گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے اذان کی گونج تک


آہ! نیوزی لینڈ
واہ! نیوزی لینڈ

ایک دن دنیا کی زبان پر تھا ”آہ! نیوزی لینڈ“ اور دوسرے دن دنیا کی زبان پر تھا ”واہ! نیوزی لینڈ“۔ اس میں کسی چمتکار کا ہاتھ نہیں تھا، کسی معجزہ کا دخل نہیں تھا، کسی بزرگ کی دعا کا اثر نہیں تھا بلکہ یہ ایک سوچ تھی، ایک نظریہ تھا، جس نے نیوزی لینڈ کو لہولہان کرنے والی دہشت گردی کو ہی نگل لیا، اس کی ’وقعت‘ کا احساس دلا دیا، بتا دیا کہ دہشت گردی کا بہترین علاج اس کو ”یتیمی کا احساس“ دلانا ہے۔ جبکہ اس کے شکار ہونے والوں کو ’سب کا ساتھ‘ ہونے کا یقین دلانا ہے وہ بھی لفظی طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر۔

ایک فیصد مسلمانوں کے لئے 99 فیصد آبادی ایسے آگے آئی جیسے کوئی ماں اپنے نوازئیدہ بچے کو رونے کی آواز سے تڑپ کر سینے سے لگا لیتی ہے۔ اپنی آغوش میں اسے محفوظ ہونے کا احساس دلا کر اطمینان کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرائسٹ چرچ میں 15 مارچ کو ایک گورے دہشت گرد نے 50 نمازیوں کو آٹو میٹک شاٹ گن سے بھون ڈالا، لاشوں کے ڈھیر لگا دیے مگر جس النور مسجد کی فضا میں گولیوں کی تڑ تڑاہٹ گونجی تھی صرف ایک ہفتے بعد اسی مسجد کی ”اذان“ کی پورے نیوزی لینڈ میں گونج سنائی دی۔

اہل نیوزی لینڈ ہلاک شدہ نمازیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے سڑکوں پر اکٹھا تھے۔ ’اذان‘ سن رہے تھے۔ ’اذان‘ پر دو منٹ کے لئے خاموش کھڑے ہوگئے۔ سر جھکے ہوئے تھے، ایک روح پرور منظر ایک بے مثال خراج عقیدت۔ دنیا کے لئے ایک مثال۔ ایک ہفتے قبل جمعہ کو جس ان لنور مسجد میں لاشوں کے، ڈھیر لگے تھے اس کے ارد گرد پھولوں کے ڈھیر تھے اور ہزاروں افراد ان نمازیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے موجود تھے۔ پورا ملک سڑکوں پر تھا، کیا مرد، کیا خواتین، کیا بچے اور کیا بزرگ۔

یہاں تک کے اس حملے میں زخمی ہوئے کئی نمازی تو اسپتالوں سے وہیلز چیئرز پر مسجد النور پہنچ گئے تھے، ہر کوئی دہشت گردی کے خلاف اس صف بندی کا حصہ بننا چاہتا تھا۔ دنیا دنگ رہ گئی، نیوزی لینڈ کے دہشت گردی کو جواب نے ایک حقیقی مہذب سوچ کی عکاسی کردی۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد النور کے امام جمال فودا نے کہا کہ ہم دل شکستہ ضرور ہیں لیکن ہمارے حوصلے ٹوٹے نہیں۔ دہشت گرد وہی نفرت پھیلا کر ہمیں تقسیم کرنا چاہتا تھا جس سے دنیا تقسیم ہوچکی ہے لیکن اس کے بجائے نیوزی لینڈ نے پیغام دیا کہ ہم متحد ہیں۔ ان کی آنکھوں میں دہشت گردی کو ہرانے کی خوشی اور جوش تھا۔ یہ دہشت گردی کو نیوزی لینڈ کا جواب تھا۔ ’ہم ایک ہیں ”۔

نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کے خلاف اس یلغار کا مرکزی کردار رہا خاتون وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن۔ جنہوں نے دہشت گردانہ حملے سے اب تک جو کیا وہ دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والے ’مرد‘ نہیں کرسکے تھے، خواہ ان کا سینہ 56 انچ کا ہو یا پھران کے دماغ میں ’روشن خیالی کے روشن دان ”ہونے کا بھرم ہو۔ جنہوں نے دنیا کو بتا دیا کہ اگر آپ کی نیت صاف ہے، اگر آپ ایماندار ہیں اور اگر آپ کا ارادہ نیک ہے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو منتشر نہیں کرسکتی ہے اور یہ ایک قائد ہی ہے جو عوام کے لئے ایک مثال قائم کرسکتا کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کس سمت جانا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک دن دنیا کہہ رہی تھی جو نیوزی لینڈ میں ہوا وہ کہیں نہ ہو۔ دوسرے دن دنیا کہہ رہی تھی جو نیوزی لینڈ میں ہوا، وہی دنیا بھر میں ہونا چاہیے۔ کاش پوری دنیا نیوزی لینڈ بن جائے۔ کاش ہر کوئی نیوزی لینڈ کے باشندوں کی طرح ہوجائے۔

وزیر اعظم آرڈرن نے دکھایا کہ دہشت گردی کے شکار لوگوں کو کس طرح سہارا دیا جاتا ہے۔ کس طرح شیطان کو الگ تھلگ کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کو نیوزی لینڈ کے اس جواب نے امریکا سے ہندوستان تک سب کو شرمندہ کردیا۔ بات صرف مغرب یا مشرق کی نہیں یہ عالم اسلام کے لئے بھی ایک مثال ہے، ایک سبق ہے۔ کسی کے لئے طمانچہ ہے اور کسی کے لئے مشعل۔ یہ دنیا کے ہاتھ میں ہے کہ وہ نیوزی لینڈ کے دہشت گردی کے خلاف ’اتحاد‘ کو ایک مثال مانتی ہے یا نہیں۔

بات صرف مسلمانوں اور حکومت تک محدود نہیں رہی تھی۔ مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے نیوزی لینڈ کے متعدد اخبارات نے اپنے صفحہ اول پر مساجد حملے کے شہدا اور مسلمانوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ پورا صفحہ ان کے نام کیا، اسی طرح تاریخ میں پہلی خواتین نیوز کاسٹرز حجاب میں نظر آئیں اور مسلمان خواتین سے اظہار یکجہتی کرتی دکھائی دیں۔ لیڈی پولیس افسران نے بھی پہلی بار حجاب پہن کر ڈیوٹی سر انجام دی۔ اس کو کہتے ہیں صف بندی۔ ایسی صف بندی جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ نیوزی لینڈ کی تاریخ کی بدترین دہشت گردی کے بعد جو ہوا وہ دہشت گردی کے خلاف خود ساختہ جنگوں کے منھ پر طمانچہ ہے۔ نیوزی لینڈ نے دنیا کو دکھایا کہ ہتھیاروں کے بغیردہشت گردی کے خلاف جنگ کیسے لڑی جاتی ہے؟ ضروری نہیں کہ دہشت گردی کو اسی کی زبان میں ختم کیا جائے۔ کسی سے لڑنے کے لئے اس سطح پر اترنے کی ضرورت نہیں جسے مہذب دنیا تسلیم نہیں کرتی ہے۔ ہم اپنے معیار اور وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بھی جنگ جیت سکتے ہیں۔ ہم اپنی زبان میں جوا ب دے سکتے ہیں جو زیادہ اثر دار ہوسکتا ہے۔ نیوزی لینڈ نے ایسا ہی کچھ کر دکھایا۔ ایک فیصد مسلمانوں کے لئے پورا ملک ایسے متحد ہوا گویا ماتم گھر گھر ہو۔ اس کا سلسلہ وزیر اعظم آرڈرن کی روز اول کی بھاگ دوڑ سے شروع ہوا۔ وہ کسی پردے کے پیچھے نہیں چھپی، انہوں نے خاموشی نہیں اختیار کی۔ وہ ایک قائد کی حیثیت سے آگے آئیں اور ہر سچ تسلیم کیا اور ہر حقیقت ملک کے سامنے پیش کی۔

حملے کو دہشت گردی کہا۔ اس کو دہشت گردی نہ کہنے والے امریکی صدر ڈوملڈ ٹرمپ کو آئینہ دکھایا۔ اس کے بعد جو اقدام کیے انہوں نے وزیر اعظم آرڈرن کو ”وشو ماتا“ بنا دیا۔ وہ سیاہ لباس میں سر ڈھک کر اجتماع میں شریک ہوئیں، متاثرہ خاندان کے لوگوں کو گلے لگایا۔ قرآن پاک کی تلاوت سے پارلیمنٹ کے اجلاس کا آغازہوا۔ وزیراعظم آرڈرن تقریر کا آغاز میں اسلام علیکم کہا۔ یہ پیغام بھی دیا کہ دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں اور یہ دہشت گردی نیوزی لینڈ کی عکاسی نہیں۔ کابینہ نے اسلحہ قوانین میں تبدیلی کا اعلان کیا اور آٹو میٹک ہتھیاروں پر پابندی عائد کردی۔ تدفین کا ذمہ لیا۔

متاثرہ خاندانوں کی مالی امداد کا اعلان کیا گیا۔ کرائسٹ چرچ کے گرجا گھرمیں خصوصی دعائیہ تقریب منعقد کی گئی تواظہار یکجہتی کے لئے یہودیوں کی عبادت گاہیں پہلی بار بند ہوئیں۔ ہزاروں غیر مسلم خواتین نے اپنے سروں کو اسکارف سے ڈھکے رکھا۔ کینٹ بری کرائسٹ چرچ یونیورسٹی میں اذان کی آواز سنتے ہی سینکڑوں طلبہ ایک جگہ جمع ہوگئے۔ لوگ مساجد کے باہر آکھڑے ہوئے کہ آپ نماز ادا کریں ہم آپ کی حفاظت کریں گے۔ نیوزی لینڈ کے مشہور ”بائکرز گینگ“ سامنے آئے اور ہر جمعہ کو مساجد کے باہر پہرہ دینے کا اعلان کیا۔

سڑکوں پر روایتی ”ہاکا“ ڈانس کیا گیا جو ایک قبائلی رقص ہے جس میں کسی ناخوشگوار واقعہ پر ناراضگی اور بیزاری کے ساتھ غم وغصہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ کرائسٹ چرچ میں چرچ کے باہر سفید جوتوں کے 50 جوڑے رکھ کر مساجد میں فائرنگ کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ چرچ کے پادری کا کہنا تھا کہ ’ایک روایت سے متعلق ہمیں یہ معلوم ہے کہ عبادت گاہوں میں جوتے اتار کر جاتے ہیں اور اسی بات سے یہ خیال آیا کہ مساجد میں شہید ہونے والے 50 افراد کے جوتوں کے جوڑے اب کبھی استعمال نہیں ہوں گے۔ ان سب اقدام خواہ سرکاری ہوں یا عوامی ان کا پیغام یہی تھا کہ‘ نفرت نہیں جیت سکتی ’۔

آج دنیا کہہ رہی ہے نیوزی لینڈ جیسا کوئی نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی اگر یا مگر نہیں۔ یہ ہے ’سب کا ساتھ اور سب کا وکاس‘ کا نمونہ یا مثال۔ ہم جی رہے ہیں نعروں کی دنیا میں۔ ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ ہم دہشت گرد کو ’الگ تھلگ‘ نہیں کرتے بلکہ ان میں ’ہیرو‘ تلاش کرتے ہیں۔ انہیں ہیرو بناتے ہیں، انہیں پھولوں سے لاد تے ہیں۔ کندھوں پر بیٹھاتے ہیں۔ ان کی ’جھانکی‘ نکالتے ہیں۔ ان کی آزادی کے لئے جلوس نکالتے ہیں۔

فرقہ واریت کی بنیاد پر انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور سما ج میں فرقہ واریت کا زہر ’پرشاد‘ کے طور پر باٹنے کو ہی ’دھرم‘ اور ’دیش بھکتی‘ مانتے ہیں۔ ایمانداری کی یہ انتہا ہے نیوزی لینڈ میں دہشت گردانہ حملے کے خلاف ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کا ”ٹیوٹر“ اکاونٹ گونگا ہوجاتا ہے۔ ان کے پاس مذمت کے الفاظ ہی نہیں تھے شاید اس لئے انہوں نے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم آرڈران کو ”بند لفافہ ’میں تعزیت بھیج دی۔

یہ ہے سوچ کا فرق۔ جو کچھ کرے یا نہ کرے کسی بھی انسان کو کم سے کم ننگا تو ضرور کر دیتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ یہ ہندوستان کا احساس کمتری ہو جو مودی کھل کر نمازیوں ے قتل عام کو دہشت گردی نہیں کہہ سکے کیونکہ ہماری تہذیب دنیا میں کچھ اور تصویر پیش کرتی ہے۔ ہم قاتلوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ جموں کے آصفہ کیس اس کی مثال ہے جس کے لئے جموں میں ترنگے لہرائے گئے ایک زانی اور قاتل کو صرف اس لئے ہیرو بنا دیا گیا کہ ظلم کا شکار بننے والی مسلمان لڑکی تھی؟

راجستھان میں ایک مسلمان شخص کو ”لو جہاد ’کے نام پر زندہ جلانے والے کا کیا ہوا؟ رام نومی کی جھانکی میں‘ ہیرو ’بناکر پیش کیا گیا۔ جو جیل سے ویڈیو پیغام بھیج رہا تھا اور اپنے‘ جرم ’کو قابل فخر قرار دے رہا تھا۔ سڑک پر ایک مسلمان کو سر عام پیٹ پیٹ کر ہلاک کرنے والے جب ضمانت پر رہا ہوتے ہیں توہمارے ہندوستان میں وزیر ان کی گل پوشی کرتے ہیں۔ اگر مودی جی نے اس دہشت گردی کی کھل کر مذمت نہیں کی تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوگی کہ انہیں معلوم ہوگا کہ ایک دن بعد“ سمجھوتہ اکسپریس دھماکہ ”کے تما م ملزمین کی رہائی کی“ تاریخ ”مرتب ہونے والی ہے۔ کل مذمت کرتے تو آج ان سے دنیا سوال کر سکتی تھی کہ‘ کیا یہ ہاتھی کے دانتوں کا معاملہ ہے جو کھانے کے کچھ اور دکھانے کے کچھ اور ہوتے ہیں۔ ’لیڈر ایسے نہیں ہوتے۔ لیڈر آرڈرن جیسے ہوتے ہیں۔

ہم دنیا کے لئے نیوزی لینڈ کو مثال قرار دے رہے ہیں اور عالم اسلام بھی اس دنیا کا ہی حصہ ہے۔ جو نیوزی لینڈ میں ہورہا ہے اور جس انداز میں ہو رہا ہے اس کی سب سراہنا کررہے ہیں مگر کیا صرف لفظی جمع خرچ ہی مسئلہ کا حل ہے۔ پاکستان ہو، افغانستان، اردن ہوں، شام، عراق ہو یا لیبیا، الجزائر، یمن ہو یا پھر سوڈان۔ ان ممالک میں جب کسی چرچ کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کیا کبھی ایسا ہوا جو نیوزی لینڈ میں ہورہا ہے۔ کسی ملک کے قائد نے ایسا کردار ادا کیا جو وزیر اعظم آرڈرن نے نبھایا ہے۔

کسی بھی ملک میں کوئی مسلم قائد باہر نکلا؟ کسی نے دہشت گردی کے خلاف ملک کو متحد کیا؟ اپنے ملک میں اقلیتوں کو تحفظ کا احساس دلانے کے لئے عوام کو سڑکوں پر لاکر ’چرچ کے گھنٹے ”بجانے کی ہمت کی؟ دہشت گردکے ساتھ اس کی سوچ پر منوں مٹی ڈالنے کا حوصلہ دکھایا۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکا اور نہ کبھی ہوگا۔ سب اپنا اپنا الو سیدھا کررہے ہیں۔ کوئی دہشت گردی کے لئے ایران پر انگلی اٹھا دیتا ہے اور کوئی سعودی عرب پر۔ کوئی افغانستان پر تو کوئی پاکستان پر۔

کوئی اپنی آستینوں میں پل رہے سانپوں سے خوف زدہ نہیں بس واعظ دے کر خود کو عالم اسلام کا امام ثابت کررہا ہے۔ کیا یہ شرمناک نہیں کہ جب نیوزی لینڈ میں مسلمانوں اور مساجد کے لئے لوگ سڑکوں پر ہیں تو پاکستان میں ایک چرچ کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اپنی ہم منصب آرڈرن کو ان کے اقدام پر مبارک باد دینے کے لئے فون کیا تھا تو پہلے چرچ میں آگ زنی کے لئے معافی مانگتے۔ کہتے کہ ہم شرمندہ ہیں اب ایسا واقعہ نہیں ہونے دیں گے۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور نہ ہوگا کیونکہ ہم بونے ہیں، صرف لمبی چوڑی باتوں کے ماہر ہیں۔ جو کام نیوزی لینڈ نے آرڈرن کی قیادت میں کر دکھایا ہے وہ انسانیت ہے اور شایداسی لئے ہماری پہنچ سے باہر بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).