مذہبی رواداری کا گہوارہ تھرپارکر اور رنگ برنگی ہولی


ویسے تو 2014 سے مسلسل قحط، غربت، بھوک و افلاس اور بچوں کی اموات سے تھرپارکر کی شناخت تبدیل ہوتی جا رہی ہے، قومی میڈیا کی مہربانیوں کی وجہ سے تھرپارکر کا ایک بھیانک چہرہ تو مسلسل رپورٹ ہوتا رہا ہے لیکن انھوں نے کبھی دوسرا (مثبت) چہرہ دکھانے کی کبھی کوشش نہیں کی، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تھر کے فطری حسن، مور، ہرن، چاکلیٹی نما پہاڑی سلسلہ کارونھر، اور اس کی گود میں کئی صدیوں پرانے جین مت اور ہندو مت کے تاریخی مندر، بھوڈیسر کی تاریخی مسجد اور مندر (جو آپس میں چند فٹ کی دوری پر واقع ہیں) اور گوڑی مندر کا ذکر ہوتا، ماروی کے کنویں کے بارے مین بتایا جاتا جو کہ وطن پرستی کی ایک عظیم مثال تھیں۔

تھرپارکر سارا فطرت کا ایک خوبصورت لینڈ اسکیپ ہے، وہ بہت کم رپورٹ ہوا، جس سے تھرپارکر کو ٹورازم کا ایکسپوژر بہت کم ملا اور تھر کی شناخت ایک خستہ حال خطے جیسی ہونے جا رہی ہے۔

تھرپارکر پاکستان کا واحط علاقہ ہے جہاں مذھبی رواداری کی بڑی مثالیں موجود ہیں، تھرپارکر میں ہندو اور مسلم بڑی تعداد میں رہتے ہیں، جو کہ ہمیشہ اپنے دکھ سکھ میں ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ جہاں ہندو اور مسلمان اپنے مذہبی تہوار مل جل کے مناتے ہیں۔ اگر عید ہوتی ہے تو ہندو مسلمان بھائیوں میں عید کے تحفے بانٹتے ہیں اور اگر دیوالی ہو یا ہولی، تو مسلمان ہندو بھائیوں کے ساتھ ہولی کھیلتے ہیں اور دیوالی مناتے ہیں۔

یہ سلسلہ ادھر نہیں رکتا بلکہ آگے چلتا ہے۔ مٹھی تھرپارکر کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ بکرے کی عید پر مٹھی میں مسلمان بھائی ہندوؤں کے دل رکھنے کے لیے گوشت کو بھی کالی پلاسٹک میں بند کرکے تقسیم کرتے ہیں، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا یہ عمل اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچائے گا اور ہمیں مزید نظریوں میں بانٹنے نہیں دے گا۔ محرم کی تو بات ہی الگ ہے، سب کالے لباس میں ملبوس دکھائی دیں گے، کچھ پتا نہیں پڑے گا کہ کون ہندو ہے اور کون مسلمان۔ سبیلیں، تعزیے، علم پاک، جھولے، امام بارگاہ، سب کے سب کسی نہ کسی کام میں مصروف دکھائی دیں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہندو مسلمانوں کے ساتھ عزاداری میں بھی شریک ہوتے ہیں۔

تھرپارکر اپنے مزاج میں صدیوں سے امن اور بھائی چارے کا گہوارہ رہا ہے لیکن ہولی اپنے جوہر میں منفرد طور پر منائی جاتی ہے۔

ہولی موسم سرما کے  الوداعی دنوں میں اور موسم بہار کے آغاز میں منائی جاتی ہے، جسے “رنگوں کا تہوار”، امن کا تہوار” اور”پیار کا تہوار” کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔

تھرپارکر میں یہ تہوار دو دن تک جاری رہتا ہے۔ پہلے دن میں ایک ریلی نکلتی ہے، جسے” پلی” کہتے ہیں، پلی میں بھی ہندو اور مسلمان ساتھ شریک ہوتے ہیں، یہ ریلی شہر میں قائم ہولی میدان پر اختتام پذیر ہوتی ہے، جہاں پوجا پاٹھ کرنے کے بعد لکڑیوں سے بنی “ہولی” کو جلایا جاتا ہے۔

ہولی کا دوسرا دن جسے “دھوڑیلی” کہتے ہیں، جس میں ننھے بچے، بوڑھے، خواتین اور نوجوان ایک دوسرے پہ مختلف رنگ ڈالتے ہیں، اور مندروں کے باہر مین گیٹ پر ایک مٹکی  مختلف رنگوں سے بھر کے دو جگہوں کی بیچ میں لٹکا دیتے ہیں، جب ہولی کھیل کے تھک جاتے ہیں تو اس مٹکی کو توڑ دیتے ہیں، اور وہ رنگ ہولی کھیلنے والے پہ اتر جاتا ہے۔

عام طور پر تھرپارکر میں ہولی ہر چھوٹے بڑے شہر اور گائوں میں منائی جاتی ہے، شہروں کے رستے ہولی کے بعد بھی کافی دن لال، پیلے، گلابی اور آسمانی رنگ کا عکس دیتے ہیں۔

ہولی تھرپارکر کے رواداری والے رویے کو اور بھی مضبوط کرتی ہے۔ ہولی کا رنگ کا محبت اور امن سنگ ہے، جو کائنات کا ازلی حسن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).