عراق، شام: ’امریکہ الگ اور خود مختار کرد ریاست کے منصوبے کی حمایت نہیں کرے گا‘


کرد

’مشرقی شام کے کرد علاقوں میں خودمختاری کی لہر بڑھ سکتی ہے‘

امریکہ نواز شامی جمہوری فورسز (ایس ڈی ایف) نے سنیچر کو اعلان کیا کہ نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی شکست کے بعد اس کی پانچ سالہ ’خلافت‘ کا خاتمہ ہو گیا ہے اور ایس ڈی ایف کے جنگجو دولت اسلامیہ کے آخری گڑھ کہے جانے والے علاقے باغور پر فتح کے پرچم لہرا رہے ہیں۔

لیکن 13 برس سے زیادہ عرصے تک دولتِ اسلامیہ کے ساتھ جاری رہنے والی اس لڑائی کے خاتمے کا متاثرہ ممالک (عراق، شام، ترکی) اور کردوں جیسی قومیتوں پر کیا اثر پڑے گا؟

انھی سوالات کے جوابات کے لیے ہم نے باتھ یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے پروفیسیر، ڈاکٹر افتخار ملک سے بات کی۔

’اس وقت سرحدی سالمیت جیسا کوئی مسئلہ نہیں‘

ڈاکٹر افتخار کا کہنا ہے کہ دنیا کا بین الاقوامی نظام سٹیٹ سسٹم پر قائم ہے اور اقوامِ متحدہ اور اس قسم کے دوسرے بین الاقوامی اتحادیوں میں ایک قسم کا سمجھوتہ ہے کہ یہ ’نیشن سٹیٹس‘ اچھی یا بری جو بن گئی ہیں ان کو برقرار رکھنا چاہیے اور ان کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری ختم نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ اس سے ان ریاستوں سمیت ان کے پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی نظام کے لیے بھی بہت سارے مسائل جنم لیں گے۔

وہ کہتے ہیں ’مجھے امید ہے کہ عراق اور شام کی وہ ریاستیں اور علاقے جو دولتِ اسلامیہ نے اپنے قبضے میں لے لیے تھے، اپنی پرانی پوزیشنز پر بحال ہو جائیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

‘دولت اسلامیہ کو شکست‘، عروج و زوال کی کہانی

عراق، شام میں کتنے غیرملکی جنگجو باقی رہ گئے؟

’دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی‘

ڈاکٹر افتخار کے خیال میں ان ریاستوں کے مسائل سرحدی نوعیت کے نہیں، بلکہ ’یہ کثیر النسلی اور کثیر الثقافتی ریاستیں ہیں جن میں عرب، شیعہ، سنی، کرد وغیرہ شامل ہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کو کیسے آپس میں ملا کر قومی دھارے میں لاتے ہوئے ہم آہنگی اور اتفاق رائے برقرار رکھا جائے۔‘

ان کے مطابق ’اس وقت مسئلہ سرحدی نھیں بلکہ یہ ہے کہ یہ جو حکومتیں نیشن سٹیٹس ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، وہ کس طریقے سے اپنے آپ کو ہر قسم کے لوگوں سے قبول کروائیں گی اور انھیں اپنے سیاسی اور اقتصادی نظام میں حصہ دار بنائیں گی۔‘

’دولتِ اسلامیہ کے خاتمے کے بعد کرد ریاست کا مطالبہ زور پکڑ سکتا ہے‘

ڈاکٹر افتخار نے کہا کہ کُرد مسئلہ صرف عراق اور شام کے لیے نہیں بلکہ ایران اور ترکی کے لیے بھی اہم ہے۔ ’دوسری جنگِ عظیم کے بعد مشرق وسطیٰ میں جو سرحدیں بنی ہیں ان کے درمیان بہت ساری قومیتیں تقسیم ہو گئی ہیں۔ خاص طور پر کرد بہت تقسیم ہیں اور کافی عرصے سے ان کے کچھ گروہوں میں علیحدہ ریاست کے لیے تحریک چل رہی ہے۔ موصل اور اربل اور اس کے اردگرد کے علاقے کافی خودمختار ہیں حالانکہ وہ عراق کا حصہ ہیں۔

’اسی طرح مشرقی شام میں جو کرد علاقے ہیں ان میں خودمختاری کی لہر بڑھ سکتی ہے۔‘

عراق

وہ کہتے ہیں کہ ترکی کے جو مشرقی علاقے ہیں ان میں ترکوں کے بعد سب سے بڑی اقلیت کرد ہیں۔ ’ان تین ریاستوں اور کچھ حد تک ایران کو فکر ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے خاتمے کے بعد وہ کرد عناصر جو الگ ریاست چاہتے ہیں، کہیں وہ مضبوط نہ ہو جائیں۔

’ان چاروں ممالک کے لیے اپنی علاقائی سالمیت برقرار رکھتے ہوئے ان کردوں کو اپنے ساتھ ملائے رکھنا بہت بڑا چیلنج ہے۔‘

ڈاکٹر افتخار کا کہنا ہے کہ دولتِ اسلامیہ کی باقیات میں کچھ ’سلیپر سیلز‘ ہوں گے جو وقتاً فوقتاً گڑبڑ کرتے اور اپنے ہونے کا احساس دلاتے رہیں گے۔

’امریکہ الگ اور خودمختار کرد ریاست کے منصوبے کی حمایت نہیں کرے گا‘

وہ کرد فورسز جنہوں نے دولتِ اسلامیہ کے ساتھ لڑائی میں امریکی افواج کا ساتھ دیا، اور جو ایک الگ ریاست کا مطالبہ بھی کرتی ہیں، دولتِ اسلامیہ کے خاتمے کے بعد اب ان کا مستقبل کیا ہے؟

اس بارے میں ڈاکٹر افتخار کہتے ہیں کہ ’عراق میں کردوں کو کافی حد تک خود مختاری ملی ہوئی ہے اور وہاں کی مرکزی حکومت میں عموماً صدر کرد علاقے سے ہوتا ہے۔ لیکن زیادہ مسئلہ شام اور ترکی میں ہے جہاں کرد گروہ کافی حد تک منظم ہیں اور ان کے تاریخی شکوے ہیں۔‘

شام

ان کا کہنا ہے کہ ترکی اور شام کی حکومتوں کو کافی کوششیں کرنی ہوں گی تاکہ یہ جو ناراض کرد عناصر ہیں اور جنہوں نے حال ہی میں بہت ساری قربانیاں دیتے ہوئے دولتِ اسلامیہ کے خلاف فتح حاصل کی ہے ان کو کس طریقے سے منایا جائے۔

’اس کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ شامی جمہوری فورسز (ایس ڈی ایف) جن میں عراقی، شامی اور کرد (مرد و خواتین) شامل ہیں اور جنہوں نے بہت قربانیاں دیتے ہوئے دولتِ اسلامیہ کو شکست دی ہے، انہیں امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور ترکی کے تعلقات اکثر تلخ بھی رہتے ہیں، تو امریکہ کو بھی کچھ وعدہ کرنا پڑے گا۔‘

ڈاکٹر افتخار کے خیال میں ’امریکہ الگ اور خودمختار کرد ریاست کے منصوبے کی حمایت نہیں کرے گا، وہ شام، ترکی اور عراق کی علاقائی سالمیت کو ختم نہیں ہونے دے گا لیکن ساتھ ہی شاید وہ ان تینوں ممالک کی حکومتوں سے کہے گا کہ اپنے اپنے ممالک کی سرحدی حدود میں رہتے ہوئے کردوں کو علاقائی اور ثقافتی خود مختاری کی ضمانت دی جائے۔‘

’کمزور مرکزی حکومت والے مسلمان ممالک میں دولتِ اسلامیہ دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے‘

ڈاکٹر افتخار نے کہا کہ دولتِ اسلامیہ کو اگر تحریک کے طور پر لیا جائے تو وہ 90-95 فیصد تک ختم ہو چکی ہے۔ خاص طور پر موصل، رقہ اور حلب کے علاقے جو ان کے زیر تسلط تھے ان میں شکست کے بعد دولتِ اسلامیہ کا وجود ختم ہو گیا تھا۔

ڈاکٹر افتخار

Dr. Iftikhar Malik
ڈاکٹر افتخار کا کہنا ہے کہ دو تین سو برسوں سے خلافت کا نظریہ مختلف شکلوں میں سامنے آتا رہا ہے

وہ کہتے ہیں ’لیکن دولتِ اسلامیہ کے پیچھے ایک نظریہ ہے جو پچھلے دو تین سو برسوں سے مسلمان تاریخ میں بار بارسامنے آتا رہا ہے۔ وہ نظریہ طاقت کے بل بوتے پر خلافت کا قیام ہے۔‘

’سوڈان میں انیسویں صدی میں محمد مہدی نے یہ نعرہ لگایا تھا جسے انگریزوں نے کچل دیا۔ اس سے پہلے 1830 میں اسی قسم کی جہادی تحریک ہندوستان میں سامنے آئی تھی جسے تحریکِ جہاد کہتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً اس طرح کی تحریکیں سامنے آتی رہی ہیں۔ القاعدہ نے بھی اسی سے ملتی جلتی اپنی سیاسی اسلام کی تحریک شروع کی تھی۔ جس کی موجودہ شکل دولتِ اسلامیہ ہے۔‘

ڈاکٹر افتخار کے خیال میں پچھلے دو سو سال سے مسلمانوں کی غلامی، حزیمت اور معاشی ناکامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خلافت کا نظریہ مختلف شکلوں میں سامنے آتا جاتا رہا ہے۔

’میرا نہیں خیال کہ اس نظریے کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ آئندہ یہ کسی اور صورت، کسی اور ملک میں سامنے آ سکتا ہے۔ خاص طور پر ان مسلمان ممالک میں جہاں مرکزی حکومت کمزور ہو اور نسلی و قومی خانہ جنگی شروع ہونے کا خطرہ موجود ہو۔‘

وہ کہتے ہیں کہ مسلمان حکمرانوں اور رہنماؤں کے لیے یہ بہت بڑا لمحہِ فکریہ ہے کہ اس قسم کی تحریکیں کیوں جنم لیتی ہیں اور انہیں کیسے قابو کیا جائے اور کیا وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان، مرد اور عورتیں جو چاہے مغرب میں رہ رہے ہوں ان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اور یہ تحریکیں معاشرے اور باقی مسلمان ممالک کے لیے ایسے اسباب اور حالات کیسے پیدا کردیتی ہیں جن میں خواتین، اقلیتیں اور عام مسلمان ان کے ظلم و جبر کا شکار بنتے ہیں، جیسے دولتِ اسلامیہ نے عراق میں یزیدیوں اور شیعوں کے ساتھ کیا۔

ڈاکٹر افتخار نے کہا کہ ان تحریکوں نے مسلمان ممالک کی سماجی، معاشی اور اقتصادی ترقی روک دی ہے، ’صرف یہ کہہ دینا کہ یہ باہر کی طاقتیں یا اسلام دشمن عناصر کر رہے ہیں اور یہ ہمارا اسلام نہیں ہے، اس سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32491 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp