جہانگیر ترین: سچی یاری سب پہ بھاری


یقین مانیں ہمیں کبھی سیاست میں دلچسپی نہیں رہی نہ ہی کبھی اس موضوع پر لکھنے کا سوچا۔ سیاست ہمیشہ سے خشک موضوع رہا ہمارے لیے۔ بھئی خوامخواہ کوئی اپنے آپ کو اس سیاپے میں کیوں ڈالے۔ اب سیاست کی بھی وہ اقدار نہیں رہیں جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھیں۔ آج کل کی گالم گلوچ، گھٹیا الزامات کی سیاست اور اس کی حالت زار دیکھ کر پرانا پنجابی ٹپا ”سوکن سوکنی“ ذہن میں کھٹ سے چل پڑتا ہے۔

حکومت عمرانیہ کے اس نو ماہ میں ایسی ایسی باتیں ایسے ایسے معجزے ایسے ایسے لطیفے دیکھنے کو سننے کوملے کہ الامان الحفیظ۔ اس حکومت کا ایک اور انہونا اقدام ہمیں کالم لکھنے پر مجبور کرگیا۔ ہوا کچھ یوں کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سے سزایافتہ مجرم اور تاحیات نا اہل قرار دیا گیا شخص وفاقی کابینہ کے اجلاس میں نہ صرف شرکت کرتا ہے بلکہ بریفنگ بھی دیتا ہے اور تو اور زرعی پیکج کو جو 290 ارب کے لگ بھگ بنتا ہے اس کو منظور کرا کے نو دو گیارہ ہوجاتا ہے۔ جی بالکل۔ ذکر ہورہا ہے امیرترین جہانگیرترین کا۔

سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نا اہل قرار دیتے ہوئے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ جہانگیر ترین نے اپنے بیان میں مشکوک ٹرمز استعمال کیں اور صحیح جواب نہ دینے پر انہیں ایماندار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ فیصلے میں کہاگیا تھا کہ جہانگیر ترین نے انسائیڈر ٹریڈر کے طور پر اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کیا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے فیصلہ سنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین نے اپنے باورچی اور ڈرائیور کے نام پر انسائیڈر ٹریڈنگ کی اور انہیں بے ایمانی کا مرتکب پایا گیا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف پٹیشن دائر کی تھی، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کو اثاثے چھپانے، جھوٹ بولنے اور دوسرے ممالک سے فنڈ لینے کی وجہ سے نا اہل قرار دیا جائے۔ عمران خان تو بچ گئے مگر جہانگیر ترین قانون کے شکنجے میں آگئے۔

جہانگیر ترین اب عمر بھر پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔ گزشتہ سال جب یہ فیصلہ آیا اس وقت جہانگیر ترین پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری کے عہدے پر تھے۔ پھر انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔

جہانگیر ترین کا شمار پاکستان کے امیر ترین افراد میں کیا جاتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایک لیکچرر سے ارب پتی بننے کا سفر بھی دلچسپ ہے۔ پھر سیاست میں بھی زورآزمائی کی۔ تین سیاسی جماعتیں بدلنے کے بعد تحریک انصاف کو پیارے ہوگئے۔ پھر یہی سے ایک لازوال دوستی کا آغاز ہوا۔ جو کسی نے نہ دیکھی نہ سنی۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان کے سیاسی کیرئیر میں جہانگیر ترین ان کے جہاز اور دیگر وسائل نے نمایاں ترین کردار کیا۔ جہانگیر ترین عمران خان کے دست راست بھی ہیں اور پکے دوست بھی۔ لیکن وہ عمران خان جن کی اصولوں کی سیاست پر کبھی سمجھوتا نہ کرنے کی تقریریں سن کر لوگوں کے کان پک گئے تھے ان کو نا اہلی پر فیصلہ آنے کے بعد مسٹر ترین سے قطع تعلق کرلینا چاہیے تھا۔ اپنی اور پارٹی کی ساکھ بچانے کا اس سے بہتر کوئی اور موقع نہ تھا۔

پارٹی کارکنان اور عوام الناس کے لیے بھی یہ بہترین سبق ہوتا کہ کرپٹ شخص سے پارٹی نے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ عمران خان نے پارٹی سے چور اچکوں کو نکال باہر کیا وغیرہ وغیرہ۔ ہوا اس کے برعکس۔ اور ہمیشہ کی طرح یوٹرن لے لیاگیا۔ افسوس 22 سال کی سیاسی جدوجہد اقربا پروری سے عبارت دکھائی دی۔ عمران خان کا ہر دوست ہر رفیق خیر سے وزیر یا مشیر لگ چکا۔ جو نااہل ہوا وہ کابینہ میں آکر بریفنگ دینے لگا۔ وفاقی کابینہ یار دوستوں کو نوازتے ہوئے پھیلتی چلی گئی اب بس شیرو ہی ہے جو بے چارا وزارت سے محروم ہے۔

چونکہ ملک میں حکومت عمرانیہ کا دور دورہ ہے توگنگا بھی الٹی بہہ رہی ہے، تاحیات نا اہل ہونے کے بعد بھی جہانگیر ترین پارٹی کے اب بھی تمام اجلاسوں میں اوراہم فیصلوں میں شریک ہوتے ہیں، پنجاب حکومت میں موصوف کا کردار ناگزیر ہے۔ ان کا کتنا اثرورسوخ ہے یہ بھی سب جانتے ہیں۔

اب یہاں چند سوال درپیش ہیں۔ کیا جہانگیر ترین کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بٹھا کر توہین عدالت نہیں کی گئی؟ کیا کوئی بھی سزا یافتہ مجرم وفاقی کابینہ میں بیٹھنے کا اہل ہے جبکہ اسے تاحیات نا اہل قرار دیا جاچکا ہو؟ کابینہ کو ٹیوشن یا پریزینٹیشن دینے کے لیے کیا کوئی اور نہیں ملا؟ اتنے منظور نظر کہ ہر گناہ ہیچ؟ ہر قصور معاف؟ اتنی پکی دوستی۔ !

یہی کچھ اگر نواز شریف کے دور حکومت میں ہوتا تو ایک لمحے کے لیے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں، متوقع ردعمل کا آپ کو بھی اندازہ ہوچکا ہوگا۔ مریم نواز جو کبھی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئی تھیں ان پر ہمیشہ عمران خان کی جانب سے تنقید کی جاتی رہی۔ اب اس سلسلے میں عمران خان اینڈ کمپنی کا کیا بیانیہ ہوگا؟ ہمارے خیال میں کچھ بھی نہیں۔ دو اپنی قسم کے وزرا کو ٹاک شوز میں بٹھا دیا جائے گا بلکہ بٹھایا جا چکا ہوگا اور وہ ”سوال چنا، جواب گندم“ کے مصداق آئیں بائیں شائیں کر کے میزبان اور عوام دونوں کا وقت ضائع کر کے غائب ہوجائیں گے۔

تو جناب بات ہو رہی ہے پکے دوستوں کی۔ سچی یاری کی۔ دور کہیں فلم ”شعلے“ کا گانا ”یہ دوستی ہم نہیں توڑیں گے، توڑیں گے دَم اگر تیرا ساتھ نہ چھوڑیں گے“ گونج رہا ہے اور ہمیں عمران خان اور جہانگیر ترین کی مثالی دوستی کی بے اختیار بلائیں لینے کو دل چاہا۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ”ویرو اور جَے“ کی دوستی کو ٹکر دیتی، عدلیہ، نظام، اپوزیشن اور عوام کا منہ چِڑاتی، ہمالیہ سے اونچی۔ شہد سے میٹھی۔ لوہے سے مضبوط۔ سمندر سے گہری یہ دوستی سونے سے بھی مہنگی ہے اور چلتی رہے گی۔ رکے گی نہیں۔ دیکھ لیجیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).