سندھ میں ہندو لڑکیوں کے اغوا کے معاملات


متحدہ ہندوستان کے بٹوارے کو اقلیتوں اور اکثریتوں کے درمیان نفرتوں، اونچ نیچ، دنگے فسادات اور مذہبی منافرت میں اضافے کا سبب مانا جا سکتا ہے۔ جس طرح پاکستان میں موجود اقلیتوں کے حقوق کو پامال کیا گیا, ٹھیک اسی طرح ہندوستان میں موجود مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اور ہندو مسلم قوموں کے مابین محبتیں نفرتوں میں تبدیل ہو گئیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ انتہاپسند لوگ طاقتور ہوتے گئے اور امن پسند لوگ فتوے اور جنونیت کے ڈر سے کمزور ہوتے گئے۔ چاہے بھارت میں بابری مسجد کی شہادت کا معاملہ ہو یا پاکستان میں ہندو لڑکیوں کے جبری مذہب کی تبدیلی اور اغوا کا معاملہ ہو، نفرتوں میں مذید اضافہ ہی ہوا۔ سندھ کے محقق، تاریخ دان ڈاکٹر در محمد پٹھان کے مطابق سندھ میں یہ خیال عام ہے کہ محمد بن قاسم کے سندھ کو فتح کرنے سے پہلے راجہ داہر کے دور حکومت میں سندھ کی سر زمین پر انصاف اور محبتوں کی ایسی داستانیں موجود تھیں جہاں بکری اور شیر ایک ہی گھاٹ میں پانی پیا کرتے تھے اور پاکستان بننے سے پہلے بھی سندھ میں موجود اقلیتیں اکثریتوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہا کرتے تھے مگر بٹوارے نے جہاں متحدہ ہندوستان کے جغرافیہ کو تبدیل کیا وہیں مذہبی منافرت ںے نظریاتی اختلافات کی ایسی لکیریں کھینچیں جس نے اونچ نیچ، ذات برادری اور مذہب و مسلک کی بنیادیں ڈال دیں۔

صوبہ سندھ کی تاریخ اور روشن خیال اور اعتدال پسند لوگ ابھی بھی ان ہندو اقلیتوں اوڈھ، بھیل، بھاگھڑی اور دیگر ذاتوں کو سندھ کا اصلی وارث مانتے ہیں مگر کچھ دن پہلے گھنشام بھیل کے قتل اور اس کے لاش کے ساتھ کئی روزہ دھرنے نے سندھ کے منہ پر ایک اسے طمانچہ مارا جس کی گونج سالوں تک یاد رکھی جائے گی کہ ملک کی اعتدال پسند اور روشن خیال جماعتیں پی ایس ایل کی تیاریوں میں جھومتے رہے اور گنشام بھیل کی لاش کو سندھ کی اقلیتی برادری تپتی دھوپ میں برف رکھ کر ٹھنڈا کرتی رہی۔

ہندو لڑکیوں کے مذہب کی تبدیلی اور اغوا کے معاملات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور بھرچونڈی، امروٹ، لاڑکانہ، جیکب آباد، کراچی، تھرپارکر اور سامارو میں تکبیر کے نعرے بلند ہو رہے ہیں جن کو ہندو جبری تبدیلی مذہب کا نام دے رہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی کھئیل داس کوہستانی نے توجہ دلاؤ نوٹس جمع کروایا ہے کہ چند ماہ سے سندھ میں ہندو لڑکیوں کے اغوا کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ یقیناً یہ توجہ دلاؤ نوٹس ہندو برادری کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک اہم قدم ہوگا کہ جبراً اغوا اور مذہب کی تبدیلی کے خلاف آواز اٹھائی جائے مگر اس طرح کے توجہ دلاؤ نوٹسز یا پھر ٹیوٹر پیغام یا کسی کو ایوارڈ دینے سے اس طرح کے معاملات کو ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس معاشرے کو بھی نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جاسنڈا آرڈرن جیسے لوگوں اور عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے جس سے اقلیتوں کےدل جیت کر حقیقی معنوں میں انہیں تحفظ فراہم کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).