انسپیکٹروں کو تحائف دے کر ڈیزائن پاس کروانے والے بوئنگ جہازوں کی تباہی


بوئنگ سیون تھری سیون 737 کو بوئنگ کمپنی کا سب سے کامیاب اور منافع بخش جہاز مانا جاتا ہے۔ اسے ساٹھ کہ دہائی میں ڈیزائن کیا گیا اور اب تک دس ہزار سے زائد جہاز بنائے جا چکے ہیں۔ اس طرح یہ ہوابازی کی تاریخ کا سب سے زیادہ بکنے والا جیٹ جہاز ہے۔ تنگ باڈی کی قسم میں اس کا مقابلہ ائیربس کمپنی کے جہاز A 320 سے ہے جو کہ سن اسی کی دہائی میں ڈیزائن کیا گیا اور اب تک اس قسم کے آٹھ ہزار سے زائد جہاز بنائے جا چکے ہیں۔

سیون تھری سیون کا جدید ترین ماڈل سیون تھری سیون میکس ہے جس کے تقریباً ساڑھے تین سو جہاز بنائے جا چکے ہیں اور تقریباً پانچ ہزار اور جہازوں کے آرڈر بوئنگ کو مل چکے ہیں اور بوئنگ کمپنی کی اس جہاز سے بہت زیادہ منافع کی امید تھی اور پانچ مہینوں کے وقفے میں دو بالکل نئے جہازوں کے حادثات میں جن میں کئی سو قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا، اس جہاز، بوئنگ کمپنی اور اس سے جڑی امریکی معیشت تک کے لئے نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

بڑے کمرشل جہاز بنانے کی دنیا میں دو ہی کمپنیاں ہیں، بوئنگ اور ائیربس۔ ان کمپنیوں کا مقابلہ کرنے میں، باوجود بے تحاشا کوشش اور بے دریغ پیسا بہانے کے، چین ابھی تک اس مارکیٹ میں گھسنے میں ناکام ہے۔ (شاید ایک دہائی تک چین اپنا حصہ بنا لے لیکن ابھی تک تو کامیابی نہیں ملی) ۔ اس کی وجہ ان کمپنیوں کا سسٹمز انجینئرنگ کے میدان میں تجربہ ہے جو مختلف انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کو ملا کر انتہائی پیچیدہ سسٹمز بنانے کی صلاحیت ہے۔

سسٹمز انجینئرنگ کا تجربہ وقت اور غلطیوں کے ساتھ ہی ادارے حاصل کرتے ہیں اور اس کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ دونوں کمپنیوں کو اپنی حکومتوں کی مکمل پُشت پناہی حاصل ہے اور ان پر پیسہ لگانے میں کمانے سے زیادہ فیلڈ پر گرفت مقصود ہوتی ہے اور ان کی ریسرچ سے نکلنے والی ٹیکنالوجی سے بالواسطہ آمدنی بظاہر ہونے والے نقصان کو بھی پورا کر دیتی ہے۔ جیسا کہ انٹی لاک بریک جو گاڑیوں میں اب بنیادی حصہ ہے، پہلے جہازوں کے لئے بنائی گئی تھی۔

ان کے بڑے سودوں میں ملکوں کے سربراہان براہ راست شامل ہوتے ہیں اور یہ سودے ملکوں کے بیچ میں سفارتکاری کا حصہ ہوتے ہیں۔ جہاز سازی اور ہوابازی کی صنعت حفاظت کے بنیادی اصول پر کھڑی ہے اور اسی وجہ سے ہوائی جہاز کا سفر شماریاتی طور پر محفوظ ترین سفر بن چکا ہے۔ ان دونوں حادثات کی تحقیقات میں روز نت نئے انکشافات ہو رہے ہیں جو کہ اس اعتماد کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں جو جہاز سازی اور ہوابازی کی صنعت نے بڑی محنت سے قائم کیا تھا۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایتھوپین ائرلائن کا جہاز تقریباً اسی وجہ سے گرا جس وجہ سے پانچ مہینے پہلے لائن آئر انڈونیشیا کا جہاز پرواز کے کچھ ہی دیر بعد سمندر میں جا گرا تھا۔ دونوں جہاز بار بار اوپر اور نیچے ہوتے رہے اور تھوڑی دیر میں کنڑول سے باہر ہو کر سمندر اور زمین سے جا ٹکرائے۔ دونوں کے پائلٹوں نے جہاز آؤٹ آف کنٹرول ہونے کے پیغام کنٹرول ٹاور کو دیے اور واپسی کی کوشش کی۔ دوسرے حادثے کے بعد سب سے پہلے چائنہ نے اس جہاز کو گراونڈ کیا اور بادل نخواستہ امریکہ نے سب سے آخر میں، جب کہ عمومی طور پر دنیا امریکہ کی پیروی کرتی ہے۔

اب تین سو چھہتر جہاز پوری دنیا میں مجبوراً زمین پر کھڑے کر دیے گئے ہیں کہ جب تک تحقیقات مکمل نہ ہو جائیں اور اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ جہاز کے ڈیزائن میں کوئی مسئلہ نہیں یا مسئلہ کا حل دریافت کر کے انہیں ٹھیک نہ کر دیا جائے۔ بوئنگ کمپنی ابھی تک بیان دے رہی ہے کہ انہیں اپنے جہاز پر مکمل اعتماد ہے لیکن دنیا کا اعتماد متزلزل ہو چکا ہے۔ ایتھوپین ائرلائن نے تو اپنے تباہ شدہ طیارے کے بلیک باکس کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور اس کو تجزیہ کے لئے فرانس بھجوا دیا کیونکہ ہر طرف بوئنگ کمپنی اور جہاز کو اڑنے کی اجازت دینے والے ادارے فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن FAA پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ شاید ڈیزائن میں کچھ مسئلہ تھا اور کس طرح بوئنگ نے اس کو بنایا اور کس طرح ایف اے اے نے اسے اڑنے کی اجازت دی۔

کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ دو ہزار گیارہ میں بوئنگ ایک نیا تنگ باڈی والا جہاز بنانے کا سوچ رہا تھا جو سیون تھری سیون کی جگہ لے سکے۔ اس سے پہلے، ائیربس نے بجائے نیا تنگ باڈی والا جہاز بنانے کے، موجودہ A 320 پر ہی بڑے سائز کے لیکن کم تیل خرچ کرنے والے انجن لگا کر کچھ تبدیلیوں کے ساتھ A 320 neo یعنی (new engine option) کو جب دو ہزار نو میں پیش کیا تو بوئنگ کمپنی کے اعلیٰ عہدیداروں نے اس کا مذاق اُڑایا اور کہا کہ بڑے انجن لگانے سے اس کی اڑان تبدیل ہو جائے گی اور بہت کام کرنا پڑے گا اور شاید کبھی یہ ایک کامیاب طیارہ نہ بن سکے۔ بہتر ہے کہ ائیربس نیا جہاز ڈیزائن کرے لیکن A 320 neo بہت کامیاب ہوا اور ائرلائنز نے بوئنگ پر پریشر ڈالا کہ وہ مقابلے میں اپنا کم فیول کھانے والا جہاز پیش کرے ورنہ وہ ائیربس کو اپنے آرڈر دے دیں گے۔ مجبوراً مقابلے میں بوئنگ نے دو ہزار گیارہ میں اعلان کیا کہ وہ بھی سیون تھری سیون میں بڑے انجن لگا کر سیون تھری سیون میکس جہاز بنائے گا کیونکہ نئے جہاز کو ڈیزائن اور تیار کرنے میں دس برس تک لگ جائیں گے اور بوئنگ کمپنی مارکیٹ میں اپنے کافی بڑے حصہ سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔

سیون تھری سیون میکس میڈیا رپورٹس کے مطابق انتہائی جلدی اور پریشر میں ڈیزائن کیا گیا اور بہت ہی فاسٹ ٹریک پر اسے ایف اے اے نے پاس کیا اور صرف چار سال بعد، دو ہزار پندرہ میں پہلے سیون تھری سیون میکس نے پرواز کی۔ ائرلائنز کو یہ طیارہ بھی بہت پسند آیا اور اس کے پانچ ہزار سے زائد آرڈر بوئنگ کو مل چکے ہیں۔ بوئنگ کمپنی کو اس جہاز سے بہت زیادہ منافع کی توقع ہے۔

اب حادثات کے بعد بات نکلی ہے کہ سیون تھری سیون جس زمانے میں ڈیزائن کیا گیا، اس وقت ایئرپورٹ پر گاڑی والی سیڑھیاں نہیں تھیں اور جہاز کی باڈی زمین سے بہت نزدیک رکھی گئی تھی تاکہ اندر سے سیڑھیاں باہر نکالی جا سکیں۔ لیکن دو ہزار گیارہ میں یہ مسئلہ تو نہیں تھا لیکن ڈیزائن کی اس وقت کی ضرورت، اب کا مسئلہ بن گیا تھا کیونکہ بڑے انجن اس کے پروں کے نیچے فٹ نہیں ہو سکتے تھے۔ A 320 چونکہ سن اسی کی دہائی کا ڈیزائن شدہ تھا لہذا اس کو بنانے میں زمین کے ساتھ رکھنے کا کوئی خیال نہیں کیا گیا تھا اور اس میں انجن فٹ کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں بنا۔

بوئنگ کی پشین گوئی ائیربس کے بر عکس، اپنے لیے ہی درست ثابت ہوئی اور بڑے انجن لگانے کے لئے انجینئرز نے ان کو پروں کے نیچے تھوڑا آگے اور اوپر کر کے لگایا جس سے اس کی اڑان میں فرق پڑا اور اس کو ٹھیک کرنے کے لئے Nose Gear کو تھوڑا اوپر کی طرف کرنا پڑا۔ بات یہیں ختم نہ ہوئی بلکہ ٹیسٹ میں بوئنگ کو معلوم ہوا کہ کچھ حالات میں تیز رفتاری میں جہاز کا منہ اس کے بڑے انجن اور Nose Gear کی وجہ سے خطرناک حد تک اوپر ہو سکتا ہے اور جہاز بے قابو ہو سکتا ہے۔

اس خطرے کا سدباب کرنے کے لئے ایک MCAS Maneuvering Characteristics Augmentation System کے نام کا سافٹ وئیر انسٹال کیا گیا جو اس خطرے کے وقت جلدی سے جہاز کا منہ، پائلٹ سے پوچھے یا بتائے بغیر ہی نیچے کر دیتا ہے۔ طیارے کو ائرلائنز کے لئے پرکشش بنانے کے لئے اس کے کاک پٹ کو بالکل سیون تھری سیون جیسا بنایا گیا تھا تاکہ پائلٹوں کو تربیت دینے کا کوئی خرچہ نا کرنا پڑے۔ اس خیال سے کہ اس سافٹ وئیر کے استعمال کی شاذونادر ہی ضرورت پڑے گی، اس کا مینوئل میں پائلٹوں سے ذکر ہی نہ کیا گیا۔

لیکن اس کام نے عملی طور پر جہاز میں ایک ایمرجنسی پائلٹ چھپا کر بٹھا دیا جس کا پائلٹوں کو علم ہی نہ تھا۔ سونے پر سہاگہ، اس سافٹ وئیر کو جہاز کے زاویہ ناپنے والے دو میں سے صرف ایک ہی سنسر sensor سے منسلک کیا گیا جس کے خراب ہونے کی صورت میں یہ حرکت میں آ سکتا تھا اور شاید دونوں مرتبہ یہی ہوا۔ اس سافٹ وئیر نے جہاز کا منہ سنسر کی غلط ریڈنگ پر اچانک نیچے موڑ دیا۔ پائلٹ نے فورا جہاز کو اوپر کی طرف کھینچا لیکن اس سافٹ وئیر نے پائلٹ ایکشن کی پرواہ نہ کی اور پھر نیچے کر دیا۔

یہ سلسلہ چار سے پانچ مرتبہ چلا اور لائن ائر کے پائلٹ نے آخرکار جہاز کنٹرول میں کر لیا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی اور جہاز پانچ سو میل کی رفتار سے پانی سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ اس کُشتی میں پائلٹ سمجھ ہی نہ پائے کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ حال ہی میں Simulator ٹیسٹنگ کے دوران پائلٹس کو اندازہ ہوا کہ یہ سوفٹ ویر کس قدر طاقتور ہے کہ اگر چالیس سیکنڈ کے اندر اندر پائلٹس معاملہ کو سمجھ کر دو سوئچ آف نہ کرے تو پھر جہاز کو بچایا نہیں جا سکتا۔

آخری لمحات میں لائن ائیر کا ایک پائلٹ تیزی سے پائلٹ مینول کے صفحات پلٹ رہا تھا کہ سمجھ سکے کے آخرکار یہ کیا ہو رہا ہے۔ دوسرے حادثے میں تو پائلٹس کو اس بارے میں معلوم تھا لیکن باقاعدہ ٹریننگ ابھی تک نہیں دی گئی تھی اور شاید اسی طرح جہاز آؤٹ آف کنٹرول ہو گیا۔ ایتھوپین ائرلائن کے ملبہ میں جہاز کے پچھلے پر اسی طرح اوپر کو مڑے پائے گئے ہیں جیسا کہ یہ سافٹ ویئر جہاز کو منہ نیچا کرنے کے لئے کر دیتا ہے۔

پہلے حادثہ کے بعد بوئنگ کمپنی پائلٹوں کی ایسوسی ایشن کی شدید تنقید کی زد میں آئی کیونکہ اس سافٹ ویئر کا عمل پائلٹ کی بنیادی تربیت اور جبلت کے برعکس تھا اور بغیر کسی ٹریننگ کے، اتنی جلدی پائلٹ کے لئے مسئلہ سمجھ کر اس سافٹ وئیر کو بند کرنا عملاً ممکن نہ تھا۔ لیکن بات چیت کا رخ لائن ائیر کی مرمت کے نظام کی طرف موڑ دیا گیا کہ ایک دن پہلے بھی جہاز آؤٹ آف کنٹرول ہوا تھا لیکن پائلٹ نے سنبھال لیا تھا اور اس سینسر کی مرمت بھی کی گئی لیکن طیارہ کو پھر اگلی صبح پرواز پہ روانہ کر دیا گیا۔

لیکن اب دوسرے حادثہ کے بعد بوئنگ کمپنی کے لئے بات کو دوسری طرف موڑنا ممکن نہ رہا۔ اب یہ بات بھی میڈیا میں آئی ہے کہ ایف اے اے کے سیفٹی انسپکٹر بوئنگ کمپنی کے سخت پریشر میں تھے اور جہاز کے ڈیزائن کے حفاظتی چیک، وقت بچانے کے لئے بوئنگ نے خود کر کے صرف ان سے دستخط کروا لیے۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے یہ پریکٹس امریکہ میں کافی عرصے سے جاری ہے۔ اب امریکی میڈیا اس بات پر حیران ہے کہ ایک طیارہ ساز کمپنی خود سے ہی اپنے طیاروں کو چیک کر کے اوکے کیسے دے سکتی ہے یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کہ ہمارے ہاں سارا فارم فیکٹری والے خود بھرتے ہیں اور پیسے لے کر سینڑی انسپکٹر صرف دستخط کر دیتا ہے اور شور مچنے پر فنڈز اور عملہ کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2