اساتذہ کے قتل پر ایک طرح کا اطمینان ہوتا ہے، کبھی سوچا کہ کیوں؟


اسلام آباد میں قومی زبانوں کا ایک میلہ لگا۔ لوک ورثہ کے زارسنگہ ہال میں ”ہم کیا نہیں لکھ رہے“ کے عنوان پر محفل سجی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر خالد سہیل میرِ محفل تھے اور شمع ان کے آگے رکھی تھی۔ گفتگو میں انہوں نے درس گاہوں کی ویرانیوں کا ماتم کیا۔ کہنے لگے، ہمارے ہاں بہت ساری فطری چیزوں کو غلط تصور کر لیا گیا ہے، اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں طلبا کی رہنمائی کریں۔ ایک کونے سے آواز آئی، ڈاکٹر خالد سہیل کی باتوں میں مت آئیے گا یہ مروانے والی باتیں کررہے ہیں، پھر بھی اگر شوق ہے تو رہنمائی سے پہلے کلاس میں نگاہ دوڑا لیں کہ کسی سٹوڈنٹ کے ہاتھ میں کیمرے والا موبائل تو نہیں ہے۔

کہنے والے نے یہ بات ازراہ تفنن کہی تھی۔ مگر اس کے پیچھے سہمی ہوئی درس گاہوں سے متعلق ایک سچائی چھپی تھی جو چالیس برس پر محیط ہے۔ زمانہ دینی مدارس کو روتا تھا یہاں عصری جامعات میں رفو کا بڑا کام نکل آیا ہے۔ لوگ حیرت کرتے ہیں مگر حیرت کا کوئی جواز نہیں ۔ کہنی چاہیے یا نہیں، مگر اس سچ کو لکھ دینے میں اب کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا کہ اس معاشرے میں نفرت اور تفرقے سے وہی دور ہے جو رائج نصابِ تعلیم سے بچ کے نکل گیا۔ جو اس نصاب کا شکار ہوا اس کی سوچ میں نفرت کا زہر گھل گیا۔ یقین نہ آئے تو دیہی علاقوں پر ایک نظر ڈال لیں۔ جن علاقوں میں تعلیم پہنچ گئی ہے وہاں لوگوں نے کافر مسلمان کا فرق جان کر برتن الگ کر لیے ہیں۔ جن علاقوں تک تعلیم نہیں پہنچی وہاں تمام مذاہب ومسالک کے ماننے والے ایک ہی چشمے سے پانی بھررہے ہیں۔

ستر کی دہائی میں مستنصر حسین تارڑ کا پہلا سفرنامہ ”نکلے تیری تلاش میں“ شائع ہوا۔ تب اس ناول میں ایک پینٹنگ بھی شائع ہوتی تھی۔ اس پینٹنگ میں صادقین نے عورت کی تھکن اور اس کی عشرت کو عریاں کر کے دکھایا تھا۔ کچھ اس طرح عریاں کہ انگ انگ پر بے حرف تحریر دکھائی دیتی تھی۔ اس تصویر میں انگڑائیاں اپنی قبا ئیں کتر ایک بے غبار ترجمے کی طرح سامنے تھیں۔ یہ سفرنامہ آج بھی شائع ہوتا ہے آج بھی خریدا جاتا ہے مگر اب اس میں صادقین کی پینٹنگ شائع نہیں ہوتی۔

جنرل ضیا الحق کے دور میں نافذ ہونے والا جبر کا دستور انور سن رائے نے اپنی آنکھ سے پڑھا۔ وہ دستور جو آسیب زدہ رستوں گلیوں میں بھٹکی ہوئی روحوں کوٹھیک طرح سے چیخنے بھی نہیں دیتاتھا۔ سہمی ہوئی خاموشیوں کو نچوڑ ا ”چیخ“ ناول تخلیق ہوگیا۔ حسن عسکری نے لکھا تھا، آرٹسٹ جب مجسمے میں حضرت مسیح کا صلیب پہ لٹکا ہوا وجود برہنہ حالت میں دکھاتا ہے تو اسے دلچسپی جسمانی اعضا میں نہیں ہوتی۔ دلچسپی موت کے اثر میں ہوتی ہے جسے وہ رویں رویں میں تصویر کر دینا چاہتا ہے۔ انورسن رائے نے اپنے ناول میں ”چیخ“ کو تصویر کر کے رکھ دیا ہے۔ کردار کے پچھواڑے پر بندوقچی کی لات پڑتی ہے تو قاری اس درد کو پشت پر ہی نہیں سماعتوں پر بھی محسوس کرتا ہے۔ بندوقچی کا کرخت سراپا تک بھی ظاہر ہو کر سامنے آجاتا ہے۔ کیونکہ تخلیق کار ناول میں اس لات ہی کو تصویر نہیں کرتا جو پشت پر نیل چھوڑ جاتی ہے۔ بندوقچی کی اس گالی کو بھی پردہِ سماعت پر نقش کرتا ہے جوروح کو گھائل کردیتی ہے۔

روایت ہے کہ اس ناول کوعہدِ سیاہ میں شائع کروانے کی ہمت پروفیسر حسن ظفر عارف نے کی تھی۔ کراچی یونیورسٹی کے وہی پروفیسرحسن ظفر عارف جنہیں ہتھکڑی لگا کر سندھ ہائی کورٹ کے احاطے میں ایک کیاری کے پاس بٹھایا جاتا تھا۔ گزشتہ برس وہ کراچی کے علاقے کورنگی میں اپنی گاڑی کی پچھلی نشست پر پراسرار طور پر ہلاک ملے۔ عشرے گزرگئے تو اس ناول کی اشاعت کا خیال پھر سے بھرے بازار میں چلا آیا۔ لینن کی رفیقہ حیات کا ایک کتابچہ صعوبت و مزاحمت کے ایام میں شائع ہوا اور غائب ہو گیا۔ زمانے گزرے تو مہربانوں کو یہ کتابچہ دوبارہ شائع کروانے کا خیال ستایا۔ کتابچہ شائع ہوا تو ان جملوں کے گرد شرافت کے دائرے کھینچ دیے گئے تھے جن کے سبب کراپسکایا نے قلعے کی راتیں کاٹی تھیں۔ انورسن رائے کا ناول صعوبت اور مزاحمت ہی کے عرصے میں شائع ہوکر غائب ہوا تھا۔ مدت بعد وہ دوبارہ شائع ہوا مگر ان حروف کو شٹل کاک برقعے پہنا دیے گئے جن کی عریانی درد کو جراتِ اظہار کا سلیقہ دیتی تھی۔

ستر ہی کی دہائی میں کرنل عطا کی آب بیتی ”دو دنیاوں کا شہری“ شائع ہوئی تھی۔ کرنل عطا جن عقائد کی پیروی کرتے تھے اس سے متعلق آئینِ پاکستان شدید ناگواری کا اظہار کرتا ہے۔ عشروں کے بعد آج کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ یہ آپ بیتی پھر سے شائع ہونی چاہیے۔ یہ احساس شہر شہر گھوما توکچھ پبلشرز ”دو دنیاوں کا شہری“ شائع کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ مصنف کی زندگی کے کسی گوشے میں اس کا مذہب چلتا پھرتا نظر آیا تو اسے وقت کے کسی معتبر مزار کی گل رنگ چادروں سے ڈھانپ دیا جائے گا۔

تین کتابوں کی یہ مثالیں محض ایک پیمانے کے طور سامنے رکھی ہیں۔ اس کی مدد سے پیمائش کی جا سکتی ہے کہ شعوری پسماندگی کا یہ سفر دبے پاوں کہاں سے شروع ہوا ہے اور کس موڑ سے ہوتا ہوا کس سمت میں جارہا ہے۔ ارباب ذوق کے حلقوں، چھاپے خانوں، پریس کلبوں اور درس گاہوں میں یہ خوف وہراس کسی صبح یونہی اچانک نہیں پھیل گیا تھا۔ ریاستی اشرافیہ نے عشروں تک بہت خلوص کے ساتھ جان کھپائی ہے تو بات یہاں تک پہنچی ہے۔ اسی کے عشرے میں جو لوگ اسلام کی سربلندی کے لیے جنگ لڑ رہے تھے وہ آج بزرگوں کی صورت میں سامنے ہیں۔ یہ گھر میں بچوں کی تربیت کررہے ہیں، درس گاہوں میں بچوں کو پڑھا رہے ہیں اور ٹی وی اسکرین پر قوم کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ سربلندی کے اسی عرصے میں جو پیدا ہوئے تھے وہ خیر سے اب چڑھتی جوانی میں ہیں۔ ریاستی بیانیہ صورت حال تشکیل دیتا ہے اور صورت حال پوری ترتیب کے ساتھ بزرگوں اور جوانوں سے کام لیتی ہے۔ ہر طرف موجود یہ بزرگ ”گستاخوں“ کی نشاندہی کرتے ہیں اور موقع پر موجود نوجوان سینے میں خنجر اتار کر اپنی عاقبت سنوارتے ہیں۔

جو اساتذہ پچھلے چند سالوں میں قتل ہوئے ان کے جرائم کی فہرست نکال لیجیے۔ گھما پھراکر بات ایک ہی نکلے گی کہ وہ اپنے عقیدوں اور یقینوں سے باہر نکل کر سوچنے کی جسارت کرتے ہیں۔ تاثر یہ دیاجاتا ہے کہ دائرے سے نکل کر سوچنے کی گنجائش سماج نہیں دیتا۔ سچ یہ ہے کہ یہ گنجائش ریاست نہیں دیتی۔ مگر ریاست شاطر ہے اور بہت شاطر ہے۔ وہ اپنے بیانیے کے نتائج کی ذمہ داری یا تو حکومت کے سر منڈھ دیتی ہے یا پھر معاشرے پر ڈال دیتی ہے۔ خلقِ خدا ایک جبڑے سے حکومت کو دوسرے جبڑے سے قوم کو گالی دیتی ہے اور ریاست بہت اطمینان سے کسی گالف کلب میں بیٹھ کر سگار کے کش لگا رہی ہوتی ہے۔ روز اول سے تماشا یہ ہے کہ ہم ممتاز قادریوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔ ممتاز قادری نے جس مولوی کی تقریر سے جنم لیا ہے وہ کس طرح پنڈی صادق آباد کی پرپیج گلیوں میں فتوی ساز کارخانہ چلا رہا ہے، اس سوال پر بحث ممکن ہوجائے تو بھی گریزاں رہنے میں ہم خیر جانتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ اس نصاب سے گزر کر کبھی روشن فکراور معتدل اذہان پیدا نہیں ہوئے۔ بالکل پیدا ہوئے ہیں، مگر ایہ اذہان مہذب معاشروں میں اگر اپنا اعتدال اگل دیں تو ان کی ہاتھوں کی لکیروں میں جیل کی سلاخیں ابھرآئیں۔ مشال خان کے قتل کے موقع پر اعتدال کا تمغہ ان دماغوں کو ملا تھاجو مذمت کرنے والوں سے کہہ رہے تھے، بھائی پہلے تحقیقات تو ہو لینے دو اس کے بعد مشال کی حمایت یا مخالفت کا فیصلہ کرلینا۔ یعنی؟ یعنی کہ تحقیقات میں اگر مشال پر لگایا گیا کوئی الزام درست ثابت ہوجائے تو قاتلوں کے نام نصاب میں غازی علم دین کے ساتھ والے صفحے پر رکھ دینے چاہیئں۔ آج بہاولپور میں پروفیسر خالد حمید کے قتل کے موقع پر معتدل دماغ وہ کہلائے ہیں جو یہ کہہ کر قتل کی مذمت کر رہے ہیں، لوگوں نے گواہی دی ہے کہ پروفیسر خالد حمید صوم وصلوۃ کے پابند تھے۔ مطلب؟ مطلب کہ اگر ان کے اعمال نامے میں صوم وصلوۃ اور اور حج عمرے کے حوالے نہ ملتے تو پھر اس خون کو روا سمجھنے کی گنجائش پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسے معتدل اذہان دراصل ان اساتذہ کو تنبیہ کررہے ہوتے ہیں جودوہرے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایک تو طاعت و زہد کی طرف ان کی طبعیت نہیں جاتی، اوپر سے طالب علم کو پتے کی بات بتاتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2