لیاری کا گولہ جہاں علم و آگہی جرم ہے


\"aliمجھے  زندگی کا ایک بڑا عرصہ کراچی شہر کی گلیوں میں   گزارنے کے بعد اب پتہ چلا کہ لیاری  نام کی جگہ ایک الگ ہی گولہ ہے ۔   لیاری کا یہ گولہ  پرانے شہر کے پوش علاقے گارڈن اور صدر ، کاروباری علاقے  ٹاور ،بولٹن مارکیٹ اور  بندرگاہ  کے بیچ  واقع ہے   ۔ یوں تو یہاں  پاکستان کے ہر علاقے کے لوگ بستے ہیں لیکن اکثریت مکرانی بلوچوں کی   ہی ہے جو اپنے قد کاٹھ اور افریقی النسل رنگت کی وجہ سے سب سے الگ  لگتے ہیں ۔

 چاند گاڑی یہاں کے لوگوں کی پسندیدہ سواری رہی ہے جو اب بھی مقبول ہے ۔ چاند ان کے گدھے کا نام ہوتا ہے جس کے ساتھ دو پہیوں والی ریڑی  لگا دیں  تو یہ چاند گاڑی بن جاتی ہے۔  دن کو اس گاڑی پر بڑے سائز کی ریڑھی  باندھ کے مزدوری  اور شام کو ایک سجائی ہوئی گاڑی میں ایک گدا ڈال کر  ،   بچوں کے ساتھ عبداللہ شاہ غازی کو سلام  اور سمندر کے کنارے سیر کو  جاتے ہیں۔

یہاں گدھا گاڑیوں کی  دوڑ کے مقابلے بھی ہوتے ہیں  اور شرطیں بھی لگتی ہیں ۔  فٹ بال کے شوقین مکرانی جب گراؤنڈ میں اترتے ہیں تو مخالف ٹیم پر کالی آندھی کی طرح  ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ مختلف خلیجی ممالک کی ٹیموں میں کھیلنے والےلیاری کے  یہ ستارے اپنے ملک میں شازو نادر  ہی کسی قومی ٹیم میں جگہ پاتے ہیں  کیونکہ  یہ لوگ  فٹ بال پاؤں سے کم اور اپنے گھنگریالے بالوں  سے زیادہ کھیلتے ہیں اور یہ گُن ہر کھلاڑی میں تھوڑی ہوتے ہیں ۔

\"1267078\" اگر آپ لیاری میں گھوم پھر کر دیکھیں تو جگہ جگہ جوڈو کراٹے ، باکسنگ اور  تن سازی کے کلب نظر آئیں گے ۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کلب دراصل منشیات فروشی کو فروغ دیتے ہیں ۔ ۔  سیاسی طور پر اس علاقے کے لوگ پاکستان کی   مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں منقسم ہیں مگر اکثریت پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی سے  لیاری کی وابستگی اتنی مضبوط ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی بلوچستان میں فوج کشی جیسے اقدامات بھی لیاری کے بلوچوں کو بھٹو سے  متنفر نہ کرسکے۔انیس سو اسی کی دہائی میں  دو بڑی طلبہ تنظیموں کے قائدین  ( شاہ نواز شانی پیپلز سٹوڈنٹس ٖفیڈریشن  اورامیر خان چانڈیونیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن) بھی  لیاری کے بلوچ تھے  لیکن آج  یہ اپنی نظریاتی وابستگیوں  کے باوجودبسا ط سیاست پر  صرف تماشائی ہیں۔

لیاری میں جگہوں کے نام بھی ذرا ہٹ کر ہیں جیسا کہ پرانے گولیمار میں واقع  ایک باغ کا نام یہاں گٹر باغیچہ  ہے ۔  اس باغ  میں فٹ بال کے شوقین بلوچ لڑکے کھیلتے ہیں ۔ جب کراچی کی زمینوں پر چایٔنا کٹنگ کے نام پر مافیا نے قبضے شروع کیٔے تو گٹر باغیچہ بھی بچ نہ سکا ۔ ایک بلوچ وکیل نثار بلوچ نے یہ  باغ  بچانے کی مہم ایک غیر سرکاری تنظیم شہری کے ساتھ  مل کر  شروع کی۔ نثار اس کے علاوہ    نوجوانوں کو کمپیوٹر کی تعلیم کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو مختلف مہارتیں  سکھا رہے تھے تاکہ انہیں ملک کے دیگر شہریوں کی طرح تعلیم یافتہ اور با ہنر بنایا جاسکے۔  ایک ملاقات میں  انھوں نے بتایا کہ بلوچ نوجوانوں کو منشیات کی طرف راغب کیا جارہا ہے اور جرائم میں اضافہ ہورہا ہے اس لئے وہ نوجوانوں کو تعلیم اور ہنر کی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں ۔ ایک دن خبر ملی کہ نثار بلوچ کو قتل کیا گیا ہے۔

نثار بلوچ قتل کیوں نہ ہوتا ۔ اس نے لیاری کے گولے میں لوگوں کو علم و آگہی   دے کر گولے کا دستور جو توڑا تھا ۔\"2222\"

صبا دشتیاری کا تعلق بھی   لیاری سے ہی تھا ۔ اس  نے تن سازی کاکوئی کلب چلانے کے بجاۓ  24کتابیں  لکھیں اور    ملیر میں اپنے جیسے شخص ظہور شاہ ہاشمی  کے نام پر ریفرنس  لایٔبریری  اپنی تنخوا ہ سے بنارہے تھے ۔ بلو چستان یونیورسٹی میں اسلامیات کا یہ استاد  بچوں کو فلسفہ ، ادب اور تاریخ کی تعلیم بھی  دے رہا تھا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ ان کی پاس کوئی غیر مسلم تو اسلامیات پڑھنے آتا نہیں اور مسلمانوں کو اسلامیات سے زیادہ دوسرے علوم کی ضرورت ہے ۔ ظہور ہاشمی کے نقش قدم پر چلتے ہوے وہ  بلوچی زبان میں علم کے فروغ کے لیٔے  بلوچی زبان میں انسایٔیکلوپیڈیا  پر بھی کام کررہے تھے۔ ایک دن خبر آئی کہ کوئٹہ  شہر کے سریاب روڑ پر ان کا قتل ہو گیا ہے۔ ان کا قتل بھی برحق ہے کیونکہ انھوں نے بھی اصول جہالت کی خلاف ورزی کی تھی  اور اپنے جیسے مکرانیوں کو علم و آگاہی دینے کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا۔

صباء دشتیاری کے مرنے کے بعد سید ظہور ہاشمی کے نام کی ریفرنس لایٔبریری کی تکمیل  کا کام لیاری  کے  کامریڈ واحد بلوچ  اپنی تنخوا ہ سے کر رہے ہیں  ۔ ان کے جرائم کی فہرست میں غریب مصنفین کی کتابیں چھپوانا بھی شامل ہے۔  ان کے مشاغل میں فٹ بال، جوڈو کراٹے اور تن سازی نہیں بلکہ دن بھر کتابوں کی دکانوں  میں گھومنا اور اتوار کے دن  اپنی لایٔبریری کے لیٔے شہر کے فٹ پاتھوں پر سجائی پرانی کتابیں چھاننا بھی شامل ہے۔  اب پتہ چلا ہے کہ ان کو اندرون سندھ سے آتے ہوۓ سہراب گوٹھ کے مقام سے کچھ نقاب پوشوں نے اغوا کیا ہے۔

نثار بلوچ اور صبا دشتیاری جہاں گئے  ہیں واپس نہیں آسکتے لیکن ایک موہوم سی امید ہے کہ کامریڈ واحد بلوچ واپس آجائیں گے ۔ میں کبھی\"FB_IMG_1469702439419\" ان سے ملا تو نہیں لیکن واپسی اگر ہوئی تو ان سے ملنے کا ارادہ ہے تاکہ ان کو یہ نصیحت کر سکوں کہ لیاری کے گولے میں علم و آگہی ایک جرم ہے جس کا ارتکاب وہ نہ کریں۔

اپنی تنخوا ہ  پرانی کتابوں پر ضایٔع کرنے کے بجاۓ  اپنے بچوں کو نیٔے کپڑے خریدے اور چاند گاڑی میں سفر کرنے کے بجاۓ کسی بنک سے قرضہ لے کر ایک کار خریدلے۔  لیاری میں ایک تن سازی کا کلب چلاۓ جس کے لیٔے اس کو مالی معاؤنت بھی مل جائے گی، منشیات  کا دھندا بھی چل نکلے گا ،    فٹ بال کے ہر میچ میں وہ مہمان خصوصی کے طور پر بلایا جائے گا اور علاقے کا کوتوال ہر صبح اسے سلام کرنے  بھی آۓگا۔

وہ کیوں اپنے بچوں کو یتیم  اور اپنے ماں باپ کو بے سہارا کرنے پر تلا ہوا ہے؟

 

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments