کیا نفسیاتی مسائل کا شکار لوگوں کو شادی کرنی چاہیے؟


میری والدہ جب اپنے سسرال سے بہت ناراض ہوتی تھیں تو غصے میں کہا کرتی تھیں ’میرے گھر والوں نے میری شادی ایک پاگلوں کے خاندان میں کر دی تھی‘

اب مجھے یہ جان کر حیرانی ہوتی ہے کہ اس دور کے بہت سے جوڑوں کی طرح میرے والدین شادی سے پہلے نہ تو ایک دوسرے سے ملے تھے اور نہ ہی انہوں نے ایک دوسرے کی تصویر دیکھی تھی۔ چونکہ دونوں کا تعلق کشمیری خاندان سے تھا اور دونوں پنجابی بولتے تھے اس لیے دونوں خاندانوں نے سوچا ان کی روایتی شادی چل جائے گی۔ انہوں نے یہ نہ سوچا کہ دونوں کی شخصیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہ ساری عمر دریا کے دو کناروں کی طرح زندگی گزارتے رہے۔ وہ ایک گھر میں رہ کر بھی دو مختلف دنیائوں میں بستے تھے۔

جب میری عمر دس برس تھی تو میرے والد‘ جو کوہاٹ کے گورنمنٹ کالج میں ریاضی کے لیکچرار تھے‘ ایک ذہنی بحران کا شکار ہو گئے۔ ان پر پاگل پن کے دورے پڑتے تھے۔ وہ عالمِ دیوانگی میں دن کو گھنٹوں کمرے کے وسط میں CATATONIC STATE  میں مبہوت کھڑے رہتے تھے اور رات کو ستاروں سے باتیں کرتے تھے۔ وہ ایک سال ذہنی بیمار رہے۔ میری والدہ نے ان کا علاج ڈاکٹروں ‘حکیموں اور روحانی پیشوائوں سے کروایا لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔ ایک سال کے بعد وہ جس پراسرار طریقے سے بیمار ہوئے تھے اسی پراسرار طریقے سے صحت مند ہو گئے اور پھر ساری عمر صحت مند رہے۔

میرا خیال ہے کہ میرے والد کی ذہنی بیماری نے مجھے لاشعوری طور پر ایک ماہرِ نفسیات بننے کی تحریک دی ہوگی اور مجھے ایک ہمدرد طبیب بنایا ہوگا۔

میری نگاہ میں ویسے تو ہر شخص کو سوچ سمجھ کر شادی کرنی چاہیے لیکن نفسیاتی مسائل کا شکار لوگوں کو اور بھی سوچ سمجھ کر بچے پیدا کرنے چاہئییں کیونکہ بعض ذہنی بیماریاں موروثی ہیں اور وہ بچوں کو پیدائشی طور پر متاثر کر سکتی ہیں۔

آج سے کئی سال پیشتر میرے کلینک میں ایک تئیس برس کی پاکستانی لڑکی آئی جو سکزوفرینیا کا شکا تھی۔ میں نے اس کا ادویہ اور تھیریپی سے علاج کیا۔ ایک سال کے بعد اس کی بیماری کنٹرول میں آگئی۔ ایک دن اس کے والدین نے مجھے بتایا کہ وہ اس کی شادی کرانے اسے پاکستان لے جا رہے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ان کی بیٹی شادی اور بچوں کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتی کیونکہ وہ جسمانی طور پر بالغ لیکن ذہنی طور پر نابالغ ہے۔ شادی کا ذہنی دبائو اسے دوبارہ بیمار کر سکتا ہے۔

جب میں نے دیکھا کہ اس لڑکی کے والدین اس کی شادی کروانے پر مصر ہیں تو میں نے کہا کہ دولہا اور سسرال کو بتا دیں کہ وہ ادویہ لیتی ہے۔ کہنے لگے ’ڈاکٹر سہیل ! آپ کمال کرتے ہیں۔ اگر بتا دیا تو پاگل لڑکی سے کون شادی کرے گا‘

