ عمل ایک مذہبی جماعت کی طرف سے آیا ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ہمارے پاس مزید دیر کی گنجائش اب نہیں رہی۔ اگر کوئی نیا پاکستان بنانا ہے تو ابتدا تعلیمی نظام میں اصلاحات سے کر لیجیے۔ اس آواز کا اٹھانا اور ارباب اقتدار تک پہنچانا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ ورنہ اپنے بچوں اور اپنے اساتذہ کی لاشیں اٹھانے کا یہ سلسلہ بند نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).