سعودی عرب کی سڑکوں پر سرکاری سرپرستی میں ہولی کا تہوار


سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں ”یلاشرقیہ سیزن“ کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ سیزن سعودیہ کے نیشنل ٹرانسفارمیشن پروگرام 2020 کے تحت منایا جا رہا ہے۔ سعودیہ کی جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے مطابق ان تقریبات کا مقصد سعودیہ ویژن 2030 کے مطابق ملک کو ایک ترقی پسند اور روشن خیال ملک کے طور پر سامنے لانا ہے۔ اور کونسل آف اکانامک ڈیویلپمنٹ اور دفاع کے وزیر ولی عہد محمد بن سلمان کی زیر قیادت ”The

Quality of life 2020 ”کا یہ پروگرام سیزنز کے تسلسل کا آغاز ہے جو اگلے دو سال میں ملک کے مختلف حصوں میں منائے جائیں گے۔ ملک کا یہ مشرقی صوبہ اپنے خوبصورت ساحلوں، سیاحتی مقامات اور تفریح کے ذرائع کے لئے مشہور ہے۔ 14 مارچ سے شروع تقریبات کا یہ سلسلہ تیس مارچ تک جاری رہے گا۔

ان تقریبات کی ایک خاص بات 23 مارچ کو سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ الخوبار میں سن سلک کے تعاون سے منعقد کی جانے والی پانچ کلومیٹر کی ”رنگوں والی ریس“ تھی جو گزشتہ ہفتے ہندو مذہب کے تہوار ”ہولی“ کی مناسبت سے منعقد کی گئی تھی۔ اس دوڑ میں دس ہزار سے زائد مرد، خواتین اور بچوں نے شرکت کی۔ دوڑ کے دوران شرکاٗ نے نہ صرف ایک دوسرے پر رنگ پھینکے۔ بلکہ راستے میں ان پر رنگ پھینکنے کے لئے جگہ جگہ خواتین کی ڈیوٹیاں بھی لگائی گئیں۔

سعودیہ کی جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے مطابق رنگوں والی ریس کا مقصدشہریوں میں ورزش اور دوڑنے کا رجحان بھی پیدا کرنا تھا۔ ان تقریبات میں امریکہ کے مشہور گائیک پٹ بل (Pitbull) اور اکون (Akon) خصوصی کنسرٹ کر رہے ہیں۔ جب کی بالی ووڈ کے سپر سٹار سلمان خان بھی الخوبار کے بالی ووڈ فیسٹول میں شرکت کریں گے۔

سعودیہ میں ڈش کے کاروبار سے منسلک ایک پاکستانی نے بتایا کہ انہوں نے 1996 میں وہاں ڈش انٹینا سروس پرووائیڈر اور انسٹالیشن کا کام شروع کیا۔ ان کے مطابق سعودیہ میں مصری فلمیں دیکھنے کا رجحان بہت زیادہ تھا۔ جس میں مصری میوزک، ڈانس اور فنکاروں کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔ ان کے مطابق ڈش اور ٹیلی وژن کا رجحان اس قدر تھا کہ رمضان کے مہینے میں سارے سال کی نسبت زیادہ کام ہوتا تھا۔ اگرچہ خواتین برقعے کے ساتھ ساتھ ہاتھوں پر دستانے پہنتی تھیں۔ لیکن انگریزی چینلز سمیت مصر کی اندسٹری کی ڈیمانڈ حد سے زیادہ تھی۔ میوزک کنسرٹس، ریس، سپورٹس اور دیگر تقریبات میں مردوں اور عورتوں کی پھرپور شرکت سے اندازہ ہوتا ہے کہ سعودیہ میں قدامت پسندی کا 86 سالہ غلبہ مصنوعی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سعودیہ مزید جدت کی طرف جائے گا۔

ولی عہد محمد بن سلمان کی نوجوان قیادت میں سعودیہ بدل رہا ہے۔ محمد بن سلمان جنہوں نے حال ہی میں انٹریو دیتے ہوئے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کی ان کی زندگی کتنی ہے۔ لیکن وہ اگلے پچاس سال تک حکمران رہیں گے۔ ولی عہد کا عہدہ سنھبالنے کے بعد کئی جارحانہ اقدامات کی وجہ سے مشہور شہزادے نے کہا تھا کہ وہ ملک کو معتدل اسلام کی طرف واپس لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایم بی ایس کے لقب سے مشہور شہزادے نے اس سے پہلے اعتراف کیا تھا کہ مملکت نے امریکہ اور مغرب کے کہنے پر سوویت یونین کی سرد جنگ کے دوران پوری مسلم دنیا میں وہابیت پھیلانے کے لئے فنڈنگ کی تا کہ مسلمان ملکوں میں روسی تسلط قائم نہ ہو سکے۔

اس فنڈنگ سے انہوں نے مسلم دنیا میں مساجد اور مدرسوں کا جال پھیلا دیا۔ پاکستان ان مرکزی ملکوں میں تھا جب جنرل ضیاٗ کے دور میں سعودی عرب کے مالی تعاون سے ایک خاص مسلک کی مسجدوں اور مدرسوں کا جال بچھایا گیا۔ یہی مدرسے افغانستان میں جہاد کے لئے نرسری کے طور پر کام کرتے رہے۔ ان مدرسوں سے مختلف جہادی گروپ ابھرے۔ افغانستان میں روسی انخلاٗ کے بعد آہستہ آہستہ سعودی فنڈنگ بند ہوتی گئی اور ان مسلح گروپوں نے اپنی بقا کے لئے دیگر راستے اختیار کیے۔

معروف صحافی وسعت اللہ خان نے ایک گفتگو میں کہا تھا۔ کہ پاکستان وہ معاشرہ ہے جس نے جدت پسندی سے قدامت پسندی کی طرف تیزی سے سفر کیا۔ جب کہ اب میرا خیال ہے کہ سعودیہ وہ معاشرہ ہو گا جو اس سے زیادہ تیزی سے قدامت پسندی سے جدت پسندی کی طرف رواں دواں ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اپنے روحانی ملک سے جدت پسندی کا یہ سبق سیکھے گا یا پھر سعودیہ کے بوئے بیج سے نشونما پانے والے مسلح گروپوں اور مدارس کے تسلط میں جھکڑا رہے گا۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).