میرے منع کرنے کے باوجود میری مریضہ کے والدین اسے پاکستان لے گئے اور ایک اجنبی سے اس کی ARRANGED MARRIAGE  کر دی۔ جب دولہا کینیڈا آیا تو وہ یہ جان کر حیران ہوا کہ اس کی دلہن اس کے ساتھ نہیں سونا چاہتی۔ بہت سے لوگ یہ حقیقت نہیں جانتے کہ بہت سے نفسیاتی مسائل کے مریض جنسی تعلقات سے کتراتے ہیں کیونکہ ان سے وہ اور زیادہ رومانوی اور نفسیاتی تضادات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دولہا نے دو ماہ انتظار کیا لیکن پھر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ وہ اصرار کرتا رہا دلہن انکار کرتی رہی۔ آخر جب دلہا نے اپنے شوہرانہ حقوق کا دبائو ڈالا تو دلہن نے ادویہ کھا کر خود کشی کرنے کی کوشش کی۔ اتفاق سے اس کے والدین نے اسے بیہوش پا کر ایمبولینس کو فون کر دیا اور وہ چند دن کے لیے ہسپتال داخل ہو گئی۔

اس واقعہ کے چند ہفتوں کے بعد دلہا واپس پاکستان چلا گیا اور شادی اپنی خوشیوں کی بہار دکھانے سے پہلے ہی مرجھا گئی۔ایک دن لڑکی کے والدین نے مجھ سے معافی مانگی کہ انہوں نے میرے مشورے پر عمل نہیں کیا اور اب وہ پچھتا رہے تھے۔

بہت سے ذہنی مریض شادی نہیں کرنا چاہتے۔ وہ بچے بھی نہیں پیدا کرنا چاہتے۔ فطرت بھی چاہتی ہے کہ دنیا میں ذہنی مریض بچے نہ پیدا ہوں۔

مغرب میں اب ذہنی مریضوں کی GENETIC COUNSELLING کی جاتی ہے تا کہ انہیں پتہ چلے کہ ان کی ذہنی بیماری کس حد تک موروثی ہے۔ میں اپنے ذہنی مریضوں کو بتاتا ہوں کہ یہ ان کا انسانی حق اور choice ہے کہ وہ بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ انہیں ماں باپ کے دبائو سے نہ تو شادی کرنی چاہیے اور نہ ہی بچے پیدا کرنے چائییں۔ بدقسمتی سے آج بھی کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ذہنی بیمار لوگوں کی شادی ہو گئی تو وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔ وہ نہیں جانتے کہ وہ کسی اور کی زندگی بھی جہنم بنا سکتے ہیں۔

سقراط نے آج سے 2500 سال پہلے مشورہ دیا تھا کہ جسمانی اور ذہنی بیماروں کو رومانوی تعلقات کی اجازت ہونی چاہیے لیکن بچے پیدا کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے تا کہ ایک صحتمند ریاست میں صحتمند بچے ہی پیدا ہوں۔ جب میں ایران میں رہتا تھا تو حکومت میاں بیوی سے یہ تقاضا کرتی تھی کہ وہ شادی سے پہلے ڈاکٹر سے ٹیسٹ کروائیں کہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر صحتمند ہیں۔

میری نگاہ میں نفسیاتی مسائل کا شکار مریضوں کو اپنے خاندان اور ڈاکٹر سے اس موضوع پر کھل کر بات کرنی چاہیے تا کہ وہ اپنی زندگی کے بارے میں دانشمندانہ فیصلے کر سکیں۔ میرے بچے نہ پیدا کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے بچے نفسیاتی مسائل یا ذہنی بیماری کا شکار ہوں۔

بعض ماہرینِ نفسیات اور محققین کا خیال ہے کہ CREATIVITY اور INSANITY کی جینز ایک ہی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ذہنی مریضوں کے خاندانوں میں شاعروں‘ ادیبوں اور دانشوروں کی تعداد عام خاندانوں سے تین گنا زیادہ پیدا ہوتی ہے۔ اگر آپ کا خاندان نفسیاتی مسائل کا شکار ہے تو آپ کو سوچ سمجھ کر بچے پیدا کرنے چاہئییں کیونکہ آپ کے بچے دیوانے بھی ہو سکتے ہیں اور صاحبِ دیوان شاعر بھی۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail