بی جمالو سیاست اور نواز شریف کی نکھرتی شخصیت 


دوستو! مہذب ملکوں میں الیکشن سے پہلے سیاسی جماعتیں اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں اور ان کا تھنک ٹینک ہر محکمہ کی پلاننگ کرتا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ کس کس طرح، کس کس محکمہ کو چلائیں گے اور کیسے اپنے منشور پر عمل در آمد کرکے ملک کو ترقی سے ہمکنار کریں گے۔

مگر افسوس ”میرے کپتان“ مثالیں تو یورپ اور دیگر ممالک کی اور خلفائے راشدین کے زمانہ کی دیتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ خود جو سیاست کر رہے ہیں وہ کسی تھرڈ کلاس محلہ کی ”بی جمالو“ جیسی ہے، دوسروں کو چور کرپٹ کہتے کہتے ایسی ڈرائی کلین مشین ایجاد کی جس میں عدالتوں سے سزا یافتہ کرپٹ ترین شخصیات پاک اور صاف ہو گئی اور زمانہ کے صادق الامین غدار اور کرپٹ ٹھہرے۔

میرے کپتان نے دعوی ایسے کیے کہ جیسے پچاس لاکھ گھر تیار اور ایک کروڑ نوکریوں کے اپائنٹمنٹ لیٹر تیار تھے اور غیر ملکی قرضہ جیب میں موجود تھا اور بس اقتدار ملتے ہی یہ قرضہ غیرملکیوں کے منہ پر مارنا تھا اور پچاس لاکھ گھروں کی چابیاں اور اک کروڑ نوکریوں کے لیٹرز کی تقسیم کرتے وقت آئندہ قرض نہ لینے کے بجائے خودکشی کرنے کو ترجیح دینا تھا لیکن ان دعووں کے برعکس اب حقیقت میں کیا ہو رہا ہے پچاس لاکھ دینے کے دعوے داروں نے بنی گالا کی ناجائز جائیدادیں تو ریگولائز کر لیں اور ملک ریاض بھی سپریم کورٹ کو پیسے دے کر فارغ ہو گیا لیکن ہزاروں غریبوں کے مکان و دکانیں غیرقانونی تجاوزات کی آڑ میں گرا کر لاکھوں غریبوں کو بے گھر کر دیا گیا کیا ان غریبوں کو جرمانہ کرکے ریگولائز نہیں کیا جا سکتا تھا؟

ایک کروڑ نوکریوں کے دعوے داروں نے اقتدار میں آنے کے بعد اتنی مہنگائی کی کہ ہزاروں نہیں لاکھوں بے روزگار ہو رہے ہیں ڈالر کے اتار چڑھاٶ سے صنعتیں بند ہو رہی ہیں کاروبار زندگی متاثر ہو رہا ہے اور ”تبدیلی سرکار“ علیمہ خان کی دبئی کی جائیداد بھی پیسوں کے عوض جائز کرنے میں مصروف ہے۔

ملک کی اعلی ترین عدالتوں سے نا اہل ہونے والے جہانگیر ترین کی جائیدادوں پر نا جے آئی ٹی بنی نا نیب نے کیس چلائے۔

بس سارا کا سارا زور کارکردگی دکھانے کے بجائے اپوزیشن کو زبانی کلامی کرپٹ اور نا اہل ثابت کرنے میں لگایا جا رہا ہے عملی طور پر تمام تر اختیارات ہونے کے باوجود نہ کسی پر کرپشن کا مقدمہ درج کروایا اور نہ ہی کسی کو مودی کا یار ثابت کر سکے۔

خود کشی کے دعوے دار ”مہا فقیر“ کے لقب سے مشہور تو ہو گئے لیکن پھر بھی مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آ رہا، سمجھ سے بالاتر ہے کہ ”صادق و امین“ کی حکومت میں گزشتہ نو ماہ سے کرپشن بند ہے پھر بھی حکومت کی سمت نظر نہیں آ رہی۔ جبکہ اسمبلی میں فرشتے بیٹھے ہیں، چور جیلوں میں ہیں، باہر سے کروڑوں، اربوں ڈالرز کی امداد و قرض مل رہے ہیں، آئی ایم ایف پاکستان کو بہتر شرائط پر قرض دینے کو تیار ہوگیا ہے پھر بھی یہ مہنگائی کیوں روز بروز بڑھ رہی ہے، سمجھ سے بالاتر ہے کہ صادق و امین حکومت کے باوجود مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آ رہا جبکہ ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ جب ڈالر اوپر جائے تو سمجھ جاٶ اوپر حکمران چور بیٹھے ہیں، جب پٹرول، ڈیزل کے ریٹ اوپر جائیں تو سمجھ لو کرپٹ حکمرانوں کی کرپشن کا بوجھ تم پر ڈالا جا رہا ہے جب بجلی و گیس کے بل اضافی آئیں تو سمجھ لو حکمران نا اہل ہیں اور عوام بجلی، گیس کے بل جلا کر ان کی نا اہلی کی قیمت ادا کریں۔

