بزرگ ایرانی دانشور اور صحافی علی دشتی نے جنت اور جہنم کا فرق کیسے معلوم کیا؟


علی دشتی ایک محقق، مصنف، دانشور، ناول نگار، مترجم، ادبی نقاد اور صحافی ہونے کے علاوہ ایرانی مجلس شوریٰ کے رکن، سینٹ کے رکن اور مصر میں ایرانی سفیر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے تھے۔

علی دشتی مشہورشیعہ عالم دین شیخ عبدالحسین دشتی کے ہاں مارچ 1897 ء میں پیدا ہوئے۔ علی دشتی کی جائے پیدائش کے حوالے سے مختلف آراء ہیں۔ کچھ لوگ ان کی جائے پیدائش کربلا بتاتے ہیں، اورکچھ کے بقول وہ جنوبی ایران کے صوبہ بوشہر کے ضلع دشتستان کے قصبہ تلخو میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد ایک نامور مذہبی عالم کی وجہ سے بہت مقبول اور معزز سمجھے جاتے تھے۔ علی دشتی نے کربلا اور نجف کے شیعہ مدارس میں عربی، قرآن کریم کی تلاوت، تفسیر، اسلامی تاریخ، تاریخ اقوام، علم حدیث، منطق، حکمت، فقہیت اور اصول فقہ کا مطالعہ کیا۔ ان کے خاص استاد مشہورعالم دین حسین فشارکی تھے۔

24 سال کی عمر میں دشتی واپس ایران لوٹ آئے۔ علی دشتی نے ایک ایسے گھر میں پرورش پائی تھی جس کے سب افراد ہی مذہبی عالم تھے۔ ان کے دوست بھی ایران و عراق میں نامور مذہبی علماء کے طور پر جانے جاتے تھے۔ گو دشتی کو بھی مذہبی حوالے سے ایک بڑے عالم کا درجہ حاصل تھا، لیکن انہوں نے اپنے خاندان اور دوسرے لوگوں کی توقعات کے برعکس واپسی پر مذہبی عالم بننے یا کہلوانے کی بجائے صحافت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔ ویسے بھی انہوں نے واپسی پر مذہبی جبّے اور عمامے کی بجائے مغربی لباس پہنا ہوا تھا۔

دشتی کو اس بات کا دکھ تھا کہ ایرانی علماء نے جرمنی، روس اور برطانیہ میں رابطے قائم کیے ہوئے ہیں اور یہ پیسوں اور طاقت کے حصول کے لیے کس قسم کا سمجھوتہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور چونکہ عوام کی اکثریت ان پڑھ تھی لہذا عوام پر ان علماء کا اثر بہت زیادہ تھا۔ چنانچہ بیرونی طاقتیں ملک میں تیل کے ذخائر سے فائدہ اٹھانے کے لیے انہیں استعمال کرتی تھیں۔

علی دشتی – سنہ 1910

علی دشتی کا پہلا مضمون شیراز کے ایک اخبار میں چھپا۔ بعد میں انہوں نے روزنامہ فارس اور روزنامہ خلیج فارس میں میں لکھنا شروع کیا۔ رکن زادہ نامی ایک با اثر آدمی کے خلاف مضمون لکھنے کی وجہ سے علی دشتی کو قتل کروانے کا ارادہ کیا گیا۔ دشتی کو بھنک پڑ گئی اور وہ وہاں سے بھاگ کر اصفہان چلے گئے۔

اصفہان منتقل ہونے کے بعد انہوں نے شیراز اور تہران کی مختلف اخبارات میں سیاسی نوعیت کے مضامین لکھنے شروع کر دیے۔ بعد میں تہران منتقل ہوئے اور وہاں سے ستارہ ایران نامی اخبار کا اجرا کیا۔ سادہ انداز اور کاٹ دار مضامین کی وجہ سے جہاں دشتی کے بہت زیادہ دوست اور حمایتی پیدا ہوئے وہیں ان کے مخالفین بھی پیدا ہوئے جس کی وجہ سے انہیں جیل کا سامنا بھی ہوا۔

1919 ء کے معاہدے پر تنقید نے دشتی کو سیاست میں دھکیل دیا۔ یہ معاہدہ ایران اور برطانیہ کے درمیان ہوا تھا۔ جس کا تعلق اینگلو پرشین آئل کمپنی سے تھا۔ ایرانی مجلس شوریٰ کی توثیق نہ ہونے کے باوجود اس معاہدہ پر عمل ہو رہا تھا۔ اس معاہدے سے ایرانی کو بہت زیادہ مالی نقصان ہو رہا تھا جب کہ برطانوی کمپنی بہت زیادہ پیسہ کما رہی تھی۔ اس معاہدے کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اگر کوئی برطانوی شہری ایران میں کسی مجرمانہ کارروائی میں پکڑا جائے تو ایرانی حکومت اس پر مقدمہ نہیں چلا سکتی تھی۔

ان وقتوں میں دشتی کا آیت اللہ محمد حسین بورزجانی کے ساتھ قریبی رابطہ تھا۔ جو ایران کے برطانیہ کے ساتھ معاہدے کے بہت مخالف تھے۔ چنانچہ دشتی نے تہران جا کر آیت اللہ حسن مدرس کے ساتھ مل کر ایک تحریک شروع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ حسن مدرس ایک انتہائی با اثر عالم تھے اور ان کے پیروکاروں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ دشتی نے اس وقت کے ایرانی وزیر اعظم وثوق الدولہ کے پاس ایک احتجاجی مراسلہ بھیجا جو بہت سے اخبارات میں بھی شائع ہوا۔

1919 ء کے معاہدے پر تنقید کے نتیجے میں دشتی کو تین سال قید کی سزا ہوئی لیکن دس دن تک قید رکھنے کے بعد بغیر پیشگی اطلاع دیے انہیں عراق جلاوطن کر دیا گیا۔ اپنی جلاوطنی کاٹنے کے لیے ابھی دشتی سرحد کے پاس ہی پہنچے تو انہیں خبر ملی کہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے فتح اللہ خان اکبر کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹا دیا ہے۔ چنانچہ وہ واپس لوٹ آئے۔

پچاس کی دہائی میں افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے ہمراہ

1921 کی فوجی بغاوت رضا خان پہلوی نے کی برپا کی تھی۔ لہذا ان کی سفارش پر ضیا الدین طباطبائی کو وزیر اعظم بنایا گیا۔ علی دشتی ضیا الدین طباطبائی کے دور میں بھی قید ہوئے۔ یہ قید ضیا الدین طباطبائی کی نوے دن کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے پر ختم ہوئی۔ اس قید کے دوران دشتی نے اپنی کتاب ”ایام محبس“ مکمل کی جو ان وقتوں کی ایرانی صورت حال پر ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کے نہ صرف کئی ایڈیشن شائع ہوئے بلکہ اس کی اشاعت نے انہیں ایک بہت ہی مقبول لکھاری کے طور پر متعارف کروایا۔

ضیا الدین طباطبائی کی وزارت عظمیٰ سے رخصتی کے بعد رضا خان نے خود وزارت عظمیٰ سنبھال لی۔ رضا خان شہنشائیت کی بجائے ایران کو ایک جمہوریہ بنانا چاہتے تھے۔ علی دشتی اور دیگر دانشور چاہتے تھے کہ ایران کو اتاترک کے ترکی کی مانند ایک جمہوریہ بنانا جائے اور رضا خان صدر بنیں۔ لیکن مذہبی حلقوں کی خواہش تھی کہ ملک میں جمہوریت کی بجائے شہنشائیت قائم ہو کیونکہ انہیں اپنی پوزیشن چھننے کا ڈر تھا۔ پوری پارلیمنٹ کے مقابلے میں ایک انسان کو قابو میں لانا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ جمہوریت پسند دانشور یہ جنگ ہار گئے اور 1925 ء میں رضا خان نے قاجاری سلسلہ کے ایک سو چھتیس سالہ اقتدار کا خاتمہ کرتے ہوئے آخری قاجاری حکمران احمد شاہ قاجار کو معزول کر دیا اور خود شہنشاہ بن گئے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3