پروفیسر خالد حمید کا قاتل کون؟


دنیا میں سب سے بھیانک جرم قتل ہے اوراپنے ہی شاگرد کے ہاتھوں استاد کا قتل بھیانک ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی دہشت انگیز اور وحشت خیز بھی ہے۔  صرف اس لیے نہیں کہ یہ اس رشتے کو انتہائی متشدد انداز میں الٹ دیتا ہے جو شاگرد اور استاد میں ہے ؛ شاگرد، استاد کو اس کی جان کی قیمت پر باور کراتا ہے کہ وہ اس سچائی کا علمبردار ہے، جس سے استاد نہ صرف محروم ہے، بلکہ سچائی سے اس کی محرومی ایک ناقابل معافی جرم بھی ہے، بلکہ اس لیے بھی استاد کا قتل انتہائی دہشت انگیز ہے کہ یہ اس اعتبار کا خاتمہ، انتہائی کریہہ پن کے ساتھ کرتا ہے، جو استاد و شاگرد کے علاوہ فقط باپ اور بیٹے میں ہوتا ہے۔

  یہ اعتبار انسانی رشتوں کی عمومی بنیاد ہی نہیں، سماج کی اقدار کی افزائش اور استقرار کی شرط بھی ہے۔  خطیب حسین نے اپنی باپ کی عمر سے بھی شاید بڑے پروفیسر خالد حمید کو کالج کے اندر قتل کیا، گویاٹھیک اس جگہ جہاں نوجوان طالب علم ایک معاہدے اور یقین کے ساتھ داخل ہوتے ہیں کہ یہاں ایسے لوگ اور ایک ایسا نظام موجود ہے جن کی مدد وراہنمائی سے وہ اپنی کم علمی کے اندھیرے دور کرسکتے ہیں۔  جس لمحے اس نے تیز دھار چھری سے پروفیسر خالد حمید پر اس وحشیانہ طاقت سے وار کیے، جو آدمی میں کسی گہرے مقدس مشن میں یقین کے سبب یا پاگل پن کی اختیار سے باہر حالت ہی میں پیدا ہوتی ہے، تو اس نے گویا اعلان کیا کہ وہ کم علم، اور اس بنا پرعلم کا طالب نہیں، بلکہ اس پر مطلق سچائی کا نزول ہوا ہے، اور وہ دنیا کے خیر وبد کا فیصلہ کرسکتا ہے، اور خیر کی راہ سے بھٹکے ہوؤں کو خود سزا دینے کا خدائی اختیار رکھتا ہے۔

  یہ خدائی اختیار ہی تھا کہ جس نے اسے گھمنڈ آمیز یقین دلایا کہ وہ درس گاہ، سماج اور ریاست کے سب قوانین سے ماورا ہے۔  وہ کسی کو جواب دہ نہیں۔  جہاں تک ضمیر کی عدالت کا تعلق ہے، وہ پہلے ہی اس کے حق میں فیصلہ دے چکی ہے۔  اسے نہ شرمندگی ہے، نہ ندامت، نہ تاسف۔ قتل کے بعد وہ انسانی عقل کو ورطہ ءحیرت میں ڈالنے والے اطمینا ن کے ساتھ کہتا ہے کہ اس نے مبینہ طور پر توہین مذہب کے مرتکب شخص کو قتل کرکے ٹھیک کیا۔ بندہ بشر اپنی سوسالہ عمر میں بھی یہ دعویٰ کرنے میں خود کو حق بجانب نہیں پاتا کہ اس نے حتمی سچائی کو پالیا ہے، ایک بیس اکیس سالہ نوجوان جب بھیانک و دہشت انگیز جرم کے ارتکاب کے بعد خو د کو راستی پر سمجھتا ہے توا س کا سیدھا سادہ مطلب ہے کہ وہ جس سچائی کا مدعی ہے، وہ اس کی محدود عقل میں ”کہیں اور“ سے ٹھونسی گئی ہے، اور ایک ایسی جذبات انگیز خطابت کے ساتھ کہ جس نے اس کی اپنی تنقیدی فکر کو معطل کردیا۔

 منڈی یزمان کے بدقسمت والدین نے جس فرزند کو بہاولپور بھیجا، وہ مبینہ طور پرایک شعلہ بیان مولانا کی عقیدت سے سرشار اور ان کے خیالات کا قتیل تھا۔ اہم یہ نہیں کہ وہ مولانا خادم رضوی ہے یا کوئی دوسرا، اہم یہ ہے کہ اس کے پاس نوجوانوں کے ذہنوں اور روحوں پر قابض ہونے اور انھیں معمو ل بنانے کا جادوئی ملکہ ہے۔  یہ جادو ان ذہنوں پر جلد اور شدت سے چلتا ہے جن کے اندر علم کی طلب سے زیادہ، طاقت کی جستجو ہوتی ہے۔

  علم کی طلب انکسار اور طاقت کی آرزو جعلی تکبر پیدا کرتی ہے۔  طاقت عقلی بھی ہوتی ہے اور غیر عقلی بھی۔ عقلی طاقت خود کو ان سب کے آگے جواب دہ سمجھتی ہے، جودنیا کو عقلی اصولوں کی روشنی میں سمجھنے میں ایقان رکھتے ہیں، جب کہ غیر عقلی طاقت، خود کو ہر طرح کے احتساب سے ماورا سمجھتی ہے اور عقل کے لیے عناد رکھتی ہے۔  تاہم غیر عقلی طاقت کے پاس بھی اپنی ایک ’منطق‘ ہوتی ہے، جسے صرف وہی سمجھتے اور سراہتے ہیں، جو غیر عقلی طاقت کے ’فوائد‘ سمیٹتے ہیں۔  یہ واضح ہے کہ اس کے ہاتھ میں چھری نہ اس کے والدین نے پکڑائی، نہ اس کے اساتذہ نے۔  کس نے پکڑائی، یہ سمجھنا مشکل نہیں۔  لیکن اس صفائی سے پکڑائی ہے کہ وہ خود پکڑے جانے سے بچا رہے گا۔

دنیا میں پدر کشی کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔  قدیم اساطیر سے لے کر مغرب ومشرق کی سیاسی تاریخ میں بیٹوں کے ہاتھوں باپ کے قتل کے واقعات مل جاتے ہیں۔  کرونس نے اپنے باپ یورینس کو قتل کیا۔ ایڈی پس نے اپنے باپ کو قتل اور ماں سے شادی کی۔ اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے باپ شاہ جہان کو قید کرکے اس کی موت کی راہ ہموار کی۔ لیکن یہ واقعات طاقت کے حصول کی کوششوں سے عبارت تھے۔  شاگرد خطیب حسین کے ہاتھوں استاد کے قتل کا محرک بھی ’طاقت‘ ہے۔

  فرق یہ ہے کہ پدر کشی میں سیاسی طاقت کا حصول مطمح نظر ہوتا ہے، جب کہ استاد کشی میں طاقت، نظریے اور عقیدے میں ملفوف ہوتی ہے۔  ایک اور فرق بھی ہے۔  پدرکشی میں سیاسی طاقت، محض ایک فر دتک محدود ہوتی ہے، جب کہ خطیب نے خود راستی کے جس عقیدے کے تحت اپنے استادکا قتل کیا ہے، وہ صرف اس کی ذات تک محدود نہیں، بلکہ یہ سماج میں جاری نظریے کی جنگ کی محض ایک جھلک ہے، جس کا میدان گورنمنٹ صادق ایجرٹن کالج کا ایک کمرہ بنا ہے۔

  دوسرے لفظوں میں یہ ایک نوجوان کے ہاتھوں قابو سے باہرغصے کی حالت میں ایک ڈھلتی عمر کے شخص کا قتل نہیں، بلکہ مذہب کے نام پر اس طاقت کا بہیمانہ اظہار ہے، جس کی پشت پر مقدس منطق ہے۔  مقد س منطق کی حامل طاقت کس درجہ خوف ناک ہوسکتی ہے، اسے ہم اگرچہ گزشتہ نصف صدی سے مسلسل دیکھتے چلے آرہے ہیں مگر اس کے اس درجہ عادی ہوگئے ہیں کہ اسے معمول کی بات سمجھ کر ایک آدھ دن میں طاق نسیاں کی نذر کردیتے ہیں۔  یہاں تک کہ ایک نیا واقعہ رونما ہوجاتا ہے۔

