جیسے اعمال ویسے حکمران


دہشگردوں کا کوئی مذہب نہیں، دہشتگردوں کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے وہ نہ مسلمان ہوتے ہیں، نہ عیسائی، نہ ہندو بلکہ وہ اس سکون اور پیار کی فضا کے دشمن ہوتے ہیں جہاں انسان بستے ہیں۔ پاکستان میں والے تو ایک عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں، پاکستان کا تقریباً ہر شہر ہی دہشت گردی کا نشانہ بن چکا ہے۔ دنیا بھر میں بھی دہشت گردوں کا جہاں بس چلتا ہے اپنا ہاتھ دکھا دیتے ہیں۔ اس وقت حالیہ دہشت گردی کا بڑا واقعہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں کی دو مساجد میں پیش آیا، جس میں پچاس سے زیادہ مسلمان ہلاک اور بہت بڑی تعداد میں شدید زخمی ہوئے۔

اس واقعہ کا ایک اہم جز وہاں کی حکومت اور عوام کا رویہ دیکھنے میں آیا اس نے دنیا بھر میں صبروضبط، محبت و روادری کی ایک مثال قائم کردی، ایک کردار جس نے سب کو متاثر کیا، وہ نازک سی خاتون جو آج ہر دل میں گھر بنا چکی ہے وہ ہے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جاسینڈا آرڈرن، ہمت، بہادری اور انسانیت کا جیتا جاگتاپیکر جس کے ہمدردانہ رویے نے مسلمانوں کے دل جیت لیے اس کی تازہ مثال وہ تصاویر ہیں جو وزیر اعظم آرڈرن کی مسلمانوں سے تعزیت کے وقت کی ہیں اس موقع پر انھوں نے سیاہ اسکارف زیب تن کیا ہوا تھا اور وہ مسلمانوں سے گلے مل کر تعزیت کررہی تھیں ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ انہی میں سے کوئی ہیں کیا کوئی حکمران اتنا ہمدرد اتنا سادہ اتنا مخلص ہوسکتا ہے۔ ایک مسلمان لڑکے نے تو انھیں اسلام کی دعوت بھی دے ڈالی۔

ہم چونکہ کسی سربراہ مملکت کو اس روپ میں دیکھنے کے عادی نہیں، ہمارے ہاں تو حکمران عنان ِ حکومت سنبھالتے ہی فرعونیت کا رویہ اپنالیتے ہیں، چاہے دہشت گردی کا جتنا بڑا واقعہ ہوجائے، آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی شہادت سے لے کر ساہیوال واقعے تک، بیان بازی ہوتی ہے، دہشت گردوں اور قاتلوں کو پکڑنے کے بیان داغے جاتے ہیں، جے آئی ٹی بنانے کا اعلان ہوتا ہے، دہشت گردوں کی کمر توڑنے کی نوید دی جاتی ہے شومئی قسمت سے کیس درج ہو جائے تو تاریخ پہ تاریخ لواحقین کو نڈھال کردیتی ہے۔ نتجہ کچھ ہاتھ نہیں آتا وقت کا زیاں الگ اور بے عزتی الگ۔

اس حدیث کے مفہوم کی روشنی میں موازنہ کیا جائے تو فیصلہ کرنا آسان ہوگا۔ ”بے شک تمھارے اعمال تم پر حاکم بنائے جاتے ہیں اور جیسے تم ہوگے ویسے ہی تم پر حاکم مسلط کیے جائیں گے“

ہم اپنے اوپر نظر ڈالیں تو خود ہی سمجھ جائیں گے کیونکہ کون سی برائی ہے جو ہم میں نہیں، کاروبار میں چور بازاری، ملاوٹ، جھوٹ، وعدہ خلافی، اخلاقی معیار میں تو ہم سب سے نچلے درجے پہ ہیں، اسلامی شدت پسندی نے ہمیں مفرور اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا سرٹیفکیٹ دے دیا ہے، ہم غیر مذہب غیر فرقے کو بالکل برداشت نہیں کرسکتے، ایک دوسرے کے جانی دشمن، کہیں کوئی حادثہ ہوجائے تو آنکھ بچا کر نکل لیتے ہیں، کوئی مر جائے تو مرنے والے کی ذات، مذہب فرقہ پہلے پوچھا جاتا ہے، کسی پہ بھی توہین ِ مذہب کا الزام لگا کر جان سے مار دینا تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ادب احترام، لحاظ شرم کچھ باقی نہیں۔

ایسے میں نیوزی لینڈ کے عوام کا مسلمانوں سے محبت بھرا سلوک، تپتی دوپہر میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوا، ہم جیسے حساس دل لوگ تو حیران ہیں کہ ایسے لوگ بھی اسی خطہ زمین پر رہتے ہیں۔ جہاں ہمارا ایمان گرجا گھر، مندر میں قدم رکھنے سے ڈگمگا جاتا ہے وہیں نیوزی لینڈ کے عوام نے مسجدوں میں خود کھڑے ہوکر حفاظتی باڑ بنائی کہ مسلمان نماز پڑھ سکیں۔ اس حادثے میں متاثر مسلمانوں کو ہر طرح کا تحفظ دیا، کھانے پینے کا انتظام، علاج معالجے کی سہولت، کہاں ان کی عوام نے اپنا کردار ادا نہیں کیا، بے ساختہ لبوں پہ آگیاکہ یہ ہوتی ہے قوم اور واقعی اللہ نے ویسی ہی حکمراں انھیں دی۔

مختصراً یہ کہ ہم بہ حیثیت قوم جیسے ہیں تو ہم پر ویسے ہی حکمراں مسلط کیے گئے ہیں، کاش ہم اس قوم سے کچھ سیکھیں تو شاید ہم پر حکمران بھی بہترین مسلط کیے جائیں۔ ان غیر مسلموں نے ہمیں انسانیت، رواداری، خلوص، محبت کا سبق پڑھا دیا جبکہ ہم ان اقدار کو بحیثیت مسلمان اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).