نریندر مودی کا اظہار امن: اصل پیغام کیا ہے؟


بھارت نے سرکاری طور پر نئی دہلی کے پاکستانی ہائی کمیشن میں یوم پاکستان کی تقاریب کا بائیکاٹ کیا اور اس موقع پر مدعو کئے گئے مہمانوں کو سیکورٹی فورسز نے اس عذر پر سفارت خانہ جانے سے منع کردیا کہ حکومت اس تقریب کے خلاف ہے۔

 گویا پاکستان کا معاملہ ہو تو بھارتی حکومت کی جمہوریت پسندی، آزادی قول و فعل اور بقائے باہمی کے دعوے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ لوگ اپنی دیانت دارانہ رائے کا اظہار نہیں کر سکتے اور پاکستان کے ساتھ خیرسگالی ظاہر کرنے کا کوئی فعل یا گفتگو بھی وطن سے غداری اور اشتعال انگیزی قرار پاتی ہے۔ گھٹن کے اس ماحول میں وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو یوم پاکستان پر تہنیت کا پیغام بھیجتے ہوئے برصغیر میں امن اور خوشحالی کی امید ظاہر کی ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بتایا ہے کہ نریندر مودی نے ان کے نام بھیجے گئے ایک پیغام میں کہا ہے کہ: ’میں پاکستان کے قومی دن کے موقع پر پاکستان کے عوام کو نیک خواہشات اور مبارکباد دیتا ہوں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ برصغیر کے لوگ دہشت اور تشدد سے پاک ماحول میں مل کر جمہوریت، امن، ترقی اور مستحکم خطے کے لیے کام کریں‘۔ حیرت اور تشویش کی بات البتہ یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کا پیغام، ان کی حکومت کی پالیسی اور نعرہ زنی سے میل نہیں کھاتا۔ مودی اہل پاکستان کو یوم پاکستان کی مبارک باد دے رہے ہیں لیکن ان کی حکومت نے نہ صرف یوم پاکستان کی تقریب کا بائیکاٹ کیا بلکہ عام شہریوں کو اس میں شرکت سے روکنے میں بھی کسی شرمندگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سیکورٹی اداروں کی اس کارروائی کو ملکی مفاد کے عین مطابق قرار دیا گیا ہے۔

زیادہ دن نہیں گزرے کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے سینئر رہنما اندریش کمار نے ممبئی میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ ’آپ میری بات لکھ کر رکھ لیجئے کہ آج سے پانچ سات سال میں آپ کراچی، لاہور یا راولپنڈی میں مکان یا دکان خریدیں گے اور آپ کو کاروبار کرنے کا موقع ملے گا‘۔ یعنی ایک طرف مودی کے قریبی ساتھی پاکستان کو ختم کرنے کے ناپاک عزائم کا کھلم کھلا اظہار کر رہے ہیں اور اپنی ناپاک زبان سے پاکستان کو فتح کرکے اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ ان عناصر کو نریندر مودی کے بھارت میں ’آزادی رائے‘ کا پورا حق حاصل ہے۔ لیکن اگر کوئی ہمسایہ ملک کے ساتھ امن قائم کرنے، کشمیری عوام کو ان کا حق دینے اور وہاں مظالم بند کرنے اور برصغیر سے اشتعال انگیزی ختم کرنے کی بات کرے تو نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے بڑے چھوٹے لیڈر حب الوطنی کی تلواریں سونت کر ایسے کسی بھی شخص کی گردن مارنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔

نریندر مودی نے نہ جانے کس سفارتی مجبوری میں یوم پاکستان کے موقع پر وزیر اعظم پاکستان کو پیغام بھیجا ہے۔ لیکن ایک بڑے ملک کے منتخب لیڈر نے پاکستانی عوام کو مبارک باد دیتے ہوئے ان سے براہ راست مواصلت کا حوصلہ نہیں کیا حالانکہ متعدد دوسرے عالمی لیڈروں کی طرح مودی بھی ٹویٹ پیغام جاری کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے پیغام کو پاکستانی وزیر اعظم کو اپنے ٹویٹ کے ذریعے عوام تک پہنچانا پڑا ہے۔ کم ظرفی کے اس مظاہرے کے علاوہ یہ پیغام کسی طرح بھی پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے مترادف نہیں ہوسکتا۔ اس پیغام میں بھی اصل زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ خطے سے دہشت اور تشدد کا خاتمہ کیا جائے۔

 یہ تو کوئی طفل مکتب بھی جان سکتا ہے کہ نریندر مودی جب پاکستانی عوام کے لئے پیغام میں دہشت اور تشدد کا خاص طور سے ذکر کرتے ہیں تو وہ بھارتی حکومت کے اس دیرینہ پیغام کو دہرا رہے ہوتے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے نان اسٹیٹ ایکٹرز یا انتہا پسند گروہ مقبوضہ کشمیر یا بھارتی علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ پلوامہ حملہ کے بعد بھی خاص طور سے اس نکتہ پر زور دیا گیا ہے۔ عمران خان نے جب تحقیقات کے لئے قابل عمل معلومات فراہم کرنے کی بات کی تو وزیر خارجہ سشما سوراج نے اس کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر عمران خان واقعی امن میں دلچسپی رکھتے ہیں تو وہ مسعود اظہر کو ہمارے حوالے کریں‘۔ بھارتی لیڈروں کے روایتی مؤقف کو دہراتے ہوئے سوراج نے بات چیت کرنے اور دہشت گردی سمیت تمام معاملات کا جائزہ لینے کے بارے میں پاکستانی وزیر اعظم کی فراخدلانہ پیشکش کو یکسر نظر انداز کر دیا تھا۔

نریندرمودی کی طرف سے مبارک باد کے پیغام اور عمران خان کے جوابی ٹویٹ کا جائزہ لیا جائے تو آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے کہ دونوں لیڈروں نے اپنے ملکوں کی دہائیوں پرانی سیاسی پوزیشن بیان کی ہے۔ اس طرح کے بیان خواہ وہ خیر سگالی کے نام پر دیے جائیں یا ان میں امن، بقائے باہمی اور مشترکہ خوشحالی جیسے خوشگوار خیالات کا اظہار کیا جائے، وہ دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے اور نئے پل بنانے میں ناکام رہیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے لیڈروں کو ادراک کرنا چاہیے کہ برصغیر پر چھائے جنگ کے ماحول کو ختم کرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان فاصلہ کم کرنے کے لئے پہلے ایک دوسرے کو دشمن قرار دینے کا چلن تبدیل کرنا ہوگا۔ موجودہ صورت میں اگر مذاکرات شروع ہو بھی جائیں لیکن ان کی بنیاد مفاہمت اور خیرسگالی کی بجائے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور اپنے عوام کے دلوں میں ہمسایہ ملک کے خلاف عناد اور دشمنی میں اضافہ ہی مقصود ہو گا تو امن اور خوشحالی کا راستہ ہموار نہیں ہو سکتا۔

نریندر مودی نے یوم پاکستان پر اپنے پیغام میں دہشت اور تشدد سے پاک ماحول کا ذکر کیا ہے لیکن وہ اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ ان کی حکومت نے بھارت جیسے نام نہاد سیکولر معاشرہ میں بھی مذہبی منافرت، نسلی تفریق اور ذات پات کی تقسیم کو گہرا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب ہندوتوا تحریک قوت پکڑ رہی ہے جو بھارت سے ہندوؤں کے علاوہ سب عقائد کو ختم کرنا ہی بنیادی قومی اصول مانتی ہے۔ بلکہ اکھنڈ بھارت کے احمقانہ اور متعصبانہ نظریہ کا پرچار کیا جاتا ہے جو اس خطے میں تباہی و بربادی کے سوا کوئی دوسرا پیغام نہیں لا سکتا۔ مودی کشمیر میں ہونے والے مظالم کو تسلیم کرنے کا حوصلہ تو شاید کبھی نہ کرسکیں لیکن وہ تو بھارت کے مختلف حصوں میں مذہبی نفرت کی بنیاد پر مار دھاڑ، قتل و غارت گری اور تشدد کی صورت میں ہونے والی دہشت گردی کو قبول کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔

اسی طرح پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اپنے جوابی پیغام میں جامع مذاکرات کی بات تو کی ہے لیکن تشدد اور دہشتگردی کے خلاف کوئی اشارہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ عمران خان اور پاکستان کا یہ مؤقف بالکل درست ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے بغیر کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی تسلیم کی جانی چاہئے کہ تشدد اور دہشت گردی کے خلاف عالمگیر تفہیم کو تسلیم کرنے اور اپنے ملک میں بعض بے راہرو گروہوں کو لگام دیے بغیر بھارت تو کیا، دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ پاکستا ن کا اعتماد اور احترام کا رشتہ استوار نہیں ہو سکتا۔

وزیر اعظم نے گزشتہ روز ملکی اخبارات و جرائد کے مدیروں اور سینئر صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف خلوص دل سے کام کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت قومی ایکشن پلان پر پوری طرح عمل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ افسوس کی بات صرف یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت بھی یہی دعویٰ کرتے ہوئے اقتدار سے رخصت ہوگئی لیکن وہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بنا سکی۔ حالانکہ اسی دور میں قومی ایکشن پلان تیار کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم اور ان کے رفقا کو اس سوال پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف سیاسی بیان بازی کی بجائے ان عوامل کا جائزہ لینا چاہئے جو اس قومی منصوبہ پر پوری طرح عمل کرنے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

حکومت اور معاشرہ کے طاقت ور حلقے اگر واقعی نفرت، انتہا پسندی اور عقیدہ کی بنیاد پر قتل و غارت گری کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ان عناصر اور مزاج کو کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی جو کبھی بہاولپور میں استاد کو قتل کرتے ہیں، کبھی کراچی میں ایک عالم دین کو نشانہ بناتے ہیں اور کبھی لال مسجد کے منبر سے عدالتوں کی توہین کے مرتکب ہونے کے علاوہ جمہوریت کو اسلام سے متصادم قرار دیتے ہیں لیکن ان پر گرفت کرنے کے لئے ریاستی طاقت متحرک نہیں ہوتی۔ حکومت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ جب تک اس ملک کا ہر شہری ملک کے متفقہ آئین اور اس کے تحت قائم انتظام اور اداروں کو مکمل احترام دینے پر آمادہ نہیں ہوتا، سماجی انارکی اور تشدد کا راستہ روکا نہیں جا سکتا۔ اس مقصد کے لئے یہ اعلان کافی نہیں ہو سکتا کہ ’ریاست کو کمزور نہ سمجھا جائے‘ بلکہ یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہوگی کہ ریاست کمزور نہیں ہے۔

جس روز پاکستان کی حکومت اپنے ملک میں نفرت اور تشدد کے سامنے دیوار بننے میں کامیاب ہو جائے گی، اسی روز مودی جیسا متعصب لیڈر بھی اس کی اخلاقی قوت اور برتری کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور ہوجائے گا۔ نیوزی لینڈ ایک چھوٹا اور دور دراز ملک ہے لیکن مساجد پر حملہ کے بعد وہاں کی حکومت نے اقلیتوں کی حفاظت اور احترام کے لئے جس قومی یک جہتی کا مظاہرہ کیا ہے، وہی کسی جمہوری اور انسانی معاشرہ کی پہچان ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali