’بارڈر ایک روز کھلتا ہے تو پانچ دن بند رہتا ہے اور اس دوران جو کماتے ہیں وہ ختم ہوجاتا ہے‘


پاکستان ایران بارڈر

ایران کے ساتھ بلوچستان کے سرحدی شہر تافتان میں زیرو پوائنٹ کو ہفتے میں تین روز تجارت کے لیے کھولا جاتا ہے

صبح کے گیارہ بجتے ہی دروازے کھل جاتے ہیں اور مزدوروں کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے۔ کچھ ریڑھیوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو کچھ رسالے کر ایران کے زیرو پوائنٹ پہنچتے ہیں۔ ان تمام مزدوروں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سامان اٹھائیں۔

ایران کے ساتھ بلوچستان کے سرحدی شہر تفتان میں زیرو پوائنٹ کو ہفتے میں تین روز لوگوں کی آپس میں تجارت کے لیے کھولا جاتا ہے۔

مزدور ایران سے عام استعمال کی چیزیں لاتے ہیں جن میں زیادہ تر شہد، سبزیاں، بیکری آئٹمز، مشروبات اور کراکری شامل ہوتی ہے اور اس تجارت پر کوئی ٹیکس نہیں لگتا۔

دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کے مطابق پاکستان سے موسمی پھل جاتے ہیں جس کے لیے ہفتے میں ہر ملک کے دن مقرر ہیں لیکن پاکستان کے دن ایرانی بارڈر بند رہتا ہے۔

یہ بھے پڑھیے

ایران پاکستان کی سرحد پر گولے کیوں برساتا ہے؟

ایران میں پیغامات کے لیے کرنسی نوٹوں کا استعمال

پابندیوں کے باوجود ایران کی جنگی مشقیں

پاکستان ایران بارڈر

محمد علی، مزدور

محمد علی نامی مزدور نے بتایا کہ یہاں تفتان میں نہ کوئی کاشت کاری ہے اور نہ کوئی روزگار۔ سارا دارو مدار اس زیرو پوائنٹ پر ہے لیکن ایران والے من مانی کرتے ہیں اور پاکستان سے کوئی چیز نہیں چھوڑتے۔

’گزشتہ ایک سال سے پاکستان کا فروٹ بند کیا ہوا ہے۔ ہمارا گزارہ پاکستان کی اشیا جانے سے ہوتا ہے، وہاں سے چالیس پچاس ہزار تمن (ایرانی کرنسی) ملتے ہیں جو پاکستان کے روپوں میں چار پانچ سو روپے بنتے ہیں۔‘

زیرو پوائنٹ کی تجارت سے دو ڈھائی ہزار مزدوروں کا روزگار وابستہ ہے۔ جن میں سے کچھ بارڈر سے سامان لادتے ہیں جبکہ دوسرے انہیں گاڑیوں پر لوڈ کرکے تفتان شہر میں دکانوں تک پہنچاتے ہیں۔ اس طرح 15 ہزار آبادی کے شہر تفتان کی معشیت اسی تجارت سے ہی چلتی ہے۔

پاکستان ایران بارڈر

زیرو پوائنٹ کی تجارت سے دو ڈھائی ہزار مزدوروں کا روزگار وابستہ ہے

ایران میں اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجائے تو زیرو پوائنٹ بند کردیا جاتا ہے۔ احمد کا کہنا ہے کہ بارڈر ایک روز کھلتا ہے تو پانچ دن بند رہتا ہے اور اس دوران جو کماتے ہیں وہ ختم ہوجاتا ہے جبکہ یہاں اور کوئی مزدوری نہیں ہے۔

تفتان بارڈر سے لوگوں کی لوگوں سے ٹیکس فری تجارت کے علاوہ باضابط تجارت بھی ہوتی ہے اور کسٹمز حکام کو بلوچستان میں سب سے زیادہ ٹیکس تفتان سے ہی ملتا ہے۔

ڈپٹی کلیکٹر کسٹمز مقبول قلندرانی کے مطابق ہر ماہ تقریبا 80 سے 90 کروڑ روپے ٹیکس وصول کرتے ہیں جبکہ سالانہ دس ارب روپے آمدنی ہوتی ہے۔

’یہاں امپورٹ زیادہ ہے اور ایکسپورٹ کم ہے۔ یہاں سے چاول اور موسمی فروٹ ایکسپورٹ ہوا کرتے تھے اور ایران سے امپورٹ میں سب سے زیادہ ایل پی جی آتا ہے۔ اس کے علاوہ اسکریپ، کھجور، ٹائلس، سیمنٹ اور ڈامر شامل ہے۔‘

ایران سے لوگوں کی لوگوں سے تجارت کا ایک دوسرا ذریعہ بھی ہے۔ کوئٹہ سے تفتان تک تقریبا 400 کلومیٹر کے فاصلے میں ہر کلومیٹر پر ایک آسمانی رنگ کی پک اپ جسے زمباد کہا جاتا ہے، تیل کے ڈرموں سے لدی ہوئی نظر آتی ہیں جس کے ذریعے ایران سے اسمگل شدہ پیٹرول اور تیل کی منتقلی کی جاتی ہے۔

تفتان سے لے کر کوئٹہ کے مشرقی بائی پاس اور آر سی ڈی شاہراہ پر واقع حب تک تیل کی رسد زمباد کے ذریعے پہنچائی جاتی ہے۔

پاکستان ایران بارڈر

تافتان سے لے کر کوئٹہ کے مشرقی بائی پاس اور آر سی ڈی شاہراہ پر حب تک تیل کی رسد زمباد پہنچاتی ہیں

ڈپٹی کلیکٹر کسٹمز مقبول قلندرانی کے مطابق ایرانی ڈیزل اسمگل ہوتا ہے وہ امپورٹ نہیں ہوتا۔ کسٹمز نے کئی کیسز پکڑے بھی ہیں لیکن سرحد کھلی ہے اور کئی راستے نکلتے ہیں لیکن جتنا بھی ہوسکتا ہے وہ کرتے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر چاغی فتح خان خجک کا کہنا ہے کہ زیرو پوائنٹ پر ٹریڈ گیٹ سے گزشتہ تین ماہ سے ہماری چیزیں ایکسپورٹ نہیں ہو رہیں جس میں فروٹ، بچوں کے کھلونے اور چاول شامل تھے۔

ایرانی حکام سے ملاقات میں ان سے یہ شکایت کی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ مارچ تک اجازت دے دیں گے۔

پاکستان اور ایران بارڈر 904 کلومیٹر طویل ہے جس میں بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاوہ واشک، پنجگور، کیچ، تربت اور گودار شامل ہیں۔

ان علاقوں میں خوردنوش کی اشیا سمیت تیل اور موٹر سائیکلیں بھی ایرانی استعمال ہوتی ہیں جبکہ سرکاری طور ایران بجلی بھی فراہم کرتا ہے۔ اس طرح یہ اضلاع ایران کی ایک بڑی مارکیٹ کے طور پر موجود ہیں۔

پاکستان ایران بارڈر

بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے مزدور کام کاج کے لیے ایران کے صوبے سیستان اور دیگر علاقوں میں جاتے رہے ہیں

بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے مزدور کام کاج کے لیے ایران کے صوبے سیستان اور دیگر علاقوں میں جاتے رہے ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں سے ایران میں تخریب کاری کے واقعات کے بعد پالیسی میں تبدیلی آئی ہے اور اب صرف 15 روز اور محدود علاقے تک راہداری دی جاتی ہے۔

گزشتہ دنوں ایرانی فورس پر حملے میں 27 اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد ایران کی فوج کے سربراہ نے الزام عائد کیا تھا کہ بمبار پاکستانی تھا۔

ڈپٹی کمشنر چاغی فتح خان خجک کے مطابق لیویز اور پولیس کی تصدیق کے بعد ایک فارم پر کیا جاتا ہے جس میں شناختی کارڈ اور ایران میں ان کی تفصیلات اور نمبر فراہم کیے جاتے ہیں۔

پاکستان اور ایران آپس کی تجارت کا حجم آٹھ ارب ڈالر تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن امریکی پابندیوں اور غیر ریاستی عناصر اس میں ایک بڑی رکاوٹ نظر آتی ہیں۔

امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کا کوئی بینک ایران میں اپنی برانچ کھولنے کے لیے بھی تیار نہیں جس وجہ سے یہ کاروبار نقد یا اشیا کے بدلے اشیا میں ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32536 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp