ذکر کچھ موٹیویشنل سپیکروں کا


جب بھی آپ کسی موٹیویشنل سپیکر کو دیکھتے ہیں تو ایک بابوں والی فیلنگ آتی ہے کہ جن کے پاس مریدین کا جم غفیر اور ایک ایک کرکے وہ سب کے دکھ درد سنتا ہے اور سب کو پھونک مار کر تسلی دیتا ہے اور اپنی شیرینی وصول کرتا ہے چونکہ اب تبدیلی آچکی ہے وقت تبدیل ہوچکا ہے اور اب بابوں کی جگہ موٹیویشنل سپیکر نے لے لی ہے اور اب شیرینی بھی وقت سے پہلے جمع کروانی ہوتی ہے اور پھر جا کے کہیں بزرگوں سے وقت ملتا ہے خصوصی وقت کے لیے آپ کے پاس کافی سارا پیسہ یا کوئی اچھا تعلق ہونا چاہیے پھر جا کے کہیں آپ کو خصوصی وقت ملے گا۔

مسئلہ عصر حاضر کے لوگوں کا مشترک ہے اور وہ ہے ”ڈیپریشن“ بابا جی ملاقات کے لیے وقت دیتے ہیں اور پیسے بذریعہ بینک اکاؤنٹ؛ ایزی پیسہ؛ جاز کیش تمام سہولیات سے منگوا لیتے ہیں اور مقررہ وقت پر جھولیاں بھر بھر کر مریدین نکلتے ہیں لیکن جیسے ہی حقیقی زندگی سے واسطہ پڑتا ہے جھولی خالی معلوم ہوتی ہے۔

مریدین آہستہ آہستہ جمع ہونا شروع ہوتے ہیں اور پہلی دھاک اسی وقت بیٹھ جاتی ہے جب باباجی وقت سے پہلے موجود ہوتے ہیں اور مریدین مصافحہ کرتے ہوئے خوش ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ باباجی وقت سے پہلے موجود ہیں اور وہ ہمارا انتظار کر رہے ہیں

مسئلہ مریدین کا چونکہ ڈیپریشن ہے لہذا باباجی مختلف طریقے استعمال کرتے ہوئے اپنی کرشماتی شخصیت سے عوام الناس کو اس مایوسی کے گہرے بادلوں سے نکالتے ہیں کئی دفعہ فیس بک سے اٹھایا ہوا مواد سلائیڈز میں لگا کر دکھایا جاتا ہے اور لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ کتنا کم دیکھتے ہیں اور نیوز فیڈ میں کتنا علم ہے مثلاً ”راستے سے پتھر ہٹاؤ گے تو نیکیاں ملیں گی“ باباجی اسی جملے کو مسلسل ایک گھنٹہ صرف کریں گے کہ پتھر ہٹاؤ گے تو آپ کے راستے سے فطرت پتھر ہٹوائے گی، نیکیاں ملیں گی وغیرہ وغیرہ۔

بابا جی نے مسائل کے ادراک کے لیے چیلے بھی رکھے ہوئے ہیں اور وہ بھی ناکام سپیشلسٹ ہیں ناکام زندگی میں ہیں اور سپیشلسٹ مسئلے کے ادراک میں ہیں اور وہ اپنی قیمت وصول کرتے ہیں اور لوگوں کو پریشانی سے نکالتے ہیں۔

آخر موٹیویشنل سپیکرز کی تعداد دن دگنی رات چوگنی ترقی کیسے کررہے ہیں؟

اگر بے روزگاری اور لوگوں کو مصروفیت کا کوئی مناسب طریقہ دستیاب نہ ہوا تو یہ تعداد مزید بڑھے گی۔ اب تو ماں باپ بچے کو ڈانٹ بھی دیں تو پھر بھی موٹیویشنل حضرات کی چاندی ہوجاتی ہے۔ پیار میں دھوکہ تو ایک عام وجہ ہے ان بابوں کے پاس جانے کی۔ بچے اگر تعلیم میں اچھے نہیں جا رہے، بدتمیز ہیں، کہا نہیں مانتے، ماں باپ کے لیے پریشان نہیں ہوتے وغیرہ۔ تو بابا جی کے جذبات نام کی ایک گیدڑ سنگھی ہے جو بچوں کو اور بڑوں کو سنگھائی جاتی ہے اور اس کا اثر محض اس ہال میں ہی ہوتا ہے جس میں لیکچر ہو رہا ہوتا ہے۔

موٹیویشنل سپیکر بنتے کیسے ہیں؟

موٹیویشنل بننے کے لیے آپ کو ایک ناکام شخص ہونا چاہیے جسے مناسب فیلڈ میں کام نہ ملا ہو تب جا کے آپ در در کی خاک چھانیں اور لوگوں کو لمبی لمبی سنانے والے ہوں یا آپ اس طرح سبز باغ دکھانے والے ہوں جو کہ موجودہ زندگی میں مشکل اور ناممکن ہوں۔ ایک دفعہ ہمارے سکول میں ایک وفد بچوں کو لیکچر دینے آیا اور ان میں سب سے اول آدمی اساتذہ کو لیکچر دینے کے لیے تیار کھڑا تھا وہ لڑکا ابھی یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کر رہا تھا اور خواب اس کا ڈاکٹر بننا تھا جو کسی وجہ سے پورا نہ ہوسکا لیکن چونکہ اسے لگا کہ میں بھی موٹیویٹ کرسکتا ہوں تو اس نے اس شعبہ میں قدم رکھا۔

مسلسل دس منٹ اس نے پوری قوم کی وہ بھرکس نکالی کہ رہے نام خدا کا۔ یہ اخلاقی طور پر گری ہوئی قوم ہے یہ؛ صفائی کا خیال نہیں رکھتی، ملاوٹ کرتی ہے اور جھوٹ بولتی ہے۔ میں نے کہا اس کا حل بتائیں کہ اس کو کس طرح درست کیا جائے موصوف فرمانے لگے آپ بطور استاد کلاس کی ابتدا درود سے کروائیں اور ذکر سے کروائیں تبدیلی واضح ہوگی۔

یہ میری رائے ہے اس سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن کبھی بیٹھ کر سوچا جائے کہ ہمارے معاشرے کے ساتھ اور ہمارے جذبات کے ساتھ یہ پیسے لے کر کھیل نہیں رہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).