بچوں اور بڑوں میں ٹائپ ون ذیابیطس کی پیچیدگیاں


مجھے کچھ ہفتے پہلے یہ بات معلوم ہوئی کہ پاکستان کے بڑے شہروں ‌ میں ‌ بھی ابھی تک پیڈیاٹرک اینڈوکرنالوجسٹ نہیں ہیں۔ 2019 میں ‌ پیڈیاٹرک اینڈوکرنالوجی جرنل میں ‌ چھپنے والے جاوید اے ایٹ ایل کے آرٹیکل کے مطابق کراچی میں ‌ ذیابیطس کیٹو ایسیڈوسس کے مریضوں ‌ میں ‌ موت کی شرح‌ 5 سے لے کر 24 فیصد تک دیکھی گئی ہے یعنی کہ سو میں ‌ سے 5 سے لے کر 24 بچے تک مرجاتے ہیں۔ حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں ‌ یہ شرح‌ صفر اعشاریہ ایک ہے۔

یعنی کہ ایک ہزار افراد میں ‌ سے ایک کی موت ہوتی ہے۔ یہ اعداد وشمار نہایت تشویش ناک ہیں۔ ذیابیطس کے میدان میں ‌ مزید ڈاکٹرز کی ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ خواتین ڈاکٹرز کو اس طرح‌ کام کا ماحول فراہم ہونا چاہیے جس میں ‌ وہ بغیر خوف و ہراس اپنی قوم کے لوگوں ‌ کی صحت بہتر بنانے پر کام کرسکیں۔ اس کے علاوہ ماؤں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے معصوم بچوں ‌ کی اس پیچیدہ بیماری کو سمجھ سکیں ‌ اور اس کے علاج میں ‌ ہاتھ بٹا سکیں۔ اپنے سامنے اپنے بچوں ‌ کو مرتے دیکھنا کوئی آسان کام نہیں ‌ ہے۔

ویسے تو ہر مریض‌ کے لیے ضروری ہے کہ اس کو اپنی بیماری کے بارے میں ‌ زیادہ سے زیادہ معلومات ہوں لیکن یہ بات ذیابیطس کے مریض‌ کے لیے اور بھی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ذیابیطس کے مرض‌ کے کامیاب علاج کا دارومدار مریض پر خود ہے۔ بچپن میں ‌ یہ مریض اپنے خاندان پر انحصار کرتے ہیں۔

ذیابیطس کی دو اقسام ہیں۔ ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو۔ تقریباً پچانوے فیصد ذیابیطس کے مریضوں ‌ کو ٹائپ ٹو ذیابیطس ہوتی ہے۔ ٹائپ ون ذیابیطس کی شرح‌ پانچ فیصد ہے۔ ان دونوں ‌ اقسام میں ‌ فرق ہے اور ان کا علاج بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ آج کا مضمون ٹائپ ون ذیابیطس کے مریضوں ‌ سے متعلق ہے۔ ٹائپ ون ذیابیطس ایک آٹو امیون بیماری ہے۔ یہ خاندانوں ‌ میں ‌ جینیاتی طریقے سے منتقل ہوتی ہے۔ اس بیماری میں ‌ جسم کا مدافعتی نظام لبلبے کے انسولین بنانے والے خلیوں ‌ پر حملہ آور ہوتا ہے اور ان کو تباہ کردیتا ہے۔ ان مریضوں ‌ کو شروع سے ہی انسولین استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں ٹائپ ٹو ذیابیطس میں ‌ شروع میں ‌ گولیوں ‌ کے ذریعے علاج ممکن ہوتا ہے۔

ٹائپ ون ذیابیطس کے مریضوں ‌ کی اوسط عمر 12 سال ہے۔ یہ زیادہ تر بچپن میں ‌ ہوجاتی ہے۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس ادھیڑ پن میں ‌ جاکر ہوتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے مٹاپے کی شرح‌ میں ‌ اضافہ ہورہا ہے، مریضوں ‌ میں ‌ کم عمری میں ‌ بھی ذیابیطس ٹائپ ٹو ہورہی ہے۔

ذیابیطس کے مریضوں ‌ میں ‌ اگر خون میں ‌ شوگر کی مقدار نارمل دائرے میں ‌ نہ رکھی جائے تو اس کی فوری اور طویل عرصے کی پیچیدگیاں ‌ پیدا ہوتی ہیں۔ فوراً ہوجانے والی پیچیدگیوں ‌ میں ‌ ہائپوگلائسیمیا یا خون میں ‌ شوگر کا نہایت کم ہوجانا اور ڈی کے اے یعنی کہ ذیابیطس کیٹو ایسیڈوسس شامل ہیں۔

ہائپوگلائیسیما

اگر خون میں ‌ شوگر 60 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر سے کم ہوجائے تو اس کو ہائپوگلائسیمیا کہتے ہیں۔ خون میں ‌ شوگر کے نہایت کم ہوجانے کا فوری علاج نہ کیا جائے تو یہ مریض‌ کوما میں ‌ بھی جاسکتے ہیں۔ کچھ لوگ سوتے میں ہائپوگلائسیمیا کے ساتھ مرجاتے ہیں۔ اس کی علامات میں ‌ زور زور سے دل دھڑکنا، پسینہ آنا، بھوک لگنا، چڑچڑا پن، سر میں ‌ درد اور بے چینی محسوس کرنا شامل ہیں۔ اگر مریض کھا پی سکتے ہیں تو ان کو 15 گرام کارب سے علاج کا مشورہ دیا جاتاہے۔

15 گرام کارب کی کچھ مثالیں یہ ہیں۔ چار گلوکوز کی گولیاں، چار اونس اورنج جوس، چار اونس پیپسی یا کوک یا چکنائی نکالا ہوا دودھ۔ اس کے پندرہ منٹ کے بعد مریض‌ کو پھر سے شوگر چیک کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس کو رول آف 15 کہتے ہیں۔ اگر کوئی مریض‌ بے ہوش ہو تو اس کو نسوں ‌ کے ذریعے گلوکوز دی جاتی ہے۔ ان مریضوں ‌ کو گلوکاگان کا انجکشن بھی لگا سکتے ہیں۔ تمام ٹائپ ون ذیابیطس کے مریضوں ‌ کے خاندان والوں ‌ کو معلوم ہونا چاہیے کہ گلوکاگان کا انجکشن کیسے لگاتے ہیں۔ جن لوگوں ‌ کو باربار ہائپوگلائسیمیا ہو تو وہ اس کو محسوس کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں جو کہ ایک خطرناک بات ہے۔

ڈی کے اے

ڈی کے اے ایک سنجیدہ پیچیدگی ہے۔ جیسا کہ اوپر بھی کہا گیا ہے اس پیچیدگی سے مریضوں ‌ کی موت تک واقع ہوجاتی ہے۔ جب میں ‌ نے نارمن ہسپتال میں ‌ دس سال پہلے کام کرنا شروع کیا تو یہاں ‌ ڈی کے اے پروٹوکول نہیں ‌ تھا۔ پہیہ جب ایجاد ہوچکا ہو تو اس کو دوبارہ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ‌ ہوتی۔ میں ‌ نے کینساس کے ایک پروفیسر سے درخواست کی کہ وہ اپنی یونیورسٹی کا پروٹوکول مجھے استعمال کرنے کی اجازت دیں۔ اس کو نارمن ہسپتال کی کمیٹیوں ‌ کی کافی ساری میٹنگز کے بعد مقامی ضروریات کے لحاظ سے ردوبدل کے بعد ہسپتال میں ‌ لاگو کرنے پر پورا ایک سال خرچ ہوا۔

کوئی بھی نظام تبدیل کرنا ہتھیلی پر سرسوں ‌ جمانے کی طرح‌ نہیں ہوسکتا۔ اس میں ‌ بہت سارا کام بھی کرنا ہوتا ہے اور ٹیم ورک کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ لیکن مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ اس قدم سے بہت سارے مریضوں ‌ کا بھلا ہوا۔ گوگل استعمال کرکے بڑی یونیورسٹیوں کے ہسپتال کے ڈی کے اے پروٹوکول ڈاؤن لوڈ کرنا کچھ مشکل کام نہیں ہے اور اب تو انٹرنیٹ دور دور تک پہنچ چکا ہے۔ ڈی کی اے کا علاج بنیادی طور پر جسم میں ‌ پانی کی کمی درست کرنے، خون میں ‌ شوگر کم کرنے اور الیکٹرولائٹس کو نارمل دائرے میں رکھنے پر مبنی ہے۔

ذیابیطس کی طویل عرصے کی پیچیدگیاں ‌ کون سی ہیں؟

ذیابیطس کی طویل عرصے کی پیچیدگیوں ‌ میں ‌ اندھا پن، گردے فیل ہوجانا، نیوروپیتھی، دل کے دورے اور فالج کی بیماری شامل ہیں۔

ذیابیطس ٹائپ ون کا علاج کیسے کرتے ہیں؟

ذیابیطس ٹائپ ون کا علاج انسولین سے کرتے ہیں۔ انسولین تین طرح کی ہیں۔ طویل عرصے کی انسولین، چھوٹے عرصے کی انسولین اور درمیانے عرصے کی انسولین۔ ذیابیطس ٹائپ ون کا علاج انسولین کے باقاعدہ استعمال اور خون میں ‌ شوگر کی مقدار پر نظر رکھنے پر مبنی ہے۔

تمام ملک کے ہر شہر میں ‌ ایک ذیابیطس ایجوکیشن سینٹر بنانے کی ضرورت ہے۔ ان ایجوکیشن سینٹرز سے نہ صرف عوام کی صحت بہتر ہوگی بلکہ اس سے کافی نوجوان مرد اور خواتین کو نوکریاں ‌ بھی مل سکیں ‌ گی۔ نارمن ہسپتال میں ‌ اینڈوکرنالوجی سیکھنا بالکل فری ہے۔ اس میں ‌ دلچسپی رکھنے والے سنجیدہ میڈیکل اسٹوڈنٹس درخواست جمع کرواسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).