شیخ رشید بھی ’’جہادی‘‘ ہیں


شیخ رشید جیسے لوگوں کا دم غنیمت ہے۔ ہمیں شیخ رشید کے جہادی جذبے کو سراہنا چاہئے۔ انہوں نے ٹیلی ویژن پر جس طرح اچھل اچھل کے جہاد کے حوالے سے اپنے دِلی جذبات کا اظہار کیا ہے، اس سے قوم کو امید رکھنی چاہئے کہ آئندہ چند دِنوں تک ممکن ہے، شیخ رشید وگ کی جگہ عمامہ باندھے وادئ کشمیر میں جہاد کرتے نظر آئیں، ان کا جہاد کا جذبہ قابلِ قدر ہے۔

قوم کو دُعا کرنی چاہئے کہ اللہ کرے وہ وقت جلد آئے جب شیخ رشید شہادت کے سفر پر روانہ ہوتے نظر آئیں، جہاد کے حوالے سے شیخ رشید کے راستے میں دو رکاوٹیں ہیں، پہلی رکاوٹ تو وزارت کا بوجھ ہے، وزیراعظم اگر شیخ رشید کے جذبہ جہاد کو دیکھتے ہوئے ان سے استعفیٰ طلب کر لیں تو ان کی پہلی مشکل آسان ہو جائے گی۔ البتہ شیخ صاحب اگر چاہیں تو وہ وزیراعظم سے یہ وعدہ لے سکتے ہیں کہ اگر وہ کشمیر فتح کر کے واپس آ گئے تو انہیں دوبارہ وزیر بنا دیا جائے اور انعام کے طور پر وزارت اطلاعات و نشریات عطاکر دیں کیونکہ شیخ رشید کے جذبہ جہاد کے پیچھے یہ ریلوے کی وزارت بھی ایک جذبہ ہے مگر اس میں ایک رکاوٹ فواد چودھری کی ہو سکتی ہے، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ شیخ رشید ان کی وزارت کے پیچھے پڑے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ریلوے کی منسٹری سے ان کی جان چھوٹے، سو یہ دیکھتے ہوئے ممکن ہے جب تک شیخ رشید ’’جہاد‘‘ پر رہیں، فواد چودھری ’’جائے نماز‘‘ پر یہ دُعا مانگتے نظر آئیں کہ یااللہ تو تو جانتا ہے کہ شیخ رشید کا سارا جہاد میری وزارت ہتھیانے کے لئے ہے سو شیخ رشید کو شہادت نصیب فرما اور میری دُعا سن لے۔

شیخ رشید کے جہاد کے مشن میں ایک مزید رکاوٹ کسی ’’مفتی‘‘ کا فتویٰ بھی ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگر محلے کے امام مسجد جہاد کا حکم دیں تو وہ جہاد پر روانہ ہو جائیں گے۔ میرے خیال میں ان کا یہ مسئلہ مولانا فضل الرحمن حل کر سکتے ہیں وہ اگر کچھ دِنوں کے لئے لال حویلی کے اردگرد کسی مسجد میں ’’امام ‘‘ بن جائیں اور جمعہ کے خطبے میں شیخ رشید کو ’’جہاد‘‘ کا حکم دے دیں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

شیخ رشید کے بیان سے پہلے بلاول بھٹو نے الزام لگایا تھا کہ وفاقی کابینہ میں کالعدم جماعتوں کے نمائندے موجود ہیں اور تین کے قریب وزیر باہر نکال دیئے جائیں۔ بلاول کے اس بیان پر ان پر غداری کے الزام لگائے گئے، اب شیخ رشید نے گویا تائید کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کابینہ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ’’ریاست‘‘ کے مقابلے میں ’’امام مسجد‘‘ کے حکم کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں اور اگر امام مسجد حکم کرے تو ریاست کے قانون کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے اب اصولی طور پر تو وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ اس بات کی وضاحت کریں کہ ریاست امام مسجد کے تابع ہے یا امام مسجد ریاست کے تابع ہے۔۔۔ ؟

میرے خیال میں شیخ رشید کے بیان کو ایک عام بیان کے طور پر نہیں لینا چاہئے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک وزیر کا بیان حکومت کا بیان نہ سمجھا جائے یہ شیخ رشید جیسے لوگوں کی ذہنیت اپنا کام دکھاتی ہے، جب ایک عام آدمی ہاتھوں میں بندوق اٹھائے کسی بھی مخالف رائے رکھنے والے کو موت کے گھاٹ اُتار دیتا ہے، پشاور کے مشال کے ساتھ کیا ہوا، ایک بیمار ذہن کو کس نے اُکسایا کہ وہ اُسے موت کے گھاٹ اُتار دیں۔۔۔ ابھی بہاولپور میں ایک استاد کو موت کے گھاٹ اُتارنے والے کو بھی ایک ’’امام مسجد‘‘ نے ہی اُکسایا وہ نوجوان سوشل میڈیا پر فخر سے بتا رہا تھا کہ اُس نے اپنے استاد کو مار کے درست کیا ہے، جب اُسے بتایا گیا کہ جس استاد کو تم نے چھری ماری ہے وہ مر گیا ہے تو اُس نے مسکراتے ہوئے کہا، بہت اچھا ہوا۔

سوچنے کی بات ہے کہ ہم اللہ، رسول اور قرآن کے نام پر کیا کر رہے ہیں۔ کس نے ایک شخص کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اُٹھ کے کسی کو بھی اسلام کے نام پر قتل کر دے، ہم نے دیکھا کہ نیوزی لینڈ میں ایک مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے لوگوں کو ایک جنونی دہشت گرد نے گولیوں سے چھلنی کرتے ہوئے شہید کر دیا۔۔۔ مگر وہاں کی ریاست نے اس جنونی کے ساتھ قانونی برتاؤ کیا، وہاں کی وزیراعظم نے مرنے والوں کے ساتھ مشرقی انداز میں تعزیت کی، لواحقین کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے قاتل کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انصاف کی بات کی۔۔۔ وہاں کے مقامی لوگوں نے مسجدوں کے باہر چوکیداری شروع کر دی اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی دہشت گردی کے خلاف کھل کے مذمت کی۔۔۔ اب وہاں کے ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر اذان کا حکم جاری کر دیا گیا ہے، وہاں مسلمانوں کو ہر طرح سے تحفظ کی یقین دہانی کروائی گئی ہے، ہم مسلمان جو امن کی بات کرتے ہیں کیا ہم نے کبھی اس طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ ملک کا وزیراعظم امن کی بات کرتا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ بات چیت کی بات کرتا ہے، مگر اس کا وزیر اس ملک کے خلاف ’’جہاد‘‘ کی بات کرتا ہے۔

ریاست امن کی بات کرتی ہے، حکومت کے ترجمان بھی امن کا پیغام دیتے ہیں، مگر وزیر ’’امام مسجد‘‘ کے حکم کے تابع ہے۔۔۔ شیخ رشید جیسے لوگوں کی وجہ سے دُنیا بھر میں ہمارے ’’مسائل‘‘ بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ لوگ نہ تو اسلام کے خیر خواہ ہیں اور نہ پاکستان کے خیر خواہ ہیں۔ یہ لوگ کسی بھی طرح امن و سکون کے حالات پیدا نہیں ہونے دیتے، کیونکہ ان کے سیاسی مفادات کا معاملہ ہے۔ یہ لوگ اپنے سیاسی مفادات کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

انہیں نہیں معلوم کہ ان کے بیانات اور خیالات سے ماحول کس طرح خراب ہوتا ہے۔ ایک عام آدمی جب کسی وزیر کے خیالات اور بیانات پڑھتا ہے تو پھر وہ اسے ریاست کی پالیسی سمجھتا ہے اور بندوق اُٹھا لیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان دُنیا بھر میں دہشت گرد کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ابھی گزشتہ دِنوں خود میرے محلے کے ایک نوجوان نے ایک شخص پر پستول تان لیا۔۔۔ بظاہر وجہ امام مسجد کے بیان کردہ ’’حکم نامہ‘‘ کی تھی اور اگرموقع پر موجود لوگوں نے اس نوجوان کو قابو نہ کیا ہوتا تو ہم ایک مزید ’’مزار‘‘ کے لئے چندہ مانگ رہے ہوتے۔

وزیراعظم کو شیخ رشید کے بیان کو سنجیدہ لینا چاہئے، اور پہلی فرصت میں ان سے استعفیٰ لے لینا چاہئے۔ وزیراعظم کو نواز شریف، آصف علی زرداری سے توجہ ہٹا کے اپنے وزیروں اور مشیروں پر بھی توجہ دینا چاہئے۔ کتنی عجب بات ہے کہ وزیراعظم کو بلاول بھٹو زرداری کی ’’انگلش‘‘ پر تو سو طرح کے اعتراض ہیں، مگر شیخ رشید کے جہاد کے حوالے سے انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ انہوں نے ابھی تک شیخ رشید کو طلب کر کے یہ نہیں پوچھا کہ انہوں نے ’’جہاد‘‘ کے حوالے سے جو بیان دیا ہے۔ اس بیان کی کیا ضرورت تھی اور یہ بیان دے کے اُنہوں نے کیا پیغام دیا ہے، مگر وزیراعظم شیخ رشید سے پوچھ گچھ نہیں کر سکتے، کیونکہ جس طرح کے انداز میں وزیراعظم حکومت چلا رہے ہیں۔ ایسی حکومتوں میں ہر ایک کا اپنا اپنا ’’منہ‘‘ ہوتا ہے، سو شیخ رشید جس ’’منہ‘‘ سے بھی بات کریں اُن کے ’’منہ‘‘ پر کوئی ہاتھ نہیں رکھ سکتا، جب تک خود ریاست آگے بڑھتے ہوئے ان کے ’’منہ‘‘ پر ہاتھ نہیں رکھتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).