اور اب لبریشن فرنٹ پر بھی پابندی


جماعت اسلامی کے بعد جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کی سیاسی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔ بھارتی سرکار رفتہ رفتہ دیگر سیاسی جماعتوں اورلیڈروں کے گرد بھی شکنجہ کس رہی ہے۔ سیّد علی گیلانی اور میرواعظ عمر فاروق بھی مسلسل زیر عتاب ہیں۔

ریاستی اسمبلی تحلیل کرکے گورنر راج نافذ کردیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی بائیس برس قبل عسکریت سے لاتعلقی کا اعلان کرچکی ہے۔باوجود اس کے جماعت اسلامی کے دو سو سے زائد لیڈر اور کارکن زیر حراست ہیں ۔ ان کے تعلیمی ادارے بند اور پارٹی کے دفاتر سیل دیے گئے ۔

جناب یاسین ملک کی لیڈرشپ میں لبریشن فرنٹ نے حالیہ برسوں میں جموں وکشمیر کی سیاست اور مزاحمت کو پرامن تحریک کا رنگ دینے اور عسکریت کے بجائے سیاسی جدوجہد پر متحارب نوجوانوں کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ کشمیریوں کا نقطہ نظر بھارت کے اندر دانشوروں اور صحافیوں تک پہنچانے کی انہوں نے بھرپور کوشش کی۔

انسانی حقوق کے ممتاز بھارتی علمبرداروں کو کشمیر کی طرف متوجہ کیا۔ یاسین ملک ایک عسکری مزاحمت کار تھے ۔ 1994ء میں جیل سے رہائی کے بعد ان کی پارٹی نے عسکریت کے بجائے سیاسی جدوجہد کرنے کا اعلان کیا۔ تنقیدہی نہیں ہوئی بلکہ تبرہ بازی کی گئی۔

پارٹی ٹوٹ گئی۔ طعنہ دیا گیا کہ وہ کشمیر کے گاندھی بننا چاہتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا کی سیاست کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے فیصلے اور نقطہ نظر پر پورے قد کے ساتھ کھڑے رہے۔ عوام کو متحرک کرنے کے لیے انہوں نے دو زبردست عوامی مہمات چلائیں۔اٹھارہ ماہ تک مسلسل جلسے جلوس کیے اور پندرہ لاکھ لوگوں سے ایک دستاویز پر دستخط لیے جس میں لکھا کہ عوام کی مرضی کے بغیر کشمیر کا کوئی فیصلہ قبول نہیں کیاجاسکتا۔

صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے مابین ان دنوں کشمیر پر خفیہ مذاکرات میں زبردست پیش رفت کی اطلاعات عام تھیں۔لاکھوں شہریوں کے دستخطوں کے ہمراہ وہ اسلام آباد تشریف لائے۔ شہرکے پانچ ستارہ ہوٹل میں ایک نمائش کا اہتمام کیا۔

بعدازاں انہوں نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو بھی یہ دستاویز پیش کی۔ سفر آزادی کے نام سے چھ ہزار کے لگ بھگ گاؤں اور قصبات کا دورہ کیا ۔ اس دورے کی ویڈیو اور تصاویر کی نمائشاسلام آباد کی نیشنل آرٹ گیلری میں کی ۔ ہزاروں ممتاز پاکستانیوں نے ان کی سیاسی سرگرمیوں کا مشاہدہ کیا اور داد دی۔

پاکستان کے سیاستدانوں، صحافیوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کے ساتھ گہرے مراسم استوار کیے۔اسلام آباد کے ایک گھرانے میں ان کی شادی ہوئی۔ آمد ورفت کا سلسلہ اور بڑھ گیا۔نو فروری2013ء کو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی کہ بھارتی پارلیمنٹ پر حملے میں ملوث افضل گرو کو دہلی کے تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔

یاسین ملک نے اسلام آباد پریس کلب کے سبزازار پر بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا۔ رفتہ رفتہ دوست احباب جمع ہوتے گئے۔سرشام سینئر صحافی، دانشور، سیاستدان اور سینکڑوں لوگوں ایک چھت تلے یاسین ملک کے اردگرد جمع ہوچکے تھے۔ دوسرے دن یاسین ملک کی طبیعت ناساز ہوگئی ۔ان کا بلڈ پریشر قابو نہیں آرہاتھا۔ مدت سے وہ دل اور گردے کی بیماری کا شکارہیں لیکن جنون انہیں چین سے بیٹھنے نہیں  دیتا۔

رات گئے جنرل حمید گل مرحوم بھوک ہڑتالی کیمپ میں تشریف لے آئے۔ جنرل حمید گل بہت ہی یک رخے اور افغان جہاد کے دونوں کی یاد میں قیدشخصیت تھے۔ اصرار کرتے رہے کہ اگلے دن دفاع پاکستان کے جلسے میں یاسین ملک خطاب کریں۔ یاسین ملک ٹال گئے۔ ان کی شناخت ایک قومی پرست ا ورلبرل سیاستدان کی تھی جسے وہ قائم رکھنا چاہتے تھے۔

اگلے دن اتوار کو اگرچہ موسم سرد تھا لیکن دھوپ نکلی تو پریس کلب اسلام آباد کا نظارہ بہت دلکش ہوگیا۔دس گیارہ بجے سے لوگ یاسین ملک سے اظہار یکجہتی کے لیے جوق درجوق کیمپ آنے لگے۔اچانک ہڑتالی کیمپ میں حافظ محمد سعیدکی آمد کا غلغلہ برپا ہوا۔ لاؤ لشکر کے ہمراہ وہ دیر تک یاسین ملک کے دائیں طرف کرسی لگا کر بیٹھے رہے۔

دونوں کے مابین کوئی خاص گفتگو نہ ہوئی۔ سہ پہر سیّد صلاح الدین بھی پہنچ گئے۔ وزیراعظم آزادکشمیر چودھری عبدالمجید بھی تشریف لے آئے۔ بھارتی میڈیا میں شام تک کہرام مچ چکا تھا۔ سخت گیر موقف رکھنے والی جماعتوں اور ٹی وی میزبانوں نے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ یاسین ملک کا پاسپوٹ ضبط کریں۔ انہیں پابندسلاسل کریں ۔

لبریشن فرنٹ کے ترجمان ضاحتیں کرتے رہے کہ حافظ سعید بن بلائے مہمان تھے ۔ ان کی سنی ان سنی کردی گئی۔ دہلی واپسی پر یاسین ملک کا پاسپوٹ ضبط کرلیاگیا۔وہ سری نگر چلے گئے اور اس کے بعدانہوں نے دہلی جانا عمومی طور پر ترک کردیا۔بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدار آئی تو کشمیریوں پر جبرتشدد کا سلسلہ دراز ہوتاگیا۔

ریاستی شناخت کو آئینی طور پر ختم کرنے اور آبادی کا تناسب بگاڑنے کے علاوہ کئی ایک اسٹریکچرل تبدیلیاں لانے کی کوشش کی گئی۔ یاسین ملک کا موقف اور نقطہ نظر روز بہ روز عوامی امنگوں سے ہم آہنگ ہوتاگیا۔بھارت کی سول سوسائٹی کے ساتھ بھی تال میل ٹوٹتاگیا ۔

کلدیپ نائر جیسے سکہ بند صحافی نے شکوہ کیا کہ یاسین ملک نے ان سے ملنے سے انکار کردیا۔ برھان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی پارلیمنٹ کا وفد سری نگر آیا تو آزادی پسند لیڈروں سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ یاسین ملک سد راہ بن گئے۔ رفتہ رفتہ وہ سیّد علی گیلانی کے نقطہ نظر کے قریب ہوتے گئے۔

دونوں کے درمیان پائی جانے والی سردمہری گرمجوشی میں تبدیل ہوگئی۔ ایک نیا اتحاد ’’مشترکہ مزاحمتی قیادت‘‘کے نام سے تشکیل پایا۔ میرواعظ عمر فاروق بھی ہمرکاب ہوگئے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران تمام اہم امور پر فیصلے اسی فورم نے کیے۔ یاسین ملک نے مختصر مدت میں بھارت اور پاکستان کی سول سوسائٹی اور فعال طبقات میں ایک اعتدال پسند اور لبرل لیڈر کا مقام بنایاتھا۔

وہ برملا کہا کرتے کہ ریاست کے کشمیری مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے تحفظات پیش نظر رکھنے کے لیے تیار ہیں۔ افسوس! طاقت کے گھمنڈ اور غیر سیاسی فیصلوں نے ایک اعتدال پسند اور امن کی آواز کو نہ صرف دوبارہ سخت گیر موقف اپنانے پر مجبور کیا ۔ وہ اب حوالہ زندان ہوچکے ۔

لبریشن فرنت پر پابندی عائد کردی گئی۔پرامن سیاسی مزاحمت کی آواز کو خاموش کرادیا گیاہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی نظریات کا مقابلہ جیلوں کے دروازے کھولنے ، زبان بندی اور سیاسی سرگرمیوں پر قدغنیں عائد کرنے سے نہیں کیاجاسکتا بلکہ مسلسل مذاکرات کے ذریعے ہی مفاہمت کا باب رقم کیا جاسکتاہے۔

امریکہ اگر طالبان کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ سکتاہے تو بھارتی سرکار حقیقت سے آنکھیں کیوں چرا رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور کشمیر کا تنازعہ حل کرنے کا راستہ تشدد نہیں بلکہ مخلصانہ مذاکرات اور مفاہمت میں مضمر ہیں۔ دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ اس تلخ حقیقت کو مزید خون خرابہ کرائے بغیر تسلیم کرلیا جائے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood