پروفیسر خالد حمید کے قاتل کی وڈیو: چند نفسیاتی زاویے


صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں 20 مارچ کو شعبہ انگریزی کے استاد پروفیسر خالد حمید کے قتل کی لرزہ خیز واردات کے بعد ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں قاتل جائے وقوعہ کے قریب ہی ایک کرسی پر بیٹھا اپنے اقدام کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ اس ویڈیو کے بارے میں چند معروضات پیش ہیں۔ پہلے اس ویڈیو کا ٹرانسکرپٹ ملاحظہ کیجئیے!

پوچھنے والا:۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہے؟

قاتل : اسلام کے خلاف بہت زیادہ بھونکتا تھا یہ۔

پوچھنے والا : کب بولے ہیں وہ؟

قاتل : روز بولتا تھا !

پوچھنے والا: کیا کرتا تھا ؟

قاتل : روز بولتا تھا!

ایک اور آواز : کیا کرتا تھا؟

قاتل : اسلام کے خلاف بولتے تھے!

پوچھنے والا : کیسے مارا ہے آپ نے؟

قاتل : چھری کی ساتھ ۔

پوچھنے والا : کہاں کلاس میں؟

قاتل : (اشارہ کرتے ہوئے) ادھر!

پوچھنے والا : نام کیا ہے آپ کا ؟

قاتل : خطیب حسین

پوچھنے والا : کون سی کلاس میں پڑھتے ہو ؟

قاتل : پانچویں سمسٹر میں ہوں !

پوچھنے والا : ان کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔ پتا ہے آپ کو ؟

قاتل : اچھی بات ہے ۔ ( پھر سمجھا کر ) اچھی بات ہے ۔

پوچھنے والا : کیا بولتا تھا؟

قاتل : روز بولتا تھا!

پوچھنے والا : کیا بولتا تھا؟

قاتل : بہت زیادہ توہین کرتا تھا۔

پوچھنے والا : آپ اساتذہ کو بتاتے، یہاں ادارے موجود ہیں، قانون موجود ہے ملک میں !

قاتل : قانون کون سا ؟ قانون تو گستاخوں کو رہا کر رہا ہے۔۔۔۔ قانون کو کون پوچھتا ہے ۔

پوچھنے والا : نام کیا ہے آپ کا؟

قاتل : خطیب حسین ۔

پوچھنے والا : مطمئن ہیں کہ آپ کے ٹیچر کی ڈیتھ ہو گئی ہے؟

قاتل : بالکل مطمئن ہوں۔ اللّٰہ کا شکر ہے ۔

پچھلے دو دن میں یہ ویڈیو بیسیوں بار دیکھ چکا ہوں۔ میں ماہر نفسیات نہیں ہوں لیکن مجھے اس ویڈیو کے ذریعے قاتل کے چند تاثرات اور جملوں کے پس منظر میں کارفرما اس کے جذبات واحساسات کے کئی ایسے نکات واضح نظر آتے ہیں جنہیں کوئی بھی ذی شعور بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔

میری دانست میں یہ طالب علم جس نے ارادتاً اور عمداً یہ قتل کیا ہے، قتل سے پہلے یہ طے کر چکا تھا کہ میں قتل کی وجہ صرف یہی بتاؤں گا۔ وہ پہلی بار کہتا ہے کہ “اسلام کہ خلاف بہت بھونکتا تھا یہ” دوسری بار کہتا ہے “بولتا تھا” تیسری بار کہتا ہے “بولتے تھے” ۔ لہجے اور لفظوں کی یہ تبدیلی اس بات کی غماز ہے کہ پہلا جملہ اس نے سوچ سمجھ کر منصوبے کے مطابق بولا ہے ۔ اور پھر تیسرے جملے میں لفظوں کی تبدیلی مرحوم پروفیسر صاحب کے مقام و مرتبے کا وہ پوشیدہ اظہار ہے جس سے قاتل خود بھی اندر سے آگاہ ہے۔

جب قاتل یہ کہتا ہے کہ اسلام کے خلاف بولتے تھے تو وہ دائیں طرف نہیں بلکہ سامنے کھڑے کسی آدمی کو دیکھ کر بولتا ہے، لیکن اسے دیکھ کر یہ جملہ کہتے ہوئے اس سے نظریں نہیں ملا پاتا کہ شاید وہ فرد، قاتل اور مرحوم پروفیسر صاحب دونوں کو جانتا ہے۔

قاتل سے چار پانچ بار پوچھا گیا ہے کہ کیا بولتا تھا وہ ؟ کیا کہتا تھا وہ۔۔۔ وہ جواب دیتا ہے روز بولتا تھا! ہر روز بولتا تھا، بہت بولتا تھا، بہت زیادہ توہین کرتا تھا۔ یعنی مرحوم نے کب کہاں اور کیا توہین کی، کیا بولا؟ اس کے بارے میں قاتل کچھ نہیں کہہ سکتا۔ نہ کوئی ایسا جملہ جس میں اسلام کے خلاف کوئی بات ہو، نہ کوئی ایسا لفظ جو توہین آمیز ہو! بس یہ کہ روز بولتا تھا، بہت بولتا تھا۔۔۔۔

پوچھنا چاہیئے تھا کہ ساٹھ ستر طلبہ وطالبات کی کلاس میں کیا مرحوم صرف تمہاری بے حیا آنکھوں کے سامنے اور بدلحاظ کانوں میں اسلام کے خلاف کوئی توہین کر کے خاموش ہو جاتے تھے یا تمہارے ساتھ پڑھنے والے تمام لوگ یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ ہیں جو روز کی گئی یہ بہت زیادہ توہین ہمیشہ سنتے رہے اور کوئی کبھی کچھ نہیں بولا؟

ویڈیو میں قاتل جب بار بار یہ کہتا ہے بہت توہین کرتا تھا تو تین چار بار اپنے ہونٹ چباتا ہے۔ مجھے اس کا یہ انداز محض جھوٹ بولنے کے بعد اسے سنبھال نہ پانے کے تاثر کے سوا اور کچھ نہیں لگا۔

اپنا نام بتاتے ہوئے جھومنے کے انداز میں سیدھا ہو کر بیٹھنا ۔ آخر میں اللّٰہ کا شکر ہے کہتے ہوئے اپنے لہجے میں اعتماد لے کر آنا کے اشارے ثابت کرتے ہیں کہ قاتل یہ سمجھ رہا ہے کہ اب وہ ہیرو بننے والا ہے۔ یہ نام اور جملے اسے ہیرو بنا دیں گے ۔

اگرچہ کہنے کو یہ نکات چھوٹے چھوٹے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر یہی ویڈیو کسے اچھے ماہر نفسیات نے دیکھی ہو تو وہ قاتل کی تحلیل نفسی سے اس قتل کی مزید کئی گتھیاں سلجھا سکتا ہے۔

بشکریہ: گردوپیش – ملتان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).