ہمارا “مقصدِ حیات” ہے کیا آخر ؟


میرے پاس اکثر رہنمائی کے سوالات جو آتے ہیں ان میں زیادہ تر ”مقصدِ حیات“ کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ یہ وہ اہم سوال ہے جو آج کل کے نوجوانوں کے ذہنوں میں پیدا ہو رہا ہے جس کی بنیادی وجہ آج کل کے موٹیویشنل سپیکر صاحبان ہیں جن کے لیکچر کا آغاز و اختتام اسی بات پر ہوتا ہے کہ ”اپنے مقصدِ حیات کو تلاش کریں“۔ مگر اسے کیسے تلاش کرنا ہے اس بارے میں شاید ہی کوئی آسان الفاظ کے ساتھ سمجھاتا ہو۔ ورنہ اس ”کیسے“ کے جواب میں اتنی گھما پھرا کر رہنمائی کی جاتی کہ بندہ مزید الجھن کا شکار ہو جاتا ہے۔ میرے اس مضمون میں یہی کوشش ہوئی گی کہ نوجوانوں کو آسان و مختصر الفاظ میں اس آسان سے سوال کا جواب دے سکوں۔

دراصل ہم لوگ اس مقصد کو اپنے کیریئر گولز کے ساتھ مکس اپ کر لیتے ہیں۔ مقصد حیات تو بالکل واضح ہے صاحبو کہ ”اللّہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا اور اپنی زندگی کو انسانیت کے لیے مفید بنانا۔ ٹھیک ہو گیا نا۔ ۔ ۔ اب اس تعریف کے دو بنیادی حصے ہیں ؛

پہلا : اللّہ کے احکامات کے مطلق زندگی بسر کرنا۔ ۔ وہ احکامات کیا ہیں اور کیسے عمل کرنا اس کے لیے قرآن پاک اور سیرت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے پاس موجود ہیں۔

دوسرا : اپنی ذات کو دوسرے لوگوں کو مفید بنانا۔ ۔ اب اس کے اندر آپ کے کیریئر گولز، سوشل ورک، حقوق کی ادائیگی وغیرہ آ جاتا ہے۔

اب یہ دونوں حصہ جڑے ہوے ہیں یہ نہیں کہ اک پر عمل کرنا اور دوسرے کو اگنور کر دینا۔ یقین مانیں دوستو کہ اگر آپ غور کریں تو یہ حقیقت لازمی آشکار ہو گی کہ زندگی بہت ہی آسان اور سادہ ہے ایسے ہی جیسے ہمارا دین اسلام۔ ۔ ۔ مگر جس طرح تفرقہ بازی میں الجھ کر ہم دین کو مشکل بنا دیتے ویسے ہی ہم جلد بازی سے لیے فیصلوں، اپنی جھوٹی انا، تکبر، کم علمی اور دوسروں سے غلط موازنہ کر کے اپنی زندگی پیچیدہ بنا لیتے ہیں۔

تو جناب، آپ کا سادہ و آسان مقصد بس یہی ہے کہ اپنی طاقت ( صلاحیت ) کو جانیں اور اس سے دوسروں کو فائدہ دیں بس۔ ۔ بہت سارا پیسا کمانا آپ کا مقصد حیات نہیں ہے یار۔ ۔ مت الجھیں اس میں کہ پھر حلال و حرام کی تمیز ہی نہ رہے۔ اب آپ کس طرح فائدہ مند ہو سکتے ہیں؟ تو اس کے لیے آپ کو لگی بندھی زندگی میں سے وقت نکال کر اپنے آپ کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اللّہ سے رہنمائی کی دعا کرتے غور و فکر کریں تو لازمی جواب ملتا ہے کہ، سچے طلب گاروں کو ہی راستہ ملتا۔

حرف آخر یاد رکھیں کہ ہر کام کے آخر میں فرق ڈالنے والی بات صرف یہی ہوتی ہے کہ آپ اندر سے کتنے خوش باش، پر سکوں اور خوبصورت ہیں تبھی آپ کا باہر بھی معصوم اور مصنوعیت سے پاک ہو گا۔ بقول محسن نقوی؛

لپٹا ہوا کہر میں جیسے خزاں کا چاند

میلے لباس میں بھی وہ پیارا بہت لگا

ریشم پہن کے بھی میری قیمت نہ بڑھ سکی

کھدر بھی اس کے جسم پر مہنگا بہت لگا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).