کمسن ہندو لڑکیوں کا مبینہ اغوا: سشما سوراج اور فواد چوہدری کے درمیان ٹوئٹر پر بحث


پاکستان میں جہاں ایک جانب صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والی دو نو عمر ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور جبری مذہب تبدیل کرنے کے الزامات کی تفشیش جاری ہے وہیں دوسری جانب انڈین وزیرِ خارجہ سشما سوراج اور پاکستان کے وزیرِ اطلاعات فواد حسین ٹوئٹر پر براہ راست ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے انڈیا اور پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر بحث ہوئی ہے۔

رواں ہفتے پیش آنے والے واقعے کا نوٹس نہ صرف پاکستانی وزیراعظم عمران خان لے چکے ہیں بلکہ دیگر حکومتی ذمہ داران بھی اس واقعے کی غیر جانب دار انکوائری کی یقین دہانی کروا چکے ہیں جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے تفشیش میں مصروف ہیں۔

صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں پیش آنے والے اس واقعے میں دو کمسن ہندو بہنوں کے خاندان نے مقامی پولیس کو اپنی 13 اور 14 سالہ بچیوں کی مبینہ گمشدگی کی ابتدائی اطلاع دیتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ ان کو اغوا کیا گیا ہے۔ بچیوں کی بازیابی اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی اپیل کرتے ہوئے لڑکیوں کے خاندان اور برادری کے افراد نے مقامی پولیس سٹیشن کے سامنے دھرنا بھی دیا۔

مقامی صحافیوں کو موصول ہونے والی ایک ویڈیو میں بظاہر ان کمسن لڑکیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے گھر سے گئیں ہیں اور اپنا مذہب تبدیل کر کے نکاح بھی کر چکی ہیں۔

سشما سوراج بمقابلہ فواد حسین

اتوار کی صبح انڈین وزیرِ خارجہ سشما سوراج نے ایک ٹویٹ کے ذریعے بتایا کہ ہولی کے موقعہ پر دو ہندو لڑکیوں کے پاکستان میں مبینہ اغوا کے مسئلے پر انھوں نے پاکستان میں انڈین ہائی کمشنر سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

چند ہی گھنٹے بعد اس ٹویٹ کا جواب پاکستانی وزیرِ اطلاعات فواد حسین کی جانب سے آیا جنھوں نے سشما سوراج کو مخاطب کرتے ہوئے اسے پاکستان کا اندرونی مسئلہ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا ’میم۔۔۔۔ یقین رکھیے یہ مودی کا انڈیا نہیں ہے جہاں اقلیتوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ یہ عمران خان کا نیا پاکستان ہے جہاں ہمارے جھنڈے میں موجود سفید رنگ ہمیں بہت عزیز ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ اتنی ہی خلوص نیت سے انڈیا میں موجود اقلیتوں کے حقوق کے لیے عمل پیرا ہوں گی۔‘

بظاہر یہ جواب سشما کو کچھ پسند نہ آیا اور جوابی ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا ’مسٹر منسٹر۔۔۔ میں نے اسلام آباد میں انڈین ہائی کمشنر سے دو کمسن ہندو لڑکیوں کے اغوا اور ان سے زبردستی اسلام قبول کروانے پر صرف ایک رپورٹ مانگی ہے۔ صرف اتنی سے بات آپ کو پریشان کرنے کے لیے کافی تھی۔۔۔‘

انڈین وزیر خارجہ نے کہا کہ ’ایسا کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا ضمیر گناہ گار ہے۔‘

پھر فواد چوہدری نے اس کا بھی جواب دیا اور کہا ’میڈم منسٹر مجھے خوشی ہے کہ انڈین انتظامیہ میں ایسے لوگ ہیں جو دوسرے ممالک میں اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کا ضمیر آپ کو اس بات کی اجازت دے گا کہ آپ اپنے گھر میں بھی اقلیتوں کے لیے کھڑی ہوں گی۔ گجرات اور جموں کا اب بھی آپ کے ضمیر پر گہرا اثر ہو گا۔‘

اب تک ہونے والی پیش رفت

حیدر آباد میں بی بی سی کے نمائندے کے مطابق ضلع گھوٹکی کے ڈہرکی تھانے کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ لڑکیاں اپنی مرضی سے گھر سے گئیں ہیں اور مذہب تبدیل کر کے انھوں نے نکاح بھی کر لیا ہے اور وہ نکاح نامے پنجاب کی ایک عدالت کے میں یش بھی کر چکی ہیں۔

اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے ڈی ایس پی اظہار حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘وہ اپنی مرضی سے گھر سے گئی ہیں۔ اپنی مرضی سے انھوں نے اسلام قبول کیا اور شادی کی۔’ تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ خود تفشیش کے سلسلے میں لڑکیوں سے ملے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے اور اس حوالے سے کورٹ میں وہ جو بیان دیں گی اس کی روشنی میں مذید قانونی کارروائی ہو گی۔

’فی الحال کوشش یہی ہے کہ لڑکیاں برآمد ہو جائیں۔ انھوں نے نکاح پنجاب میں کیا ہے۔‘ ڈہرکی ہندو پنچایت کے سربراہ شیو لال نے بی بی سی کو بتایا کہ ان لڑکیوں کو زبردستی لے کر جایا گیا ہے۔ سندھ پولیس کی ایک ٹیم پنجاب میں موجود ہے جو لڑکیوں کی بازیابی کی کوششوں میں مصروف ہے۔

وزیراعظم کا نوٹس

اتوار کی صبح وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو بچیوں کی جلد بازیابی کی ہدایات جاری کی ہیں۔ انھوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے اس واقعے کی تحقیقات کر کے رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ عمران خان نے حکومت سندھ اور حکومت پنجاب کو اس حوالے سے مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت لڑکیوں کی بازیابی کا کہا ہے۔ اس سے قبل وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی اس واقعے کا نوٹس لے چکے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حکومتی ایم این اے اور پاکستان ہندو کونسل کے سرپرستِ اعلیٰ ڈاکٹر رمیش کمار کا کہنا تھا پاکستان میں جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کا مسئلہ کافی پرانا ہے مگر اس کے حل کے لیے کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ ’جیسا کہ پہلے ہونے والی مذہب کی جبری تبدیلی کے کیسز میں دیکھنے میں آیا ہے، ان بچیوں کو بھی بھرچونڈی لے جایا گیا جہاں مذہب تبدیل کیا جاتا ہے اور نکاح پڑھایا جاتا ہے اور بعد ازاں پنجاب کے کسی شہر بھیج دیا جاتا ہے۔

’مجھے تشویش یہ ہے کہ ہمیشہ وہ کمسن لڑکیاں ہی اسلام کیوں قبول کرتی ہیں جن کا شناختی کارڈ بھی نہیں بنا ہوتا۔ بڑی عمر کی عورت، بچہ یا مرد کیوں نہیں؟‘

ان کا کہنا تھا کہ ہر ملک میں اقلیتوں کے ساتھ مسائل ہوتے ہیں مگر پاکستان میں ہم ان مسائل کے حل کی طرف نہیں جا رہے۔ انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے جس کے لیے وہ جلد پارلیمان میں آواز اٹھائیں گے۔

’جب 1947 میں پاکستان بنا تھا تو اقلیتوں کی تعداد آبادی کا 23 فیصد تھی جو کہ کم ہو کر اب صرف پانچ فیصد ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہ تعداد کم کیوں ہو رہی ہے۔‘ انسانی حقوق کمیشن کی 2016 کی رپورٹ کے مطابق مذہبی اقلیتوں کی جانب سے مذہب کی تبیدلی کی شکایات خاص طور پر سندھ میں بڑھ رہی ہیں، سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے مذہب کی جبری تبدیلی کی روک تھام کو جرم قرار دینے کی سفارش کی تھی لیکن اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کی مخالفت کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp