اختر حفیظ کی کتاب ’تیس منٹ‘ پر تبصرہ


آج جب بہت سے سندھی لکھاری قارئین کے پاس وقت کی کمی کا بہانا بنا کر فلیش فکشن کی صورت میں کہانی کے نام پر اخباروں میں چھوٹے سے واقعاتی ٹکڑے پیش کرتے ہیں تب شاید قاری کے دماغ میں یہ خیال آتا ہو گا کہ سندھی کہانی کا وقت ختم ہو گیا۔ لیکن فلیش فکشن کے داعی شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ عمدہ کہانی قارئین کو خود اپنی طرف کھینچ کر ان کا وقت لے ہی لیتی ہے۔ ایسے ہی ایک کہانی کار اختر حفیظ ہیں جن کی کہانیاں مقناطیسی کشّش کی طرح قاری کی توّجہ اپنی جانب مبذول کر کے فلیش فکشن لکھنے والوں کے دلائل رد کرتی ہیں۔

اختر حفیظ کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’برسات کھاں پوءِ‘ (برسات کے بعد) سن 2012 میں شائع ہوا۔ حال ہی میں ان کی کہانیوں کا دوسرا مجموعہ ’ٹِیھَ مِنٹَ‘ (تیس منٹ) کے نام سے کویتا پبلیکیشن نے شائع کیا ہے جس میں اختر حفیظ نے مختلف موضوعات کو اپنے قلم سے جاودانی بخشی ہے۔

ہمارے معاشرے پر گِدھ کی طرح منڈلاتی ہوئی شدّت پسندی کو اختر حفیظ نے کہانی ’کچی مسیت‘ (کچّی مسجد) میں نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ کہانی کا پس منظر سندھ کا ایک پر امن گاؤں ہے جہاں صدیوں سے ہر مذہب کے پیروکار رواداری کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ ایک دن گاؤں کی کچی مسجد میں کچھ اجنبی تبلیغ کے بہانے آ کر مسجد کی امامت سنبھالتے ہیں اور اس کے بعد پورے گاؤں کا ماحول یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔

اسی طرح ڈسٹوپین سماج پر مبنی کہانی ’کال‘ میں مذہبی شّدت پسندوں کی حکومت آنے کے بعد ملک میں تنّزلی کے عمل کو قلم بند کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں مصّنف نے انتہا پسند عناصر کی سوچ کو ایک ہی جملے میں سمو کر کہانی کی خوبصورتی کو بڑھا دیا ہے۔ ’اُن (شدّت پسندوں ) کا کہنا ہے کہ پودوں اور پھولوں میں عملِ تولید ہوتا ہے جسے دیکھنے سے انسان میں بھی جنسی خواہش بیدار ہوتی ہے لہٰذا پھولوں کا قتلِ عام جائز ہے‘ ۔

اختر حفیظ

گلزار کی کلاسیکی فلم ’اجازت‘ کی مایا جیسا ایک من موجی کردار کہانی ’تیس منَٹ‘ میں قندیل کا ہے جو بات بے بات ایاز کو چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور پھرکچھ عرصے بعد شکایتیں کرتی ہوئی واپس آ جاتی ہے۔ جس کے بارے میں اختر حفیظ لکھتے ہیں کہ ’دونوں کی محبت کا سلسلہ بھی عجیب تھا۔ ایک ایسا قّصہ جس میں وہ (ایاز) جیسے ایک کٹہڑے میں بغیر وکیل کے کھڑا ہو اور اس کی خاموشی میں چھپے دلائل اور شکایات سنے بغیر قندیل اسے (ایاز کو) قیدِ تنہائی کی سزادے دیتی تھی اور کچھ روز کے بعد پھر سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہو جاتا تھا‘ ۔ ’تنہا مسافت‘ اور ’سارَ‘ (یاد) بھی ایسی ہی با معنی رومانوی کہانیاں ہیں۔

’جیون پِیڑا‘ اور ’چنڈ لھی ویو‘ (چاند اتر گیا) کہانیوں میں مصنّف نے محنت کشوں کے استحصال کو نہایت مہارت سے قلم بند کیا ہے۔ ’گل فروش کی موت‘ امیدوں سے بھرپور کہانی ہے جس میں چھوٹی ذات کے ایک گل فروش کی موت کو یکایک سب شہری ایک برا خواب سمجھ کر بھولنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کی بوئی ہوئی فصل اس کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔

’آکسیجن‘ میں آکسیجن گرو نامی ایک طاقت وَر بندہ جنگلات پراجارہ داری قائم کر کے آکسیجن کو بھی کارپوریٹ ثقافت کا حصّہ بنا تا ہے۔ یہ کہانی مستقبل کے ماحولیاتی تغّیرات پر مبنی ہے اور کارپوریٹ ثقافت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرتی ہے۔ اسی طرح کہانی ’آبی مارشل لا‘ میں مصّنف نے مستقبل میں پانی کی کمی کے مسئلے کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کس طرح مستقبل میں پانی ایک کرنسی کی شکل اختیار کر لے گا او ر زندگی کے ہر پہلو کی وضاحت صرف پانی سے ہی منسوب ہو گی۔

3017 ع نامی کہانی سندھی زبان کے ’لِسّانی مستریوں‘ کی جانب سے زبان کو لوگوں میں مروّج کرنے کے بجائے ٹیکنالاجی پر زیادہ انحصار کر نے اور ان کے مضر اثرات پر مبنی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کہانی سندھی زبان پر لکھا گیا ایک نوحہ ہے۔

’کوئن جو لشکر‘ (چوہوں کا لشکر) نامی کہانی ایک سیاسی علامتی کہانی ہے جس میں نہایت ہی اختصار سے مصنّف نے سندھ کے ماضی اور حال کو علامتی طور پر پیش کر کے مسائل کی نشان دہی کی ہے۔ ’وَریَل جو وہاءُں‘ (وَریَل کا بیاہ) اور ’وَریَل اِن پالیٹکس‘ دو دلچسپ مزاحیہ کہانیاں ہیں۔

اختر حفیظ کے پاس موضوعات کی بہتات ملتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو کسی ایک موضوع میں قید کر کے اسے اپنی شناخت بنانے کے بجائے مختلف موضوعات کو قلم بند کر نے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔ اُن کی سوچ کا دائرہ رومانویت اور مزاح سے شروع ہو کر ماحولیات، شدّت پسندی اور مظلوم کے استحصال پر ختم ہوتا ہے اور وہ ہر موضوع سے یکساں انصاف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

منٹو کی طرح اخترحفیظ کا ایمان انسانّیت ہے اور اُن کا کامل یقین ہے کہ انسان چاہے کتنا بھی گِر جائے اس میں انسانّیت واپس آنے کے لئے ایک لمحہ بھی کافی ہے۔ ان کی کہانیوں کے کردار اُن کی اپنی ہی مٹّی سے گوندھے ہوئے مظلوم، بے بس، لاچار انسان ہیں اور جب یہی بے بس انسان جب متحّد ہوتے ہیں تو بڑے سے بڑے طاقت سے ٹکرانے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ کردار ہمیں اپنے چاروں اطراف نظر آتے ہیں۔ اُن کی کہانیوں میں ولّن کا کردار کسی ایک شخص کے بجائے مختلف سماجی مُظاہر ہیں جو کہ ہمارے ہی سماج میں ازدہا کی طرح سَر ُاٹھائے ہوئے ہیں۔ اختر حفیظ اپنی کہانیوں میں معصوم بچّے، گلاب کے پھول اور پانی جیسے حسّاس عناصر شاندار انداز سے استعمال کر کے کہانی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).