جنریشن گیپ


اکثر یہ جملہ سننے میں آتا ہے کے آج کل کے بچے کسی کی نہیں سنتے ہیں اور بچوں کی طرف سے یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ ہمارے والدین ہماری بات نہیں سمجھتے ہیں۔ اس سننے اور سمجھنے تک کا فاصلہ جنریشن گیپ ہے۔

اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں تقریباً ہر گھر میں یہی سب ہوتا نظر آئے گا۔ گھر کے بزرگ نئی نسل کو باغی قرار دینے پے تلے ہوئے ہیں اور نئی نسل اپنے بزرگوں سے نالاں رہتی ہے۔ اسی وجہ سے گھر جو کہ جنت کا نمونہ ہوتا ہے نفسیاتی مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ اگر ہم اِس دوری کی وجوہات دیکھیں تو سب سے بڑی وجہ یہ جملہ ہے کہ ”ہمارے دور میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا“ یا پھر ”ہم لوگ تو اپنے ایامِ جوانی میں ایسے نہیں تھے“۔

جب ہم اپنے بچوں کے سامنے یہ جملہ بول دیتے ہیں تو اِس کا یہ مطلب ہے کہ ہم ابھی تک اُسی دور میں جی رہے ہیں جو برسوں پہلے گزر چکا ہے۔ اور ہم اس بات کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں کہ اب جو وقت گزر رہا ہے اِس کے تقاضے مختلف ہیں، اِس کی ترجیحات اور ہیں، اِس کے مسائل کی نوعیت منفرد ہے۔ ہمیں اِس بات کو سمجھنا ہوگا کہ آنے والا ہر دن پرانے سے بہت مختلف ہے۔

جب ہم اِس بات کا اِقرار کر لیتے ہیں کہ ہر لمحہ وقت بدل رہا ہے اور زندگی تغیر کا نام ہے تو پھر ہم اس بدلاؤ کو قبول کرنے کے لئے تیار کیوں نہیں ہوتے؟ ہم کیوں پرانے وقتوں کے حساب اور قوانین سے نئے دور کی سوئیاں چلانا چاہتے ہیں؟ جیسے جیسے اِنسان شعور کی منزلیں طے کررہا ہے ویسے ویسے اُس کی ترجیحات بدل رہی ہیں اور اِن ترجیحات کے ساتھ ساتھ مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ والدین کو وہ بدلتی ہوئی ترجیحات تو نظر آجاتی ہیں لیکن اُن ترجیحات کو پورا کرتے ہوئے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان سے وہ یہ کہہ کر نظریں چرا لیتے ہیں کہ ہمارے دور میں تو ایسا نہیں تھا۔

چونکہ ہم بڑے ہیں تو ظاہر ہے کہ ہم اپنے بچوں کی بہتر طور پہ ہی رہنمائی کریں گے، ہم اِن کا بھلا ہی سوچیں گے۔ لیکن، اِس سب میں بھی جو ہم اپنے بچوں کے ساتھ زیادتی کر جاتے ہیں وہ یہ سوچ ہے کہ ہم بڑے ہیں، ہمیں دنیا کا زیادہ پتا ہے اِس لئے ہم تو غلط ہو ہی نہیں سکتے۔ جو بات جنریشن گیپ کی وجہ بنتی ہے وہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو وہ اعتماد دینے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ وہ بھی صیح ہوسکتے ہیں۔

ہم کیوں یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ ہماری انگلی پکڑ کر ہی چلے اور اسی رستے پر چلے جو ہم نے اس کے لئے منتخب کیا ہے اور بالکل ویسے ہی چلے جیسے برسوں پہلے ہم خود چلے تھے۔

اسی دباؤ کی وجہ سے ہماری نسلیں اجڑ چکی ہیں۔ ہماری نوجوان نسل اسی ذہنی دباؤ کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔ اور کچھ جو اس دباؤ کو برداشت نہیں کر پاتے وہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی جان لے لیتے ہیں۔ بہت سے پھول کھلنے سے پہلے ہی صرف اسی وجہ سے مرجھا گئے کے وہ یہ ان چاہا دباؤ برداشت ہی نہیں کر پائے جب ان کے احساسات کو کچلا گیا تو انہوں نے خود کو ہی کچل لیا۔ کم نمبر آنے پہ خودکشی، فیل ہونے پہ خودکشی، پسند کی شادی نہ ہونے پہ خود کشی، ایسی کتنی ہی خبریں ہیں جو آئے دن ہم لوگ اخباروں میں پڑھتے ہیں۔ پر ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہ بچے بھی ہمارے بچوں جیسے تھے۔ وہ کون سی وجہ تھی جو ان کی موت کی وجہ بن گئی؟ کہیں وہ وجہ ہمارے گھر میں بھی تو موجود نہیں ہے؟

اولاد ہی ماں باپ کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتی ہے تو پھر ہمیں اپنی انا اپنی اولاد سے بڑھ کر عزیز نہیں ہونی چاہیے۔ اِس بارے میں سوچنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ جو رستہ ہمارے بچے چن رہے ہیں وہ بھی ٹھیک ہو سکتا ہے۔ یاد رکھیں کے اپنی پسند کی منتخب کردہ راہوں پر اگر آپ کا بچہ لڑکھڑایا بھی تو آپ کا سہارا اسے گرنے نہیں دے گا اور آپ کا اعتماد اسے طاقت ضرور دے گا کہ وہ اپنی منزل تک پہنچ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).