”تبدیلی سرکار“ نے اقتدار سے پہلے اپنے سوا سب کو کرپٹ اور چور کہنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس میں اقتدار میں آنے کے بعد مزید شدت آ گئی کہ نواز اور شہباز ملک لوٹ کر کھا گئے قدرت خدا کی دیکھئے اب یہی ”تبدیلی سرکار“ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ نواز شریف نے بطور وزیراعظم اپنی تنخواہ سوات کے کڈنی ہسپتال کو ہدیہ کی جبکہ شہباز شریف نے گزشتہ دس سال اندرون ملک اور بیرون ملک تمام سفری اخراجات اپنی جیب سے ادا کیے اور بطور وزیراعلی گزشتہ دس سال کوئی تنخواہ بھی نہیں لی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ”تبدیلی سرکار“ الیکشن میں جانے سے پہلے ہر شعبہ کی باقاعدہ پلاننگ اور منشور تیار کرتی اور جس ”تبدیلی“ کا لولی پاپ عوام کو دیا گیا تھا اسے عملی جامعہ پہنانے کے لئے ملک کی ترقی، فلاح و بہبود کے لئے عملی اقدامات کرتے لیکن افسوس بغض نواز میں مبتلا پارٹی کو بس نواز چور، کرپٹ اور مودی کا یار تو نظر آتا ہے لیکن اس کی پلاننگ اور جماعت کا وژن کسی کو نظر نہ آیا جس کی بدولت ملک میں امن و امان بحال ہوا اور ملک پھر سے ترقی کے زینہ پر گامزن ہوا۔

حقیقت کا ادارک کیے بغیر ”تبدیلی سرکار“ نے اقتدار میں آتے ہی کہنا شروع ہو گئی کہ نواز اور شہباز ملک لوٹ کر کھا گئے۔

جب کہ تبدیلی سرکار کے دعوں اور بے بنیاد الزامات کے برعکس یہ میاں محمد نواز شریف ہی تھے جن کی شب و روز محنت کی بدولت آج ملک دہشت گردی سے پاک ہوا اور آج ہم غیر ملکی شخصیات کو بلا کر پرامن انداز میں جو یوم پاکستان پریڈ کا اہتمام کر رہے ہیں اس کے پیچھے بھی مسلم لیگ ن کی پالیسیاں اور قائد محترم میاں محمد نواز شریف کا ویژن ہے۔ 1956 سے ہر سال 23 مارچ کو مسلح افواج پریڈ کا اہتمام کرتی تھی لیکن مشرف کے دور میں یہ پریڈ مارچ دہشت گردی کے خوف سے ختم کر دیا گیا۔ الحمدللہ 2013 میں جب پاکستان مسلم لیگ ن حکومت میں آئی تو اس نے اپنی پالیسوں اور قائد محترم میاں محمد نواز شریف کے ویژن کے مطابق ملک میں امن کی شمع روشن کی اور ملک پر چھائے دہشت گردی کے اندھیرے دور کیے جس کی بدولت 23 مارچ 2015 سے اب تک مسلح افواج مسلسل دوبارہ سے پریڈ کا اہتمام کر رہی ہیں

ملک کی تعمیر و ترقی اور امن و سکون کا ہر راستہ پاکستان مسلم لیگ ن کے سنگ ہے۔ اسی لئے ہماری پسند میاں محمد نواز شریف ہے جو حق پر ہے اور ہم اس کے ساتھ ہیں اور ان شاء اللہ رہیں گے۔

الحمدللہ! آج ہائیکورٹ لاہور نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے اور سپریم کورٹ کی طرف سے قائد محترم میاں محمد نواز شریف کی طبعی بنیادوں پر ضمانت منظور کر لی ہے۔ جس کے بعد ان کی شخصیت مزید نکھر کر سامنے آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).