رینا اور روینا کے مسلمان ہونے کا معجزہ اور شناختی کارڈ کا قصہ


امی اور ابو روایتی مسلمان تھے بلکہ کسی حد تک سخت گیر بھی مگر تنگ نظر نہیں تھے۔ گھر میں قرآن کے ساتھ اناجیل اربعہ اور مہا بھارت کے تراجم بھی موجود تھے۔ بچپن میں جو پہلی باقاعدہ مذہبی کتاب میرے ہاتھ میں تھمائی گئی وہ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن تھی پر اس کے بعد ابو کی لائبریری کے دروازے بغیر کسی خاص ہدایت کے مجھ پر وا کر دیے گئے۔ یہ قصہ کہیں لکھ چکا ہوں کہ کیسے اس چھوٹی سی عمر میں یہ خیال ذہن میں جگہ بنا لینے میں کامیاب ہو گیا کہ مذہب ایک اختیار ہے، جبر نہیں اور والدین نے بھی اس خیال کی توثیق کر دی۔ پر بہت جلد یہ سمجھ میں آ گیا کہ یہ فیصلہ کرنا کہ کون سا راستہ چننا ہے، سہل نہیں ہے۔ جتنا پڑھتا گیا، لگتا کہ کم ہے۔ الجھنیں بڑھتی چلی گئیں۔ اسی کشمکش میں عمر کے اٹھارہ سال گزر گئے۔

سرکاری بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد یہ بھی لازم تھا کہ شناختی کارڈ بنوایا جائے۔ سو متعلقہ دفتر پہنچا۔ شناختی کارڈ کے فارم لیے، تصاویر وغیرہ اور باقی لوازمات کی کاپیاں پہلے ہی اکٹھی کر رکھی تھیں۔ اب فارم بھرنا تھا۔ پہلے ہی صفحے پر ایک خانہ مذہب کا تھا۔ وہاں پہنچا تو ٹھٹک گیا۔ کیا لکھا جائے؟ ابھی تو فیصلہ ہوا ہی نہیں تھا۔ لیکن قواعد کی رو سے کوئی خانہ خالی نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ بہت سوچنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ نمازیں تو پڑھتے ہی ہیں اور روزے بھی رکھ لیتے ہیں کہ ابھی تک اس دین کو ترک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں بنا تھا جو ایک رسم اور روایت کی طرح پیدائش سے میرا حصہ بن گیا تھا اس لیے مسلم لکھنے میں کوئی ہرج نہیں لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ پیدائش کا جبر ہے، میرا اختیار نہیں تاکہ اگر کبھی اختیار کی جوت جاگے تو حوالہ موجود ہو۔ فارم انگریزی میں تھا۔ خوشخطی کے ساتھ خانے میں لکھا ”مسلم بائی برتھ“ باقی خانے بھرنا آسان تھا۔ دستخط کیے۔ فارم جمع کروایا اور گھر چلا آیا۔

مقررہ مدت کے بعد شناختی کارڈ وصول کرنے دفتر پہنچا تو کھڑکی پر بیٹھے کلرک نے بجائے کارڈ کے میرا فارم مجھے واپس کر دیا۔

”فارم مسترد ہو گیا ہے“ بابو نے پان چباتے ہوئے مجھے اطلاع کی۔
پوچھنے پر صاحب نے مذہب کے خانے پر لگا سرخ دائرہ مجھے دکھایا۔

”اس میں کیا مسئلہ ہے“ میں نے کچھ سمجھتے، کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی پوچھنا مناسب سمجھا
”اؤ بھائی، مسلمان ہو تو مسلم لکھو۔ مسلمان نہیں ہو تو نان مسلم لکھو۔ یہ بائی برتھ کیا ہوتا ہے“

میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ پیدائش کے جبر کا فلسفہ بیان کر سکوں پر کلرک سننے میں چنداں دلچسپی نہیں رکھتا تھا اور میرے پیچھے قطار بھی لمبی تھی۔ تھوڑی دیر کی بک بک چخ چخ کے بعد مجھے بتا دیا گیا کہ مسلم اور نان مسلم کے علاوہ کوئی تیسرا انتخاب ممکن نہیں۔ اور لامذہب ہونا تو بالکل ہی ممکن نہیں۔ دل تو کیا کہ شناختی کارڈ پر ہی لعنت بھیج دوں لیکن شناختی کارڈ کے بغیر لائسنس نہ بنتا اور لائسنس کے بغیر ابو موٹر سائیکل مجھے دینے سے انکاری تھی۔ تھوڑی دیر میں موٹر سائیکل چلانے کی سرخوشی میرے فلسفہ حیات پر غالب آ گئی۔ دوسرا فارم لیا۔ مذہب کے خانے میں مسلم لکھا اور اگلے ہی دن فارم کی تصدیق کروا کے دوبارہ جمع کروا دیا۔ کچھ دن میں شناختی کارڈ بن کر آ گیا اور پیدائش کے جبر کے بعد سرکار کے جبر کی وجہ سے مردم شماری میں ایک اور مسلمان کا اضافہ ہو گیا۔

آٹھ دس سال کی عمر سے مذہبی فکر کا باقاعدہ مطالعہ شروع ہوا تھا۔ شروع میں ہلکی پھلکی کتابیں پڑھیں۔ اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچتے تقابل ادیان پر بہت سا بھاری بھرکم فلسفہ بھی ہضم کیا پر سرکار نے جس دن میرے لیے مذہب کے انتخاب کے فیصلے کا دن چنا تو دس سال کے مطالعے کے بعد بھی میں کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر تھا۔ یہ ضرور معلوم ہو گیا تھا کہ لا ادری یا پھر ملحد ہونا شاید اتنا مشکل نہیں ہے کہ مذاہب کی بنیادی قدر مشترک ایک ہی ہے اور اگر اس قدر مشترک کو مسترد کیا جا سکے تو پھر ایک دین کے بعد دوسرے اور تیسرے دین کا مطالعہ کیے بغیر بھی اس راستے کو ہی چھوڑا جا سکتا ہے پر ایک دین ترک کرکے دوسرا دین شعوری طور پر اختیار کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ ہم جس مذہب میں پیدا ہوتے ہیں اس میں ذہن سازی کا عمل آنکھیں کھولنے کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔

شعوری ارتقاء کا فلسفہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ زندگی کے پہلے دس سال شخصیت سازی میں سب سے اہم ہوتے ہیں اور یہ وہ وقت ہے جس میں دوسرے آپ کی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔ جو وہ سوچتے ہیں، جس طرح وہ سوچتے ہیں وہ آپ کی ذات میں اس طرح پیوست ہو جاتا ہے کہ آپ میں سے اکثر عمر بھر اس حصار سے باہر نہیں نکل پاتے۔ آپ عمر بھر یہ سمجھتے ہیں کہ آپ اپنے ذہن سے سوچ رہے ہیں پر آپ کا ذہن ایک ایسے کنویں کا اسیر ہے جس کی دیواریں آپ کے بچپن میں ہی چن دی جاتی ہیں۔ اور عمر بھر آپ اس کنویں کی دیوار کو حد شعور سمجھتے ہوئے اپنے فیصلے کرتے ہیں۔

ہر دین میں ایک خود حفاظتی نظام موجود ہے جو آپ کے ذہن میں یہ راسخ کرتا چلا جاتا ہے کہ وہی دین برحق ہے اور باقی سب دین جھوٹے ہیں۔ آپ کا طریق درست ہے اور باقی سب غلط ہیں۔ ہم میں سے اکثر تقابل ادیان کے ضمن میں کسی بھی مطالعے سے نفور رکھتے ہیں کہ وہ اپنے کنویں میں اپنے آپ کو محفوظ اور خوش سمجھتے ہیں پر وہ جو کبھی اس مسئلے میں الجھ جائیں، بہت مطالعے کے بعد بھی مذاہب کے بیچ کوئی خاص جوہری فرق تلاش نہیں کر پاتے۔ دونوں صورتوں میں نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ آپ جس مذہب پر پیدا ہوتے ہیں، عموما اسی پر فوت ہو جاتے ہیں۔ مذہب کی تبدیلی ایک کٹھن فیصلہ ہے، شعوری طور پر یہ فیصلہ جب بھی ہو گا اس کے پیچھے طویل ریاضت اور وسیع مطالعہ موجود ہو گا۔

لیکن اس ملک ضیا داد میں ایسے معجزات کی کمی نہیں جہاں لوگوں پر کسی مطالعے یا ریاضت کے بغیر ہی اپنے مذہب کا بودا پن اور دوسرے مذہب کی حقانیت ایسے واضح ہوتی ہے کہ وہ ایک لمحہ تاخیر کیے بغیر ترک دین کر کے ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں قدم رکھ دیتے ہیں۔ تاہم اس ضمن میں کچھ اور حقائق بہت دل چسپ ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ جو دائرہ ترک کیا جاتا ہے وہ عیسائی یا ہندو مذہب کا ہوتا ہے اور جو اختیار کیا جاتا ہے وہ اسلام کا۔ دوسرا یہ کہ چند مثتثنیات کے علاوہ عمومی طور پر یہ معجزہ سندھ میں کم عمر اور خوب رو ہندو لڑکیوں اور پنجاب میں عیسائی لڑکیوں کے ساتھ پیش آتا ہے۔ ہر ایسے روح پرور واقعے میں ایسے مسلمان مرد ضرور ہوتے ہیں جو ان نو مسلموں کی حفاظت اور دلجوئی کی خاطر ان سے فوری نکاح کر لیتے ہیں۔ یہ بات تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ ایک اعلی روحانی مقام پر فائز کسی پیر، خطیب یا سیاسی راہ نما کی نظر کرم ہوتی ہے جو دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کرنے کا سبب بنتی ہے۔

اس سلسلے میں سندھ کے ضلع گھوٹکی کو ہمیشہ امتیاز حاصل رہا ہے۔ برصغیر کے اولیاء کرام کی لاکھوں کروڑوں ہندوؤں کو داخل اسلام کرنے کی عظیم روایت کو جس طرح گھوٹکی کی درسگاہ بھرچونڈی شریف کے کرتا دھرتا میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو نے نبھایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کے دست شریف پر سینکڑوں ہندو لڑکیاں اسلام قبول کر چکی ہیں۔ حاسدین البتہ یہ اشارہ کرتے ہیں کہ یہ فضیلت کبھی کسی ہندو مرد نے حاصل نہیں کی۔ ان حاسدین کو یہ بتانا چاہیے کہ ایک ہندو لڑکی کے مسلمان ہونے سے مستقبل کے مسلمان بچوں کی ایک پوری فیکٹری گویا تیار ہوتی ہے پھر اس سے ان مسلمان مردوں کو الگ ثواب کمانے کا موقع ملتا ہے جو ان سے میاں مٹھو کے زیر سایہ نکاح کرتے ہیں۔

ہندو لڑکوں نے اگر اسلام قبول کرنا شروع کر دیا تو ان کے لیے مسلمان لڑکیاں بھی ڈھونڈنی پڑیں گی جن سے ان کا نکاح کیا جا سکے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جو اپنے دین کا نہ ہوا کیا پتہ وہ ہمارا بھی نہ ہو۔ کل اگر وہ لڑکا گھوٹکی سے فرار ہو کر اپنے دین پر پلٹ گیا تو ان شریف مسلمان لڑکیوں کا کیا ہوگا۔ یہ کلیہ نومسلم لڑکیوں پر لاگو نہیں ہوتا کیونکہ اگر وہ ایسی کوشش کریں تو ان کے شوہر ان کی ٹانگیں نہ توڑ دیں کیونکہ مرد عورتوں پر حاکم ہیں نہ کہ عورتیں مردوں پر۔

برسوں سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ میاں مٹھو اب حکمران جماعت کے ٹکٹ پر ایوان نمائندگان میں بھی موجود ہیں۔ ان کے فرزند میاں شمن بھی اب اس دھندے، معاف کیجیے گا، اس روحانی جہاد کے فروغ کے لیے اسی طرح کوشاں ہیں جیسے کہ ان کے والد محترم۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ اب کچھ روز پہلے ہی بارہ سالہ رینا اور چودہ سالہ روینا نے ان کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا ہے اور ساتھ ہی دو نوجوان مہیا کر دیے گئے جو ان بے سہارا نومسلم لڑکیوں سے نکاح کر کے ان کے کفیل بن گئے۔

شنید ہے کہ بچیوں کے باپ نے اغوا کا پرچہ کرانے کی کوشش کی لیکن ایمان کی دولت سے مالامال سندھ پولیس نے یہ مذموم کوشش ناکام بنا دی۔ بچیوں کی ماں اسی دوران شاید کسی علالت کی وجہ سے وفات پا گئی تو کم بخت ہندو کمیونٹی نے اس کو یوں پیش کیا جیسے وہ اپنی بچیوں کے غم میں مر گئی ہو۔ خود سوچیے اندرون سندھ میں اس بالی عمر میں اس کی بچیاں اپنے گھر کی ہو گئیں اور وہ بھی بالادست عقیدہ رکھنے والے مردوں کے گھر کی کہ اب کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ یہ خوشی کا موقع ہے کہ دکھ کا۔ ماں کی آئی تھی سو مر گئی۔ ویسے بھی روز ہزاروں مرتے ہیں۔ اس میں اتنا ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ (ویڈیو اگلے صفحے پر موجود ہے)

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad