ہم “پاکستان زندہ باد” کہتے رہیں گے۔


مصیبت یہ ہے کہ ہم بہت جلدی بھول جاتے ہیں۔ ہمارا حافظہ کمزور ہے۔ لیکن حافظہ بھی کیا کیا یاد رکھے۔ ذہن کی پٹاری خوفناک مناظر سے بھر چکی ہے مزید منظر کشی کی گنجائیش کہاں بچتی ہے۔ پہلی مصیبتوں، پہلی بیماریوں اور پہلی آفات کے مناظر کو اس پٹاری سے نکالیں گے تو نئے منظر نامے کی گنجائش بنے گی۔ ذہن ہر وقت حالت جنگ میں ہے۔ کون سی افتاد زیادہ خطرناک تھیں۔ کون سی غلطیاں زیادہ مہلک تھیں۔ کس کو یاد کریں اور کس کو بھول جائیں۔ حالات کتنے ہی ناموافق ہو جائیں، دیش سے محبت یہ کہتی ہے کہ صرف ”پاکستان زندہ باد“ کا نعرہ لگاؤ۔ ذہن کی پٹاری سے ہر دکھ، ہر تکلیف اور ہر مصیبت کو نکال کر پھینک دو اور ”پاکستان زندہ باد“ یاد رکھو۔

کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب یہ کہا گیا تھا کہ اپنے ذہن سے ہر چیز نکال کر ”سب سے پہلے پاکستان“ یاد رکھو۔ ہم نے دماغ کے ہر گوشے میں اچھی طرح یہ بات بٹھالی۔ ہم نے کوشش کی کہ کہ خون سے تر مسجدوں کے سین ”سب سے پہلے پاکستان“ کے ساتھ نتھی نہ ہونے دیں۔ ہم نے کوشش کی کہ بلوچ بھائیوں کی خون آلودہ تصویریں ہمارے ذہن کے ڈرائنگ روم کی زینت نہ بنئں۔ ہم نے پورا زور لگایا کہ لاکھوں افغان مہاجروں کی تکالیف کو ”سب سے پہلے پاکستان“ پر مقدم نہ کریں لیکن کیا کریں دل ہے کہ مانتا نہیں۔

ہم ”سب سے پہلے پاکستان“ کا شور مچاتے رہے، ادھر ہمارے ایر بیس امریکہ کے قبضے میں جاتے رہے۔ بلوچستان میں بےچینی کے مظاہر پیچیدہ ہوتے رہے۔ ہم ملا عمر کے ٹھکانے ڈھونڈتے رہے، ادھر اسامہ ہمارے عقب میں چھپا رہا۔ ہم ”سب سے پہلے پاکستان“ کے گیت گاتے رہے ادھر افغانستان ہمارے ہاتھ سے نکل کر انڈیا کی گود میں جا بیٹھا۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ہمیں اسلامائزیشن کا سبق یاد کروایا گیا۔ ہم نے وہ نعرہ ”ہم مسلمان“ ہیں اچھی طرح یاد کر لیا۔ ہم نے تو اپنی بہنوں بیٹیوں کو حجاب کروا دیا۔ دفتروں میں، سکولوں اور کالجوں میں جماعت سے نماز بھی پڑھنی شروع کردی۔ لیکن یونیورسٹی میں مار کھا کھا کر ہمیں داڑھی رکھنے پر مجبور کیا گیا۔ وہ مجبوری آج بھی ہمارے دماغ کو چھانٹے مارتی ہے۔ کوڑے کھاتے ہوئے سیاسی کارکنوں کی چیخیں ہمارے دماغ سے نکلنے کا نام نہیں لے رہیں۔ اسلام کے نام پر مرنے والے شیعہ اور سنی ہمارے خیالوں سے نکل نہیں پارہے۔ ہزارہ کے لوگ سڑکوں پر سینکڑوں لاشیں رکھے احتجاج کرتے ہوئے ہمارے اوسان خطاکرنے سے باز نہیں آ رہے۔ پھر بھی ہم ”اسلام زندہ باد“ کے نعرے لگاتے رہے۔

ہمیں کہا گیا اپریشن ضرب عضب کو ایمانی طاقت کا حصہ بنائیں۔ ہم نے بنایا مگر فاٹا کے جلے ہوئے گھر اور بے گھر مہاجر ذہن کی تاریک راہوں میں تاک لگا کر بیٹھے ہیں اور چین نہیں لینے دے رہے۔ ہمیں طالبان سے نفرت کرنے کو کہا گیا۔ ہم نے طالبان سے نفرت کی۔ لیکن طالبان سے بات چیت کی آوازیں ہمارے کانوں کے پردے پھاڑے دے رہی ہیں۔

ہمیں کہا گیا ردالفساد فتنہ فساد ختم کردے گا مگر پشاور سانحہ میں مرنے والے چھوٹے بچے اور استاد دماغ سے نکلنے کا نام نہیں لے رہے۔ امام بارگاہوں پر خون کے دھبے اور سوگ میں ڈوبی خواتیں بے چین کئیے دیتی ہیں۔ ہمیں کہا گیا تھا کہ ہم بائیو میٹرک سسٹم لے کر آرہے ہیں۔ ہم برطانیہ کی جمہوریت لے کر آئیں گے۔ لیکن الیکشن کی رات بائیو میٹرک کا بند ہونا ہمارے ذہن کے روشن پہلو تاریک کررہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی اکھاڑ پچھاڑ ہمیں زیر و زبر کر رہی ہے۔ ہم ردالفساد کو ہی اپنی دنیا و آخرت کی کامیابی سمجھتے ہیں مگر ختم نبوت کے نام پر ڈرامے اور ان کے اداکاروں کو دیے جانے والے معاوضے ہماری سوچ کو اتھل پتھل کر دیتے ہیں اور ہمارے ”پاکستان زندہ باد“ کے نعروں کی گونج کمزور کرنے لگتے ہیں۔

ہمیں عدالتوں اور ججوں کی آزادی کی تحریک چلانے کو کہا گیا تھا۔ ہم نے وکلا کے ساتھ مل کر تحریک چلائی۔ ہم نے انصاف کا نعرہ زور و شور سے بلند کیا۔ ہمارے ذہن میں وہ منظر کافی جگہ گھیرے ہوئے ہے جب پورا لاہور سڑکوں پر نواز شریف کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ کر رہا تھا۔ اور پھر عدالتیں آزاد ہو گئیں پھر وہ وقت آیا جب نواز شریف اسلام آباد سے واپس لاہور آرہا تھا۔ لوگوں کا عدالتوں کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے نواز شریف کے ساتھ واپسی کا سفر ذہن کے دریچوں پر قبضہ کئیے بیٹھا ہے۔

ہمارے دماغ سے کوئی افتخار چودھری اور ثاقب نثار کی تصاویر ہٹائے تو کوئی اور خوشنما تصویر لگائیں۔ یہ تصویریں ہمارے دماغ کو جکڑے بیٹھی ہیں۔ ہمارا ذہن مسلسل اس بات پر کچوکے لگا رہا ہے کہ ہمارا ہر نعرہ اور ہماری ہر جدجہد الٹی کیوں پڑ جاتی ہے۔ ہر بار یہ ثاقب نثار ہی کیوں ہمارے مستقبل کے فیصلے کرنے آ جاتے ہیں۔ ان کے ڈیم میں ہم اپنی تنخواہیں کیوں غرق کرتے ہیں۔ ان سے انصاف کی امید کیوں لگا لیتے ہیں۔ ثاقب نثار کی بولتی تصویر ہمارے دماغ کو جنجھوڑتی رہتی ہے۔ ہم پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں یہ تصویر آگے بڑھ کر ہمارے منہ پر ہاتھ رکھ دیتی ہے اور ہمارے نعرے کو سرگوشی میں تبدیل کر دیتی ہے۔

ہمارے ذہن میں آج بھی وہ جہادی ترغیب کے نعرے گونج رہے ہیں اور ہمیں شہادت کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان نعروں کے ساتھ ہمارے ان بچوں کی تصویریں ہمیں پریشان کئیے رکھتی ہیں جنہیں ہم نے جہاد کے لئے کشمیر اور افغانستان بھیجا تھا۔ جو شہید ہوگئے وہ تو اپنی منزل پاگئے۔ جو بدقسمت شہادت سے بچ گئے وہ سی ٹی ڈی کے ہاتھوں جہنم واصل ہو رہے ہیں یا عدالتوں کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ عالم ارواح سے ان کے سوالات ہمارے دماغ کی چیخوں کو بلند تر کرتے ہیں اور ان چیخوں کے بیچ ہمارے نعرے ”پاکستان زندہ باد“ کی گونج مدھم پڑ جاتی ہے۔

ہمیں الیکشن مہم کے دوران اور اس سے پہلے کنٹینر پر کھڑے ہو کر یقین دلایا گیا تھاکہ ہمارے اچھے دن آنے والے ہیں۔ ہم آئیں گے تو ہماری کشش میں ڈالر بھاگے آئیں گے۔ ڈالروں کی ریل پیل ہوگی۔ لیکن ڈالر ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔ ہمیں یہ نعرہ لگانے کو کہا گیا تھا کہ نواز شریف چور ہے۔ نواز شریف سے تیس ہزار ارب نکلوائیں گے۔ نواز شریف اب قید میں ہے اور سرکاری علاج کروا رہا ہے۔ آج تک ایک روپیہ بھی اس سے ریکور نہیں ہوا۔

ہمیں یہ نعرہ لگانے کا حکم ملا تھا کہ قومیں تعلیم سے بنتی ہیں۔ ہم اپنا پیسہ تعلیم پر لگائیں گے۔ ہم نے پڑھا لکھا پاکستان کا نعرہ لگایا۔ لیکن اس نعرے کی خوشنمائی کو ہتھکڑیوں میں جکڑی لاشوں نے بدنما کر دیا ہے۔ استادوں کے ہاتھوں کی ہتھکڑیاں اور ان کی بے بس نمناک اور انصاف کی بھیک مانگتی آنکھیں ”پڑھا لکھا پاکستان“ کے نعروں کی گونج مدھم کیے دے رہی ہیں۔ ہمیں خوشحال پاکستان کا نعرہ لگانے کا حکم ملا تھا۔ ہم نے خوشحال پاکستان کا نعرہ لگایا۔ مگر آج منڈیوں میں پڑے پیاز اور ٹماٹر مہنگائی کے شور میں خوشحالی کے نعرے کو دفن کرتے نظر آرہے ہیں۔

ہم پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا رہے ہیں، لگاتے رہیں گے۔ یہ دیش ہمارا ہے۔ ہم اس کی حفاظت کریں گے۔ اور پاکستان زندہ باد رہے گا مگر پاکستان زندہ باد کے نعرے کی آواز کی بازگشت میں خون سے تر مسجدیں، امام بارگاہیں، افغانستان اور کشمیر کے شہیدوں کی روحیں شور مچا مچا کر نعرے کی آواز کو چیخ میں بدلتی جا رہی ہیں۔ ہم پاکستان زندہ باد کا نعرہ بڑے ہی پر جوش انداز میں لگانے لگتے ہیں تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے ذہن کے دریچوں سے ثاقب نثار نکل کر سامنے آ جاتا ہے۔

اس کے انصاف کی حقیقت ہمارے نعرے کو ایک کراہ میں تبدیل کر دیتی ہے۔ ہم جتنا زور سے نعرہ لگاتے ہیں اس سے بلند تر اس کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ ہم پاکستان زندہ باد کا نعرے بڑے جوش اور ولولے کے ساتھ لگاتے ہیں لیکن ہیروئن زدہ نیم مردہ مرد و زن کی موت کی وادی کی طرف قدم بڑھتی نیم مردہ لاشیں ہمارا دھیان بٹا دیتی ہیں۔ اے ارضِ وطن؛ ہم تیری محبت میں سرشاری کے گیت گاتے رہیں گے۔ تیرے نام کا نعرہ بلند کرتے رہیں گے۔ ہم تیری قربان گاہ پر اپنے بچوں کا خون بہتا دیکھتے رہیں گے۔ ہم ظلم نا انصافی اور تشدد برداشت کرتے رہیں گے مگر تیری عظمت کے گیت گاتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).