نیوزی لینڈ اس دنیا میں نہیں!


نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ہونے والے واقعہ کو ایک ہفتہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن اس واقعہ کو بھلایا نہیں جا سکا۔ اس کی وجہ؟ جی نہیں اس کی وجہ کسی اسلامی ملک کی اس بارے میں آواز بلند کرنا نہیں اور نہ ہی کسی ”اسلامی تنظیم“ کی لابنگ ہے۔ اس میں مسلمان لیڈروں کا بھی کمال نہیں۔ اس میں علمائے اسلام کا حصہ بھی نہیں۔ اس کا سہرا ایک عیسائی بلکہ ملحد عورت یعنی نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کے سر سجتا ہے۔

جی ہاں جیسنڈا آرڈرن وہ ہیروئن ہیں جنہوں نے ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود ساری دنیا کو اس واقعہ کی یاد تازہ رکھنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔ ساری دنیا کی ایک ہفتہ کی اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو نیوزی لینڈ میں ہونے والے واقعہ کے بارے میں خبریں اور تصویریں دکھائی دیں گی۔ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹرینڈ دیکھ لیں تو بھی اس واقعہ کا ذکر آپ کو نظر آئے گا۔ جیسنڈا آرڈرن نے اس ایک ہفتہ کو مسلمانوں سے اظہار یکجہتی میں گزارا۔

اس ایک ہفتہ میں جو کچھ نیوزی لینڈ میں ہوا وہ دیکھ اور پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ ملک اس دنیا میں نہیں بلکہ کسی اور سیارے میں بستا ہے۔ اس دنیا میں کہاں مذہبی، لسانی اور معاشرتی ہم آہنگی کی روایت ہے؟ کسی ملک میں مذہبی اقلیتوں پر مظالم ہو رہے ہیں (اس موقع پر پاکستان کے ہندووں، عیسائیوں اور احمدیوں کی طویل فہرست بھی غور طلب ہے)۔ کسی ملک میں دوسرے رنگ و نسل والوں کو تکالیف کا سامنا ہے اور کسی ملک میں کسی قبیلہ اور گروہ پر عرصہ حیات تنگ ہے۔

اس فہرست میں عیسائی، مسلمان، امریکہ، یورپ، اسرائیل، عرب ہر طرح کے ملک شامل ہیں۔ امریکہ میں جو سلوک میکسیکن سے ہو رہا ہے، اسرائیل جو کچھ فلسطین سے کر رہا ہے، بھارت جو کشمیر میں کر رہا ہے، عرب جو یمن اور ایران سے کر رہے ہیں، کس کس کی مثال دی جائے۔ دنیا کے یہ حالات دیکھ کر انسان یہی کہہ سکتا کہ نیوزی لینڈ اور جیسنڈا آرڈرن اس دنیا کے نہیں بلکہ کسی اور سیارے کا ملک اور کسی اور سیارے کے باشندے ہیں۔

زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں صرف گزشتہ چند سالوں پر نظر ڈالیں آپ کو کوئی ایک واقعہ ایسا نظر نہیں آئے گا جس میں اتنے لوگ مرے ہوں اور ان سے اس طرح اظہار یکجہتی کیا گیا ہو۔ مسلمان ملکوں میں تو خیر ہر دوسرے دن ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں، ان پر دو بیان جاری ہوتے ہیں اور بس۔ لیکن امریکہ اور یورپ میں بھی ایسے واقعات ہوئے لیکن ان کی یاد اتنی دیرپا نہ رہی۔ نیوزی لینڈ میں اقلیتی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی پر عورتوں نے دوپٹہ لے لیا۔ مساجد میں نماز کے دوران عیسائی مسلمانوں سے ہمدردی میں پیچھے خاموش کھڑے ہو گئے۔ (ایسے میں اگر آپ کو پاکستان میں دوسرے فرقوں کے افراد کے مساجد میں داخل ہونے کے خلاف فتوے یاد آئیں تو معذرت) ۔ بیچ چوراہے میں مسلمانوں کی اذان دلوائی گئی۔ (اذان کی ویڈیو دیکھ کر اگر پاکستان کا وہ قانون یاد آئے جس کے مطابق پاکستان کا ایک مذہبی فرقہ اذان نہیں دے سکتا تو پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ یہ نیوزی لینڈ جیسے عیسائی ملک کی بات ہو رہی ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نہیں ) ۔

نیوزی لینڈ کی ملحد وزیر اعظم اور پولیس کی عیسائی افسر نے اسلامی طریق سے سلام کیا۔ (لیکن پاکستان کے قانون کے مطابق اگر کسی خاص مذہبی گروہ کا فرد ”السلام علیکم“ کہہ دے یا اس کے کسی قول و فعل سے یہ اظہار ہو جائے کہ وہ مسلمان ہے یا اسلامی شعار کا استعمال کرے تو اس کے لئے قید اور جرمانے کی سزا ہے۔) نیوزی لینڈ میں مساجد کے سامنے شہریوں نے پھول رکھے اور شہید ہونے والوں کی یاد میں موم بتیاں جلائیں (اس موقع پر آپ یہ نہ سمجھیں کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی بات کرنے والے ”موم بتی گروپ“ کا ذکر ہو رہا ہے۔)

نیوزی لینڈ میں سرکاری سطح پر سوگ منایا گیا اور ملک کے تقریباً ہر شہری نے اس پر دلی دکھ و درد کا اظہار کیا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ شہید ہونے والے تو مسلمان تھے ہمارے مذہب کو نہیں مانتے تھے اس لئے یہ جائز تھا۔ حکومت نے مجرم کو پکڑ کر ایک دن کے اندر کارروائی شروع بھی کر دی۔ ہمارے ملک کی طرح یہ نہیں ہوا کہ کمیٹی بنتی، رپورٹ آتی، اس کے خلاف اپیل ہوتی۔ مذہبی گروہ اس کو عین ”عبادت“ اور ”موجب ثواب“ گردانتے۔ کچھ بھی ایسا نہ ہوا۔ کسی عیسائی پادری کی طرف سے مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے کو ”ہیرو“ کے طور پر پیش نہیں کیا گیا۔ (ہیرو صرف ممتاز قادری تھا، یا مشعال کو مارنے والے یا پھر پروفیسر خالد حمید کو قتل کرنے والا) ۔

ساری دنیا نیوزی لینڈ کے عوام اور خاص طور پر ان کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کو خراج تحسین پیش کر رہی ہے۔ اسلامی ملک ہوں یا غیر اسلامی ملک ہر جگہ ان کو سراہا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ ان کا مسلمان ہونا نہیں۔ اس کی وجہ ان کا کسی مذہبی گروہ سے تعلق ہونا نہیں۔ اس کی وجہ شاید ان کا نیوزی لینڈر ہونا بھی نہیں۔ اس کی وجہ ان کا انسان ہوا ہے۔ انسان ہونے سے مراد یہ کہ ان کے اندر انسانی ہمدردی کا ہونا ہے۔

ان کے اندر حقیقی انسانی روح کا ہونا ہے۔ ان کے اندر انسانوں کی جانوں کے ضیاع پر دکھ ہونا ہے۔ انہوں نے یہ تحقیق نہیں کروائی کہ مرنے والے کون تھے، کس فرقہ کے تھے، کس قوم کے تھے، کس رنگ و نسل کے تھے۔ وہ حقیقت میں مسلمان تھے بھی یا نہیں، ان کے پاس کسی پارلیمنٹ سے مسلمان ہونے کا لائسنس تھا یا نہیں، وہ ان کے مذہب کے خلاف تھے یا نہیں، انہوں نے بس ایک بات سامنے رکھی کہ مرنے والے انسان تھے۔ اور انسان کی جان قیمتی ہوتی ہے۔

کاش باقی دنیا کو بھی یہ بات سمجھ آ جائے۔ باقی جمہورتیں بھی اس انسانی جان کی قیمت کو سمجھ لیں۔ باقی ملکوں میں بھی اس طرح کی مذہبی آزادی ہوجائے۔ پاکستان میں بھی اقلیتیں اپنے آپ کو ایسا محفوظ سمجھ لیں۔ پاکستان میں بھی کسی ہندو لڑکی کی کم سنی میں مذہب کی تبدیلی کی خبر نہ آئے۔ پاکستان کی حکومت بھی کسی کو مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ نہ دے۔ پاکستان میں بھی اقلیتی عبادت گاہیں محفوظ ہو جائیں۔ پاکستان میں بھی کسی پر پروفیسر خالد حمید کی طرح توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کرنے کا سلسلہ بند ہو جائے۔

پاکستان کا ہر شہری پاکستانی ہو نہ کہ سندھی بلوچی، پشتون پنجابی۔ پاکستان میں یہ نعرہ لگے کہ ”پاکستان سب کا ہے“ نہ کہ صرف مسلمانوں کا۔ لیکن پھر میں سوچتا ہوں یہ سب تو نیوزی لینڈ میں ہوتا ہے۔ اور پاکستان تو نیوزی لینڈ نہیں۔ یہ سب تو اِس دنیا کا رواج نہیں۔ یہ تو بس نیوزی لینڈ کا طریق ہے اور نیوزی لینڈ اس دنیا میں نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).