خطیب حسین کو قتل پر کس نے اکسایا


پروفیسر خالد حمید قتل ہو گئے۔ کوئی نیا حادثہ نہیں ہے، کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ ان سانحات کا تسلسل ہے جو ایک نیوز سائیکل کی صورت ہر کچھ دن بعد ہمارے سامنے آتے ہیں۔ چند کالم لکھے جاتے ہیں۔ کچھ بلاگ تحریر ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر چند دن ہنگامہ برپا ہوتا ہے پھر خبر پرانی ہو جاتی ہے۔ سب اپنے اپنے کام سے لگ جاتے ہیں۔ ایک سانحے سے دوسرے سانحے کے بیچ زندگی پھر معمول پر آ جاتی ہے۔ پھر کہیں ایک اور خبر تشکیل پاتی ہے۔ پھر کچھ کالم، کچھ بلاگ، کچھ سوشل میڈیا کا ہنگامہ۔ ہماری زندگی یوں ہی ایک سیاہ دائرے میں سفر کرتی ہے۔

کیا قاتل خطیب حسین ہے؟ یہ جواب اتنا سیدھا نہیں ہے۔ بہت سے ستم ظریف وہ بھی ملیں گے جو اس قتل کی تاویلات ڈھونڈیں گے۔ وہ دل ہی دل میں یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ غازیان اسلام کی فہرست میں ایک اور درخشندہ ستارے نے اپنی جگہ بنائی ہے۔ وہ اپنی ازلی محرومیوں، جنسی گھٹن اور مذہبی سخت گیری کے چاک پر تراشی گئی نفسیات کے اسیر ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو عورت کو چلغوزہ، منبر سے کی گئی بات کو حرف آخر، داڑھی کو پاک نیتی کا مظہر، مخالف عقیدے کو کافر اور طے شدہ امور کو طے شدہ امور سمجھتے ہیں۔

یہ آپ کو بتائیں گے کہ ہر وہ امر حرام ہے جس میں خوشی کا کوئی شائبہ پایا جائے۔ دل وہی اچھے ہیں جو مردہ ہوتے ہیں۔ پارٹی منانا شعائر اسلام کی خلاف ورزی ہے۔ ناچنے یا گانے والے تو بالکل ہی گردن زدنی ہیں۔ مرد و زن کو ہمہ وقت دو الگ الگ پنجروں میں قید رکھنا ضروری ہے۔ نصاب میں مسٹر چپس کی جگہ سیرت النبوی پڑھانا ایک احسن اقدام ہے۔ ارتقا محض ایک ڈھکوسلہ ہے۔ ہر سائنسی دریافت ہمیں چودہ سو سال سے معلوم ہے۔ عقل وحی کے تابع ہے۔ مذہب پر مکالمہ ممکن نہیں ہے اور عشق کا مطلب دوسرے کی گردن اتارنا ہے۔

ایک اور گروہ وہ ہے جو اس قتل کی مذمت کرتے ہوئے دس بارہ جملے لکھے گا اور پھر آخر میں دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کو فرض عین سمجھتے ہوئے ایک دو اختلافی نوٹ بھی ساتھ لف کر دے گا کہ ان کی ایمانیات پر کوئی حرف نہ اٹھا سکے یہ لوگ آپ کو بتائیں گے کہ ایک معصوم بیس سالہ نوجوان قتل جیسے بھیانک جرم کا یونہی مرتکب نہیں ہوتا۔ کچھ کالے میں تھوڑی سی دال ہے۔ یونیورسٹیاں اور کالج فحاشی کے اڈے بن گئے ہیں۔ تقریبات کے نام پر لڑکیوں کو نچایا جاتا ہے (لڑکوں کا ناچنے کی طرف عموما ان کی نظر نہیں جاتی۔ خدا جانے اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ) ۔ لوگ کھلے عام ملحدانہ خیالات کا پرچار کرتے ہیں۔ اسلام پر طنز کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں پر ٹھٹھے کسے جاتے ہیں۔ لبرل لوگ معاشرے کا تارو پود بکھیرنے کے درپے ہیں۔ گستاخان مذہب کے لیے مغرب بانہیں کھولے کھڑا ہے۔ این جی اوز عریانیت، فحاشی اور ہم جنسی کے فروغ میں کوشاں ہیں۔ دین کی سربلندی کے لیے گولیاں چلانے والے ممتاز قادری کو حکومت پھانسی دیتی ہے اور گستاخ آسیہ مسیح کو محض آٹھ سال بعد ہی باعزت بری کر دیتی ہے۔

قانون سیکولر شرپسندوں کے لیے موم کی ناک ہے جسے وہ ہر وقت محبان ملت کی طرف موڑے رکھتے ہیں۔ اب ایسے میں خطیب حسین جیسے معصوم قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں تو کیا کریں۔ یہ قتل بڑا بھیانک ہے پر ایسے جرائم اسی وقت رک سکتے ہیں جب ریاست چھ کے چھ کلمے یاد کر لے، بے شک آئین پاکستان کو فراموش کر دے۔ قانون ہر رمشا مسیح کو عبرت کی مثال بنا دے اور ہر قاری خالد جدون کے در پر سجدہ کرے۔ جیسے جیسے ریاست کی ٹخنے نمایاں ہوتے چلے جائیں گے، ماتھے پر محراب کا نشان گہرا ہوتا جائے گا اور کمر اہل جبہ و دستار کے آگے رکوع میں خم کھاتی چلی جائے گی، یہ جرم خود ہی ناپید ہوتے چلے جائیں گے۔

ان دو گروہوں سے بدتر ایک تیسرا گروہ بھی ہے۔ ان کا طریقہ واردات سمجھنے کے لیے آپ کو کچھ تعزیتی شذرے پڑھنے پڑیں گے۔ ایک صاحب لکھیں گے کہ مقتول صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ دوسرے کہیں گے کہ ان کے کردار پر کوئی داغ نہیں تھا۔ تیسرے ان کے حج اور عمروں کا حال سنائیں گے۔ چوتھے ان احمدی نہ ہونے کا ثبوت لائیں گے۔ ادھر سے ایک صاحب اٹھیں گے اور بتائیں گے کہ پروفیسر صاحب اکثر کمرہ جماعت میں رسولؐ اور صحابہؓ کے دل افروز قصے سناتے تھے۔

بتایا جائے گا کہ پڑھانے کا آغاز وہ تلاوت قرآن سے کرتے تھے۔ کوئی کہے گا کہ نہ تو مقتول نے کبھی شراب نوشی کی اور نہ ہی کبھی وہ رقص و سرود کی محفلوں میں پائے گئے۔ فارغ وقت میں صرف نعت رسولؐ ہی ان کی دل جوئی کرتی تھی۔ جناب ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے حامی تھے اور مذہبی مشاہیر کا احترام ان کی سرشت میں شامل تھا۔

یہ وہ گروہ ہے جو گو کھل کر بات نہیں کرتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے نزدیک سیکولر، لبرل، لا ادری، ملحد یا احمدی خون بالکل مباح ہے۔ ان کے نزدیک مقتول کا کیریکٹر سرٹیفیکیٹ انتہائی اہم ہے اور ان کے قائم کردہ پیمانے پر مقتول پورا اترے تو ہی اس کے خون کی مذمت جائز ہے۔ ان کے خیال میں ہر وہ شخص جو بالادست عقیدے کے مظاہر کی پابندی سے معذور ہے، گویا وہ خود اپنے قتل کو دعوت دیتا ہے۔ ان لوگوں کو ہر مقتول کے چہرے سے کفن سرکا کر لاشے کے دانت گننے کی بیماری ہے کہ اس کی قربانی کی قبولیت کا فتویٰ صادر کر سکیں۔

یہ عقیدے کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق کے قائل ہیں۔ یہ کردار کو مذہبی رجحان، جنسی میلان، فنون لطیفہ اور خورونوش کے اسالیب پر پرکھتے ہیں اور اس معاملے میں ان کے سارے ترازو ایک ہی سمت جھکے رہتے ہیں۔ یہ غازی علم دین کو سینہ تان کر ہیرو کہتے ہیں اور ممتاز قادری کو اس کی خوش نیتی کے باعث برا نہیں جانتے تاہم اکرام ماچھی کو یہ سفاک قاتل کہتے ہوئے ایک لحظہ نہیں ٹھٹھکتے۔ منافقت کے سو پردوں میں لپٹے یہ اذہان اس معاشرے کی بدعملی اور دورنگی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔

یاد رکھیے خطیب حسین ایک دن میں نہیں بنتا۔ عطاء اللہ شاہ بخاری سے خادم حسین رضوی تک اس خطے میں ایسے زومبیز کی پرورش کرنے والے ناموں کا ایک تسلسل ہے۔ سوچنے سمجھنے سے عاری کچے ذہن ان کا ہمیشہ نشانہ رہے ہیں۔ اب یہ کہانی منبر ومحراب سے باہر نکل کر کالج، یونی ورسٹی اور ٹی وی سکرین پر سنائی جا رہی ہے۔

جس ملک میں جامعات کو ہائر ایجوکیشن کمیشن ایک مراسلے کے تحت اس بات کا پابند کرے کہ نظریہ پاکستان اور ملک کی اسلامی اساس پر گفتگو ممنوع ہے۔ جہاں جامعات میں طارق جمیل جیسے لوگ حوروں کے بارے میں لیکچر دیں۔ ایٹمی سائینس دان جنوں سے بجلی پیدا کرنے کے طریقے ڈھونڈیں۔ ”سائنس اور حیا“ کے موضوع پر سیمینار منعقد ہوں۔ سکارف اور عبایا ڈریس کوڈ میں شامل کر دی جائیں۔ نماز پڑھنے پر بونس دیے جائیں۔ اساتذہ حزب التحریر جیسی جماعتوں کے پمفلٹ بانٹیں۔ جہاں کسی ایک کالج یا یونیورسٹی میں بھی طلبہ کو کریٹیکل تھنکنگ جیسے مضامین نہ پڑھائے جائیں، وہاں خطیب حسین نہیں جنم لیں گے تو کیا اسٹیفن ہاکنگ اور جیسنڈا آرڈن جنم لیں گے؟

جس ملک میں روشن خیالی ایک طعنہ ہواور رجعت پسندی ایک طرز زندگی، وہاں یہی ہوتا رہا ہے، یہی ہوتا رہے گا۔ اگلے قاتل اور اگلے مقتول کا انتظار کیجیے کہ یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad