آزادی اظہار کا حق اب کیوں یاد آیا؟ (مکمل کالم)


ایک سوال بہت زور و شور سے پوچھا جا رہا ہے کہ کیا آپ آزادی اظہار کی حمایت کرتے ہیں اور اگر کرتے ہیں تو کیا آپ ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو اس آزادی کا حق استعمال کرنے کی پاداش میں آج کل زیر عتاب ہیں؟

یادش بخیر، ایک ایسا ہی سوال جنرل ضیا الحق مرحوم نے بھی پوچھا تھا کہ کیا آپ قرآن و سنت کے مطابق کی گئی ان قانونی ترامیم کی حمایت کرتے ہیں جو جنرل ضیا الحق نے کیں اور کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ عمل جاری رہے اور کیا آپ پاکستان کے اسلامی نظریے کی حمایت کرتے ہیں؟ بھلا کون کافر اس کا جواب نفی میں دے سکتا تھا لیکن مصیبت یہ تھی کہ ہاں کہنے کی صورت میں جنرل ضیا پانچ سال کے لیے صدر منتخب ہو جاتے۔ اور وہ ہو گئے۔ آزادی اظہار والا سوال بھی اسی قسم کا ہے۔ کون شخص ہے جو آزادی اظہار کے بنیادی اصول کی نفی کرتا ہو، آئین اس آزادی کی ضمانت دیتا ہے، مہذب معاشروں میں یہ حق بلا روک ٹوک استعمال کیا جاتا ہے، اس حق کے بغیر سچ جھوٹ کا تعین نہیں کیا جا سکتا مگر کیا یہ اتنی ہی سادہ بات ہے! جی نہیں، یہ کوئی ریاضی کا سوال نہیں جس کا جواب دو جمع دو چار ہو۔

آزادی اظہار کسی ایک شخص، گروہ یا جماعت کے لیے نہیں ہوتی کہ صرف وہی اس حق کو استعمال کریں اور باقی لوگوں کا گلا گھونٹ دیا جائے، آئین نے یہ آزادی بلاتفریق ہر شہری کو دی ہے، لہذا یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی ایک شخص اس حق کے اظہار کی آڑ میں لوگوں کی پگڑیاں اچھالے، خواتین صحافیوں کے خلاف غلیظ ٹرینڈ چلائے، انہیں بیہودہ القاب سے پکارے، ان کی شہرت کو داغ دار کرے، اپنے مرد مخالفین کی ذات پر کیچڑ اچھالے، انہیں غدار کہے، مذہب فروشی کا طعنہ دے جس کی وجہ سے ان لوگوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد جب وہ شخص خود کسی دن قانون کی پکڑ میں آ جائے تو اس دن دہائی دے کہ یہ میرے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے لہذا ہر وہ شہری جو آزادی اظہار کا علمبردار ہے، میری غیر مشروط حمایت کرے ورنہ وہ منافق کہلائے گا۔ سبحان اللہ۔ کوئی فرشتہ ایسا کرے تو کرے، انسانوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہزارہ برادری کی نسل کشی کرنے کے لیے ان پر درجنوں خود کش حملے کیے گئے جن میں بچے، عورتیں، بوڑھے، جوان سب بلا تفریق مارے گئے، اگر ان حملوں کے مجرمان کو پکڑنے کے لیے پولیس اور فوج علاقے میں آپریشن کرے جس میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوں تو آپ ہزارہ برادری سے یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ وہ خود کش بمباروں کے حقوق کے لیے جلوس نکالیں گے۔

منطق میں ایک مغالطہ ہے جسے The False Dilemma Fallacy کہتے ہیں، اس مغالطے کے زیر اثر دلیل دینے والا دو انتہائی موقف آپ کے سامنے رکھتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ اگر آپ اس میں سے کسی ایک موقف کی حمایت کریں گے تو اس کا مطلب ہو گا کہ آپ سرے سے دوسرے موقف کو رد کر رہے ہیں۔ مثلاً، اگر آپ مجھے ووٹ نہیں دیتے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ محب وطن نہیں، اگر آپ نے اپنے مستقبل کو سنوارنا ہے تو مجھے چندہ دیں، اگر آپ ملک کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو دفاعی بجٹ میں اضافہ کریں، اگر آپ آزادی اظہار کے داعی ہیں تو پھر میری حمایت کریں، دوسرا کوئی آپشن نہیں، وغیرہ۔ دنیا میں آزادی اظہار کا سب سے بڑا حامی امریکہ ہے، کم ازکم وہاں پاکستان سے زیادہ آزادی ہے، وہاں لوگ اپنے اس حق کو استعمال کر کے امریکی پرچم کو نذر آتش کر دیتے ہیں، برگزیدہ ہستیوں کے خلاف تقریریں کرتے ہیں، مذہب کا تمسخر اڑاتے ہیں اور جانے کیا کیا کچھ کرتے ہیں، کوئی نہیں پوچھتا، مگر اسی امریکہ میں ڈانلڈ ٹرمپ کا ٹویٹر کھاتہ مستقلاً بند کر دیا گیا جب وہ امریکہ کا صدر تھا اور اس کے ساڑھے آٹھ کروڑ سے زائد پیروکار تھے۔ ٹرمپ کا ٹویٹر اکاؤنٹ اب بھی بند ہے اور امریکہ میں اظہار کی اب بھی آزادی ہے، کسی کا بنیادی حق سلب نہیں ہوا۔ گزارش یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی چیز غیر مشروط نہیں ہوتی، ہر حق کے ساتھ کوئی نہ کوئی شرط جڑی ہوتی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ جوزف گوئبلز بن کر لوگوں کی زندگیاں تباہ کرتے رہیں اور جب آپ پر قانون کا شکنجہ کسا جائے تو آئین میں دی گئی آزادیوں کے حوالے دینے لگیں۔ آئین میں یہ آزادیاں کسی فرد واحد کے لیے نہیں لکھی گئیں بلکہ یہ میر شکیل الرحمن، مطیع اللہ جان، ابصار عالم، حامد میر، غریدہ فاروقی، عاصمہ شیرازی اور ان جیسے درجنوں صحافیوں اور شہری آزادیوں کے علمبرداروں اور پاکستانی کے بائیس کروڑ شہریوں کے لیے بھی لکھی گئی تھیں مگر ان آزادیوں کو جب بیڑیاں پہنائی گئی تھیں تو اس وقت کسی کو توفیق نہیں ہوئی تھی کہ آئین اور قانون کا حوالہ دیتا۔ لہذا اب یہ کہنا کہ اگر آپ فلاں شخص کے حق میں نہیں کھڑے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ آزادی اظہار کے مخالف ہیں دراصل false dilemma fallacy کی مثال ہے۔

اب کچھ بات اصول کی بھی ہو جائے۔ کہا جاتا ہے کہ عدالت میں دفاع کا حق تو سفاک ترین ملزم کو بھی دیا جاتا ہے، یہ حق خود کش بمباروں سے بھی نہیں چھینا جاسکتا لہذا کسی نے کوئی بھی بات کی ہو، بہرحال وہ آزادی اظہار کے زمرے میں آتی ہے لہذا اس پر بغاوت یا غداری کا مقدمہ بنانا سراسر زیادتی ہے۔ یہ بالکل درست بات ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ سوال پوچھنا بھی اتنا ہی درست ہے کہ یہ سارے اصول، قانون، ضابطے اور آئین کی شقیں اب یاد کیوں آ رہی ہیں! ماضی قریب میں درجنوں لوگوں پر بغاوت اور غداری کے جھوٹے مقدمے بنائے گئے، ان کے خاندان کے افراد کو گھروں سے اٹھایا گیا، انہیں تھانوں میں ذلیل کیا گیا، ہتھکڑیاں لگا کر تصاویر بنائی گئیں، عادی مجرموں کے ساتھ جیلوں میں بند کیا گیا، انہیں مجبوراً ملک چھوڑ کر جانا پڑا، ان کی زندگی اور کیرئیر تباہ ہو گئے، لیکن اس وقت ان تمام لوگوں کے منہ سے حق کا کلمہ بلند نہیں ہوا جو آج کلمہ حق کی دہائی دے رہے ہیں، کسی نے اصول اور قانون کی بات نہیں، بلکہ الٹا اس سارے کام میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا اور کہا کہ عدالتیں کھلیں ہیں، ملک میں قانون موجود ہے، جاؤ جا کر قانون کا سامنا کرو، اگر آپ کا دامن صاف ہوا تو آپ باعزت بری ہوجائیں گے۔

کیسی عمدہ بات تھی تو کیوں نہ یہ بات آج بھی کر دی جائے کہ بیشک غداری اور بغاوت کے مقدمے بنانا درست نہیں مگر عدالتیں کھلی ہیں، ملک میں آئین موجود ہے، انصاف مل جائے گا۔ اگر بات اصول کی کرنی ہے تو پھر کیوں نہ پہلے ان تمام اقدامات اور بیانات سے اعلان برات کیا جائے جو ماضی میں لوگوں کی کردار کشی کے وقت دیے گئے اور ان لوگوں کے خاندان والوں سے معافی مانگی جائے جن کی زندگیاں آپ نے غدار اور ملک دشمن کہہ تباہ کیں۔ پہلے آپ یہ تمام اصولی باتیں کیجیے اس کے بعد کسی دوسرے سے اصولی بات کی توقع کریں۔ یہ ممکن نہیں کہ لوگوں کی ذات پر تبرا کرنے کا خصوصی (exclusive) اجازت نامہ بھی آپ کے پاس رہے اور آپ کے اس حق کے لیے سول سوسائٹی اور آزادی اظہار کے علمبردار کھڑے بھی ہوں، یہ پیغمبرانہ وصف ہے، انسانوں سے اس کی امید نہ رکھی جائے۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments