کیا پلے کارڈز کی وجہ سے عورت مارچ کی شاندار کامیابی سے بھی انکار کر دیں؟


8 مارچ کو یومِ خواتین پر ملک کے کئی شہروں میں نکلنے والے عورت مارچ میں شامل کچھ خواتین کے ہاتھوں میں اٹھائے گئے پلے کارڈز پر جس شدت سے ردعمل آیا اور جس قسم کے جوابات آئے اس نے ماحول میں ایک تلخی پیدا کردی، اب جبکہ اس تلخی کی دھول کسی حد تک چھٹ چکی ہے تو میں اپنی رائے دینے کی جسارت کر رہا ہوں۔

ایسا نہیں ہے کہ میری رائے اس وقت مختلف تھی مگر جو ماحول بنا، اس میں بات کرنا کوے کی کائیں کائیں سے مشابہہ ہوجاتی، گوکہ ان دنوں ہی کافی خواتین اور مردوں نے بہت ہی معقول باتیں بھی کیں، تاہم دونوں طرف سے جذباتی طور پر کی گئی باتوں نے فضا کو آلودہ کردیا۔

وہ پلے کارڈز جن کو ایک طرف سے نازیبا کہا گیا تو دوسری طرف سے ان کی جسٹیفکیشنز دی گئیں، میں سمجھتا ہوں دونوں ہی انتہائیں تھیں، مگر ہمیں ان کی تہہ تک جانے کے لئے اس انتہا پسندی کو چھوڑ کر عقلی بنیاد پر بات کرنی ہوگی۔

9 مارچ کو جب میں آفس پنہچا تو ایک ہی بحث چھڑی ہوئی تھی کہ مارچ میں شامل خواتین نے اس قسم کے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے، میری رائے اس وقت یہ تھی کہ کچھ مجاہدین نے فوٹو شاپ سے ایسا طوفان کھڑا کیا ہوگا، حقیقت میں ایسا نہیں ہوگا۔ میں نے یہ اس لئے کہا کیونکہ میں پورے ملک اور خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد میں نکلنے والے عورت مارچ کی کامیابی سے کافی حد تک مطمئن تھا، کیونکہ کچھ بھی ہو بھرحال خواتین نے اپنے حقوق اور آزادی کے لئے بہت موثر پاور شو کیا تھا، جس کو تاریخ میں بھی ایک جگہ ملے گی۔ اس سے بھی بڑی بات کہ مارچ کی قیادت ایسی خواتین نے کی تھی جن کے فہم و فراست پر کم از کم مجھے تو یقین تھا۔

اس دن بھی مجھے ایک تو پلے کارڈز کو لے کر عورت مارچ پر تنقید کرنے والی ذہنیت پر اعتراض تھا کہ کسی ایسی سرگرمی کو محض اس بنیاد پر منفی انداز میں کیسے پیش کیا جاسکتا ہے کہ سینکڑوں خواتین (اگر ملک کی بات کریں تو بلاشبہ ہزاروں خواتین) میں سے محض چند کارڈز ایسے نظر آئے جن سے آپ اتفاق نہیں کرتے۔

میں برملا کہتا ہوں کہ ان کارڈزکو مارچ میں لانے اور ان پر لکھی کچھ عبارات سے مجھے بھی اتفاق نہیں لیکن کیا ہم اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کی اتنی سی بھی ہمت نہیں رکھتے؟ کیا جو عورت آج اس نہج پر پنہچی ہے، اس نے ہم جیسے مرد کے اس سے بھی کئی گنا غلیظ رویے برداشت نہیں کیے؟ اب ان خواتین میں سے اگر کسی نے اپنی بھڑاس اس انداز میں نکالی ہے تو چاہیے تھا کہ تحمل سے برداشت کرلیتے۔ مگر نہیں۔

سب سے پہلے اس ذہنی کیفیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس میں اس قسم کے پلے کارڈز بنوائے گئے اور مارچ میں لائے گئے۔ دیکھئے ہر عمل کا ردعمل فطری بات ہے۔ اس مارچ میں شامل خواتین کے شاید اپنے لئے وہ مسائل اتنے پیچیدہ نہ ہوں مگر انہوں نے کسی نہ کسی عورت کو ان مشکلات کی دلدل میں پھنس کر سختیاں جھیلتے ضرور دیکھا ہوگا۔

جس طرح کشور ناہید نے کہا تھا کہ ’مجھے شلوار کھجاتا ہوا مرد بہت برا لگتا ہے‘ تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس قسم کی صورتحال سے وہ خود نمٹتی ہوں گی، درحقیقت ان کی بات مرد کے ایک منفی رویے کے خلاف احتجاج تھا۔ میں پوچھتا ہوں کہ کتنے ذی شعور مرد اس رویے کو درست سمجھتے ہوں گے؟

جو عورت پلے کارڈ پر لکھ کر لائی کہ کھانا خود گرم کرو، اس کے گھر کا ماحول یقینی طور پر ایسا نہیں ہوگا کہ ان کے لئے کھانا گرم کرنا ہی کوئی مسئلہ ہو، مگر مجھے اندازہ ہے کہ اس نے کسی عورت کو کھانا گرم کرنے میں دیر کرنے پر مرد کی زیادتی برداشت کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ (ستمبر 2017 میں کھانا گرم نہ کرنے پر پاکپتن میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا تھا: مدیر) کیا مرد کے اس رویے کو جسٹیفائی کیا جاسکتا ہے؟

اگر کسی کے پلے کارڈ پر لکھا تھا کہ لو بیٹھ گئی یا آج تو ماں بہن ایک ہوگئی تو اس قسم کے ذومعنی جملوں کا درد بھی سمجھنا چاہیے تھا اور اس کا مطلب بھی علامتی لینا چاہیے تھا۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ اس پلے کارڈ میں دنیا میں موجود تمام مردوں کو مخاطب کیا گیا تھا بلکہ سمجھنا چاہیے کہ ان کا مخاطب وہی مرد ہے جو اس قسم کی ذہنیت رکھتا ہے۔

کئی مرد ایسے بھی تھے کہ جن کی اس بات پر غیرت جاگی کہ ایک عورت نے یہ کیسے کہہ دیا کہ ’میرا جسم میری مرضی‘ ۔ ارے بھائی اس میں کون سی نئی بات ہے، کیا کسی بھی انسان کا اختیار اس کے جسم پر بھی نہیں ہونا چاہیے؟ کچھ دوستوں کی رائے تھی کہ بھلا عورتیں اس طرح نعرے لگاتی ہیں؟ ان دوستوں کی خدمت میں عرض (جوکہ نا مناسب ہے مگر اس کے علاوہ چارہ نہیں ) کہ بھائی آپ کیوں ہلکان ہو رہے ہیں جب ان کے شوہر، بھائی، والد یا گھر کے کسی بھی فرد کو کوئی اعتراض نہیں۔

یہ سب باتیں مردوں کو مخاطب کرکے لکھنے کا مقصد محض یہ ہے کہ ان کا ردعمل زیادہ تھا، لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس معاملے میں دوسری طرف سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔

میری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ اگر اس شاندار مارچ میں اس قسم کے پلے کارڈز نہ ہوتے تو عورت کی آزادی اور خود مختاری کے حصول کی جدوجہد کو زیادہ تقویت ملتی، ایسی عجلت نے خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنا دیا، اس سے بھی بڑی بات جس نے مجھے خاصا مایوس کیا، وہ تھا کچھ سمجھدار خواتین کا ان پلے کارڈز کے دفاع میں انتہائی سخت لب و لہجے میں جواب دینا، بلکہ کچھ خواتین تو اپنی حدود سے بھی تجاوز کر گئیں۔ کسی نے کہا کہ ہمیں یہ آپ نہ بتائیں کہ کیا درست ہے اور کیا غلط، بات اپ کی ٹھیک ہے مگر رائے دینے والے ہر شخص کو مخالف سمجھنا بھی نامناسب رویہ ہے، میری ناقص رائے یہ تھی کہ اس مرحلے پر خواتین ان پلے کارڈز کا دفاع نہ کرکے مزید بہترکردار ادا کرسکتی تھیں، جو موقع انہوں نے ایک حد تک گنوا دیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ جہاں عورت کو معاشرے کی روایات اور ثقافتی اقدار کی اہمیت کا احساس دلانا چاہیے وہیں مرد کو بھی مذکورہ بالا باتیں ذہن نشین کرانے کے ساتھ اپنی حدود سے تجاوز نہ کرنے کے لئے بھی آمادہ کرنا ہوگا۔

ہمیں ایک انسان دوست، ترقی پسند اور روشن خیال سماج کی تعمیر میں مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ضروری نہیں کہ ہم اپنی رائے کا اظہار ہر وقت کرتے رہیں، جبکہ سماج کو مزید پولرائزیشن سے بچانے کے لئے کچھ وقت کی خاموشی کے بعد اپنی بات موثر انداز میں پیش کرنا بھی ایک حکمت عملی ہو سکتی تھی۔ ہمیں حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے کہ جتنا ممکن ہو کے پلورلسٹک ایپروچ سے کام لے کر مقاصد کے حصول کی جدوجہد جاری رکھیں، یہی راستہ نسبتاّ آسان اور قابل عمل ہو سکتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).