  واضح رہے کہ اس مقد س منطق کا سرچشمہ خود مذہب نہیں، مذہب کے نام پر کی جانے والی سیاست ہے۔  اس سیاست نے رفتہ رفتہ ایک پورا نظام فکر ترتیب دے لیاہے، جس میں کہیں توخود کو ’کافر، بے حیا، فحاشی پسند مغرب‘ کے مقابلے میں ’مومن، نیکو کار، شرم و حیا کا پیکر اور خدا کا مقرب‘ سمجھنا ہے ( خطیب نے بھی جس استقبالیہ تقریب کی بنیاد پر پروفیسر خالد حمید کو قتل کیا، اس میں لڑکے لڑکیوں کے اختلاط کو یورپی تہذیب کا اثر ٹھہرایا) اور کہیں خود سے مختلف مسلک کے حامل شخص یا گروہ کو کافر قراردینا ہے اور انھیں جہنم واصل کرنا عین نیکی خیال کرنا ہے۔

  ’غیر سازی‘ (Othering) کس حد تک سفاکی اختیار کرسکتی ہے، خود سے مختلف لوگوں اور گروہوں کو اپنا غیر سمجھنا کتنا ہولناک ہوتا ہے، اس کا مظاہرہ ایک ہی طریقے سے آسٹریلوی ٹیرنٹ اور خطیب نے کیا ہے۔  ٹیرنٹ بھی سفید فام ملکوں میں تارکین وطن (خصوصٰاً مسمانوں کو غیر سمجھتا ہے اور اپنی سرزمین اور دنیا سے انھیں نکالنے میں یقین رکھتا ہے )۔ دونوں مثالوں میں اگر فرق ہے تو ان واقعات کے بعد کے ردّ اعمال میں ہے۔  نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا نے غیر سازی کی متھ توڑی ہے اور شہدا کو تکریم دی اور ان کے لواحقین کو گلے لگایا ہے، جب کہ ہمارے یہاں کون یہ جرا ¿ت کرسکتا ہے کہ پروفسیر خالد کے نام کے ساتھ شہید لکھے اور تعلیمی اداروں میں اور نہ سہی، پروفیسر خالد کے لیے دعائیہ تقاریب کا اہتمام کرے اور چند لفظ ان لوگوں کی مذمت میں ببانگ دہل کہے، جن کی فکر آسیب بن کر ایک طالب علم پر مسلط ہوئی۔

 اس سے ہم، مذہب کے نام پر جاری رکھے جانے والی سیاست کی ان جڑوں کا اندازہ کرسکتے ہیں جو ہمارے سماج کی بالائی ساخت میں نہیں، اس کی اساس میں دورتک اتر چکی ہیں۔  یعنی پروفیسر خالد حمید، اس سے پہلے مشعال کا قتل بیماری کی علامات نہیں، بیماری کے ہاتھوں دم توڑتے سماج کی نشانیاں ہیں۔  اس کا صاف مطلب ہے کہ ہم میں سے کوئی، کہیں بھی محفوظ نہیں۔  کچھ خبر نہیں کہ دفتر، کلاس روم، کسی جلسے، خود آپ کے گھر میں، یہاں تک کہ آپ کے ساتھ سفر کرنے والامحض آپ کی کسی رائے سے خفا ہوکر، آپ پر ایک الزام لگاکر، آپ کا گلا دبادے، ہجوم کو مشتعل کرکے آپ کو جلادے اورنعرہ حق بلند کرتے ہوئے دنیا اور آخرت میں سرخروہونے کا بہ زبان خوداعلان بھی کردے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی حمایت میں کئی آوازیں بھی بلند ہونے لگیں۔  ان بلند ہوتی متشدد آوازوں کا مقابلہ دلیل اور شائستگی کی آوازوں ہی سے کیا جاسکتا ہے۔  آگ کو پانی ہی بجھا سکتا ہے، آگ نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).