گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے لیے کیوں اہم؟


گولان پہاڑیاں

جمعے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی خود مختاری تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ علاقہ اسرائیلی ریاست کی سکیورٹی اور علاقائی استحکام کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔

جبکہ صدر ٹرمپ کے بیان پر شامی حکومت نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس ٹوئیٹ کو ‘غیرذمہ دارانہ’ قرار دیا اور اس کی سخت مذمت کی ہے۔ شام کے سرکاری خبر رساں ادارے میں شائع ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ امریکہ کی اسرائیل کی ‘اندھی تقلید` کا ثبوت ہے۔

https://twitter.com/realDonaldTrump/status/1108772952814899200

سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق شام اپنے’ تمام ممکنہ دستیاب وسائل’ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے علاقے کو واپس لینے کے لیے پختہ عزم رکھتا ہے۔

تاہم اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو کئی بار شامی جنگ میں ایرانی مداخلت کی تنبیہ کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے صدر ٹرمپ کے اس بیان پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے!

امریکہ گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی خود مختاری تسلیم کرتا ہے: ٹرمپ

اسرائیل شام میں ’ایرانی اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے‘

’اسرائیل نے دمشق میں اسلحہ ڈپو کو نشانہ بنایا ہے‘

https://twitter.com/netanyahu/status/1108777011227619329

انھوں نے کہا کہ ‘ایک ایسے وقت میں جب ایران شام کو پلیٹ فارم بنا کر اسرائیل کو تباہ کرنا چاہتا ہے، صدر ٹرمپ نے دلیری کے ساتھ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی خود مختاری تسلیم کی ہے۔’

سال 2017 میں امریکہ نے سرکاری طور پر یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اور 2018 میں تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کردیا تھا۔

گولان پہاڑیاں

اس پر فلسطین اور عرب دنیا سے سخت ردِعمل سامنے آیا تھا۔ فلسطینی موقف ہے کہ مشرقی یروشلم ان کی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت ہو گا اور 1993 کے فلسطینی اسرائیلی معاہدے کے تحت یروشلم پر حتمی فیصلہ بعد میں ہونا ہے۔

گولان کی پہاڑیاں کیا ہیں؟

گولان پہاڑیاں

گولان کی پہاڑیاں شام کا وہ علاقے ہے جس پر اسرائیل نے 1967 سے قبضہ کر رکھا ہے۔

گولان کی پہاڑیاں 1200 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہیں۔ یہ شامی دارالحکومت دمشق سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہیں۔ اس علاقے پر تقریباً 30 یہودی بستیاں قائم ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 20000 لوگ منتقل ہو چکے ہیں۔

اس علاقے میں تقریباً 20000 شامی لوگ بھی رہتے ہیں۔ شام اور اسرائیل کے درمیان سرحدی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کے ایک جانب لبنان اور دوسری جانب اردن کی سرحد بھی لگتی ہے۔

گولان کی پہاڑیوں پر تنازع کیا ہے؟

اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ کے آخری مرحلے میں اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور 1973 میں شام کی اس پر واپس قبضہ کرنے کی کوشش بھی ناکام بنائی اور سنہ 1981 میں اس کو اسرائیل نے یکطرفہ طور پر اپنا علاقہ قرار دے دیا تھا۔

گولان پہاڑیاں

تاہم اسرائیل کے اس اقدام کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا اور سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ گزشتہ 52 سال سے یہ علاقہ عالمی سطح پر متنازع ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس علاقے پر اسرائیل کے قبضہ کو غیر قانونی قرار دیتی ہے۔

شام میں اقوام متحدہ کے خصوصی سفیر گئیر پیڈرسن نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ سکیورٹی کونسل اس پر بہت واضح ہے کہ گولان کی پہاڑیاں شامی علاقہ ہے اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق یہ شامی کی سرحدی سالمیت کا معاملہ ہے۔

گولان پہاڑیوں کی اہمیت

گولان کی پہاڑیوں کو شام اور اسرائیل دونوں ملک ہی خاص اہمیت دیتے ہیں اس کی اہم وجہ اس کی جغرافیائی اور عسکری اہمیت ہے۔ شام کے جنوب مغرب میں واقع اس پہاڑی سلسلے سے شامی دارالحکومت دمشق واضح طور پر نظر آتا ہے۔

اس علاقے پر اسرائیل کے قبضہ کے بعد سے اسرائیلی فوج یہاں سے شامی فوج اور جنگجوؤں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ یہاں سے شمالی اسرائیل کا علاقہ بھی دسترس میں ہے اور سنہ 1948 سے سنہ 1967 تک جب یہ پہاڑی سلسلہ شام کے زیر انتظام تھا تو شامی فوج یہاں سے شمالی اسرائیل پر گولہ باری کرتی رہی ہے۔

لہذا اس علاقے کا جغرافیائی محل وقوع اسرائیل کو شام کی جانب سے کسی بھی عسکری حملے کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔

عسکری اہمیت کے علاوہ اس بنجر علاقہ کے لیے پانی بھی ان پہاڑیوں سے بارش کے پانی سے بننے والے ذخیرہ سے حاصل ہوتا ہے جو کہ اسرائیل کے لیے پانی کا تیسرا بڑا ذریعہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp